Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Mehngi Taleem Madrasa Culture Ka Farogh

Mehngi Taleem Madrasa Culture Ka Farogh

مہنگی تعلیم مدرسہ کلچر کا فروغ

بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں۔ سوچا کہ کسی طرح انتظام و انصرام کرکے نویں جماعت کے بیٹے کے لیے کوئی ٹیوٹر یا ٹیوشن کا بندوبست ہو جائے تاکہ پڑھائی متاثر نہ ہو اور بورڈ کے امتحان میں اچھے گریڈ کی امید باندھی جائے۔

اس ضمن میں گھر کے نزدیک دو اکیڈمیوں سے رابطہ کیا تو ان کی ماہانہ فیس نے دن میں تارے دکھا دئیے کہ دس ہزار روپے مہینہ کی فیس ایک ملازم پیشہ والد کے لیے اوکھے سوکھے ہو کر بھی افورڈایبل نہیں رہتی۔ دوسری طرف اتنی ہی فیس سکول کی بھی جا رہی ہے۔

اسی اثناء میں ہوم ٹیوٹر بارے بھی اتہ پتہ کیا جو کہ اکیڈیمی سے بھی مہنگا پڑتا ہے اور روزانہ کی خاطر مدارت کا خرچہ الگ۔

صرف یہیں پر بس نہیں کی بلکہ آن لائن کلاسز کا بھی جائزہ لیا جو کہ فی سبجیکٹ کے حساب سے بعض ٹیچرز نے رکھی ہوئی ہیں۔ انکی ماہانہ اوسط فیس ڈھائی ہزار روپے ہے اور زوم کلاس کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

ایک اور ذریعہ بھی تلاش کرنے کی کوشش کی کہ سکول کا ٹیچر ہی ٹیوشن پڑھا دے۔ لیکن سکول ٹیچرز نے صاف جواب دے دیا کہ وہ ٹیوشن نہیں پڑھاتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سکول اپنے اساتذہ کو اچھی تنخواہیں اور مراعات دیتا ہے جس کی وجہ سے ٹیچرز کو پارٹ ٹائم ٹیوشن پڑھانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ نتیجتاً ٹیچرز اپنی تمام توانائیاں سکول کے بچوں پر صرف کرتے ہیں۔

اکیڈیمیوں میں کم تعلیم یافتہ اور غیر پیشہ وارانہ اساتذہ کو عام طور پر تدریس کے فرائض سونپے جاتے ہیں تاکہ اکیڈمی مالکان کو اساتذہ کو کم سے کم اجرت دینی پڑے۔ عموماً لوکل طالب علم اساتذہ ہی اکیڈیمیوں میں پڑھاتے ہیں تاکہ اپنی فیس یا حقہ پانی کا بندوبست کر سکیں۔

آن لائن ایڈمیشن اس لیے ممکن نہیں کہ اول اس میں فراڈ کا خدشہ رہتا ہے کہ کیا معلوم فیس لیکر غائب ہو جائیں۔ دوم آن لائن پڑھائی فزیکل کلاسز کا کبھی بھی نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ سوم، کمزور انٹرنیٹ، لوڈ شیڈنگ اور بار بار بجلی کی ٹرپنگ سے ان لائن پڑھائی ممکن نہیں۔ چہارم، گرمی میں کمپیوٹر کے سامنے گھنٹہ بھر بیٹھنا بچوں کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ بچے ایک جگہ ٹک کر بیٹھ جائیں تو وہ بچے نہیں بلکہ بابا جی لگنے لگتے ہیں۔

گویا بچوں کی سکول کی تعلیم مڈل کلاس اور اپر کلاس دونوں کے لیے مہنگی ہو چکی ہے۔ ہماری دانست میں رسمی تعلیم کو مہنگا کرنا مدرسہ کلچر کو فروغ دینے کی طرف ایک گمنام قدم ہے۔ مدرسوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض مدارس بچوں کو کھانا پینا، رہائش اور وظائف بھی دیتے ہیں۔ مدرسوں میں مذھبی تعلیم کو ہی فوکس کیا جاتا ہے جبکہ دنیاوی تعلیم کو برائے نام تھوڑا بہت شامل کیا جاتا ہے کہ بچے مکمل ہی دنیا سے کٹ کر نہ رہ جائیں۔ مدرسہ کلچر کا فروغ اشرافیہ، پالیسی سازوں اور بیوروکریسی کے پلڑے میں جاتا ہے کہ انکے اپنے بچوں کو کرسی تک رسائی بلا مقابلہ مل سکے گی۔

