Madaris Ki Registration
مدارس کی رجسٹریشن
26 ویں آینی ترمیم کا ڈھول دو ماہ بجتا رہا اور اس پر تفصیلی بحت مباحثے ہوئے، مولانا فصل الرحمان کا گھر مہمانوں سے بھرا رہتا۔ لیکن مدارس بل بارے کسی کو معمولی سی بھی خبر نہ ہوئی۔ نہ اسمبلی میں اس پر کوئی رولا رپا ہوا۔ نہ میڈیا اور اخبارات کی زینت بنا۔ عوام الناس کو مدارس رجسٹریشن بل بارے تب علم ہوا جب صدر زرداری نے اس بل پر دستخط کیے بغیر اعتراضات لگا کو واپس بھیج دیا۔ یعنی اس بل کو عوام کو اندھیرے میں رکھ کرپایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اس سے یہ بات طے ہے کہ یہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر زیر زمین فیصلہ کیا گیا تھا۔
اگر معاہدہ تھا تو زرداری صاحب کے پاس دستخط نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ لیکن چونکہ نہ مدراس رجسٹریشن بل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور نہ ہی اس کے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم فوائد و نقصانات بارے کوئی جائزہ لیا گیا، اس لیے عین ممکن ہے کہ صدر پاکستان نے ملک کی بہتری کے لیے اس بل پر ازسر نو غور و خوص کرنے کے لیے اعتراضات اٹھائے ہوں۔ یہ اس لیے بھی ممکن ہے کہ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے کھپے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اس پر من و عن عمل کیا۔
بہرحال دیر آید درست آید کی مانند بالآخر صدر مملکت آصف علی زرداری نے مدارس رجسٹریشن بل پر دستخط نہ کرنے اور اعتراضات بارے خاموشی توڑ تے ہوئے اعتراضات بارے آگاہ کر دیاہے کہ سوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت مدارس کو رجسٹر کرنے سے ان کا تعلیم کے علاوہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ ایکٹ 1860ء میں مدرسے کا ذکر موجود نہیں۔ نیز سوسائٹی ایکٹ کے تحت بہت سے مدارس کے رجسٹریشن سے فرقہ واریت پھیلنے کا خدشہ ہوگااور عالمی ادارے پاکستان بارے اپنی رائے اور ریٹنگ میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اگر بغور دیکھا جائے تو آصف علی زرداری کے اعتراضات بالکل بجا ہیں اور دشمن بھی یہ بات مانتے ہیں کہ زرداری ایک دور اندیش سیاستدان ہیں اور دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس بل کا ایشو صرف یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت کرنے کے خواہشمند ہیں جبکہ صدر پاکستان یا دیگر الفاظ میں پاکستان پیپلز پارٹی مدارس کی رجسٹریشن بارے فیصلہ کرنے کے لیے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہتی ہے اور مدارس کو محکمہ تعلیم کے تحت رجسٹریشن کی خواستگار ہے۔
سوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1860ء کو بنا اور اس کے بننے کے فوراً بعد سرسید احمد خان نے دھڑا دھڑ تعلیمی ادارے کھولے جن میں گلشن سکول مرادآباد، وکٹوریہ سکول غازی پور، سائنٹیفک سوسائٹی اور محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج نمایاں ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1860ء انگریزوں نے اسی لیے برصغیر میں بنایا تاکہ سرسید احمد خان کی تعلیمی کاوشوں کو رجسٹر کیا جا سکے اور ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکے۔
اُنیسویں صدی میں یا تو مدرسہ کلچر تھا، یا انگریزوں کے مشنری سکول تھے اور یا پھر سرسید احمد خان کے نیم مذہبی نیم جدید تعلیمی ادارے تھے۔ سرسید نے انگریزوں کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے سائنسی تعلیم پر زور دیا۔ جبکہ مدرسوں میں صرف دینی تعلیم مہیا کی جاتی تھی۔ سائنسی تعلیم کا یہ فائدہ بچوں تک پہنچتا ہے کہ وہ غور و فکر کرنے کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں، محض سنی سنائی باتوں پر اکتفا نہیں کرتے یا دیگر الفاظ میں برین واش آسانی سے نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان کا تعلیمی بندوبست ہی کچھ اس قسم کا ہے کہ اچھا بھلہ ضدی بچہ بھی برین واش ہو جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ محکمہ تعلیم میں مدارس کی رجسٹریشن پر زور کیوں دیا جا رہا ہے؟ ہماری دانست میں یہ زور بھی ناک کی سیدھ تک رسائی کی وجہ سے ہے۔ محکمہ تعلیم تو اپنے سکول بھی پرائیویٹ کر رہا ہے اور مختلف این جی اووز کو دے رہا ہے۔ یعنی یہ تعلیم سے گلو خلاصی کی طرف گامزن ہے۔ ایسی صورتحال میں تو محکمہ تعلیم کو بھی بوجھ گردانتے ہوئے ختم کر دینا چاہیے جیسے بزرگوں اور بیواؤں کی پنشن کو حکومت بوجھ مانتی ہے اور اس کے دوالے ہاتھ دھو کر بیٹھی ہوئی ہے۔ رو ز بروز پنشن قوانین میں ترمیمیں کرکے پنشن کم سے کم کی جا رہی ہے۔
جب محکمہ تعلیم بغیر سکولوں کے ہے تو اس صورتحال میں مدارس کو اس کی زیر نگرانی لانے کا کیا تُک بنتا ہے؟ مدارس بھی تعلیمی ادارے ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری سکول بھی تعلیمی ادارے ہیں۔ ان میں کیا فرق ہے؟ غور کریں تو فرق صرف اُنیس بیس کا یا پینٹ اور شلواروں کا ہوگا۔ نصاب میں فرق آج کوئی نہیں رہا۔ حکومت نے سکولوں میں عربی، ترجمتہ القرآن، اسلامیات کے لازمی مضامین رکھے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مطالعہ پاکستان، اردو، انگریزی، سائنس تمام مضامین میں بھی کسی نہ کسی طرح مدرسہ کلچر تھوڑا یا زیادہ نظر آتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف یہی حکومت مدرسوں میں جدید مضامین، کمپیوٹر، سائنس، تاریخ، انگریزی مضامین پڑھانا چاہتی ہے۔ گویا حکومت سکولوں کو مدرسے بنانا چاہتی ہے اور مدرسوں کو سکول۔ ایسے ہی موقع کے لیے شاعر نے بہت خوب کہا تھا:
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ہماری دانست میں مدارس کی رجسٹریشن نہ ہی سوسائٹیزرجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت ہونی چاہیے اور نہ ہی انہیں محکمہ تعلیم کے ماتحت کرنا چاہیے کہ اول تو محکمہ تعلیم اب برائے نام ہے اور یا پھر اس محکمہ تعلیم میں بذات خود ' مدرسہ کلچر' موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ قوم میں نہ برداشت پیدا ہوتی ہے، نہ شیعہ سنی تنازعہ ختم ہوتا ہے، نہ منطق پسندی ترجیح بنتی ہے اور نہ ہی احتجاج کرنے کا طریقہ آتا ہے کہ ایک گملہ بھی نہ ٹوٹے۔ لہذا ہمارے خیال میں مدارس کی رجسٹریشن محکمہ اوقاف کے تحت ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات کہ محکمہ اوقاف نہ مساجد کی رجسٹریشن کر سکا اور نہ ہی لاؤڈ اسپیکر کا بے جا استعمال ختم کروا سکا ہے۔