کہا جاتا ہے کہ جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا کے مصداق والدین کو اپنے دیگر اخراجات میں کمی کرکے بچوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ بچے عملی زندگی میں خوشحالی کی طرف پر تول سکیں۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گڑ دیکھ بھال کر ہی ڈالنا چاھیئے نہ کہ آنکھیں بند کرکے۔ اکیڈیمیوں میں پڑھائی کا معیار پست ہوتا ہے کہ یہ صرف کاروباری ذھنیت سے کھولی جاتی ہیں۔ ہوم ٹیوٹر ایک یا دو سبجیکٹ سے زیادہ نہیں پڑھاتے اور انکی فیس حد سے زائد ہوتی ہے۔ جبکہ ان لائن تعلیم قابل بھروسہ نہیں اور بچوں کی ناپختہ عمر کے تناظر میں بھی زیادہ کامیاب نہیں۔

تو پھر کیا کیا جائے کہ بچے تعلیمی میدان میں پیچھے نہ رہ جائیں؟ اسکا ایک ہی جواب ہے کہ والدین اپنے اندر دبی ہوئی انقلابی روح کو بیدار کریں اور بچوں کی پڑھائی کا خود ہی بیڑہ اٹھا لیں۔ اگرچہ آج کے والدین کی اکثریت اردو میڈیم ذریعہ تعلیم سے فارغ التحصیل ہے جبکہ انکے بچے انگلش میڈیم میں پڑھتے ہیں، اس لیے بچوں کو پڑھانے میں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر تھوڑی محنت کی جائے تو یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ حل نہ ہوسکے۔

آج کے بچے خود ہی کافی قابل ہیں، انہیں صرف ایک روڈ میپ مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا سلیبس وقت پر مکمل کر لیں۔ زیادہ تر صرف میتھ ہی واحد سبجیکٹ ہے جسے بچوں کو سمجھ کر پڑھنا پڑتا ہے۔ دیگر مضامین میں میموری زیادہ استعمال ہوتی ہے جو کہ بچوں کے پاس پہلے ہی اعلیٰ مقدار میں موجود ہوتی ہے۔

راقم کے بچے آج تک ٹیوشن نہیں پڑھے۔ ٹیوشن کے فرائض میں نے خود ادا کیے۔ اب ایک بچہ خیر سے نویں میں ہے تو مجھے کچھ تشویش ہوئی کہ یہ بورڈ کے امتحان کا معاملہ ہے، بچے کے کیریر کی بنیاد ہے، اس لیے یہاں پر خصوصی اور بروقت توجہ اشد ضروری ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔

اگر والدین تھوڑی محنت کریں تو وہ خود بچوں کو پڑھا کر اکیڈیمی کلچر کی نفی کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کی واقعی ہی فکر لاحق ہو تو وہ وقت کی کمی کو کسی نہ کسی طرح مینج کر سکتے ہیں۔ پڑھائی کا مواد، میتھ کے سوالات کی سمجھ بوجھ کے لیے ہیلپنگ بکس، اے آئی ٹولز سے مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کے علاؤہ سوشل میڈیا پر بھی بیشمار گروپس اور پیج ہیں جو تمام کلاسز کے مضامین بارے ہیں۔ المختصر، بقول حیدر علی آتش:

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

آج اگر والدین اپنے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ خود اٹھا لیں تو وہ ایک تیر سے کئی شکار کر سکتے ہیں۔ مثلآ اپنے بچوں کی تعلیمی استعداد خود جانچ سکتے ہیں، تعلیمی کاروبار کی حوصلہ شکنی ہوگی، اکیڈیمیوں کی فیسیں گر جائیں گی اور سب سے بڑھ کر ایلیٹ کلاس میں تشویش کی لہر اٹھ کھڑی ہوگی کہ اس کے مقابلہ کے لیے غریب والدین کے قابل بچے آن کھڑے ہوں گے جن کی تعلیم اسی وجہ سے مہنگی کر دی گئی ہے تاکہ یہ بچے اشرافیہ کے بچوں سے ہمیشہ کم تعلیمی قابلیت رکھیں تاکہ کرسی تک نہ پہنچ سکیں جسے ایلیٹ طبقہ اپنی وراثتی جاگیر سمجھتا ہے۔

Check Also

Field Marshal Ko Americi Sadar Se Mulaqat Nahi Karni Chahiye Thi?

By Najam Wali Khan