Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Istehsal Zada Muashra

Istehsal Zada Muashra

استحصال زدہ معاشرہ

بھینس کا دودھ ہم سب پیتے ہیں اور بچوں کے لیے یہ روزانہ کی خوراک ہے۔ بھینس ہمارے لیے دودھ کی پیداوار کا ایک اہم اور بڑا ذریعہ ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بچپن میں پنڈ رہتے ہوئے معلوم ہوا تھا کہ دادکے اور نانکے بھینسیں خریدنے کے لیے ساہیوال، اوکاڑہ اور پاکپتن جاتے تھے کہ پنجاب میں ان علاقوں کی بھینسیں بہت زیادہ دودھ دیتی تھیں۔ آج بھی ان علاقوں کی بھینسوں کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ دیکھا جائے تو قدرت نے بھینس کو جو دودھ دیا ہے وہ دراصل اس کے بچوں کے لیے دیا ہے۔ اس دودھ پر قدرتی اور حقیقی حق بھینس کے بچے ہی کا ہے۔

مگر ہم بھی بھینس کے بچوں کے حق میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں معروف ہے کہ حج کرنے سے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور اسی سوچ کے تحت چھوٹے موٹے گناہ آئے روز کرتے رہتے ہیں کہ ایک دن سب بخشوا لیں گے۔ بالکل اسی طرح بھینس کے دودھ پر شب خون مارنے کو بھی ہم اپنا حق جتا لیتے ہیں کہ بھینس کو پالنا پوسنا، دیکھ بھال کرنا، پَٹھے کھلانا، کھیتوں، پگڈنڈیوں اور کھالوں میں اسے چارنا، چھپڑ میں اسے نہلانا وغیرہ جیسی محنت جب ہم کرتے ہیں تو بھینس کے دودھ میں سے حصہ وصول کرنا بھی ہمارا حق ٹھہرتا ہے۔

زیادہ سے زیادہ دودھ کی شکل میں مبینہ حق وصول کرنے کے لیے ہم ایک اور ظلم کرتے ہیں کہ بھینس کے بچے یعنی کَٹے یا کَٹی کو بھینس سے اتنی دُور کِلے پر رسے سے باندھ کر رکھتے ہیں کہ بھینس کا بچہ دودھ پینے کے لیے بھینس تک نہ پہنچ سکے۔ ظاہر ہے کہ بھینس کے بچے کو کُھلا چھوڑ دیں گے تو وہ سارا دودھ پی جائے گا۔ ہم صرف رسا تب کھولتے ہیں کہ بھینس کا بچہ چند منٹ کے لیے صرف اتنا دودھ پی سکے کہ جس سے وہ صرف زندہ رہ سکے اور باقی تمام دودھ ہمارے کام آئے۔ حقیقتاً یہ سارا عمل استحصال کے ذمرے میں آتا ہے۔

آج اکیسیویں صدی میں استحصال کو براہ راست جاری رکھنا ممکن نہیں رہا کیونکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی پاداش میں حکومتوں کی سُبکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے استحصال کرنے کے کئی قانونی اور مہذب طریقے بروئے عمل لائے جا رہے ہیں جسے ہم اپنی ماں بولی پنجابی میں گُڑ دے کر مارنا کہتے ہیں۔ آج پاکستانی حکومت اور اس کے ادارے عوام کا استحصال ایسے طریقوں سے کر رہے ہیں کہ عوام چند لمحات کے لیے تو یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ استحصال نہیں بلکہ حکومتی حق ہے اور امن و امان کی بحالی اور "سب سے پہلے پاکستان"کے لیے ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر عوامی اظہار رائے کا استحصال کرنے کے لیے حکومت نے پہلے پہل فائر وال نصب کی، پھر سمندر میں فائبر کیبل میں خرابی کا ڈرامہ کیا۔ جب بات نہ بن پائی اور عوامی رائے پر حکومت کو مغلوب ہونا پڑا تو ٹوئیٹر (موجودہ ایکس) کو بند کر دیا گیا۔ وی پی این حکومت کو کھٹکا تو اس نے ایک اور مذہبی کارڈ کھیلا اور توہین مذہب قانون کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا میں خوف و ہراس پیدا کیا۔ پیکا ایکٹ کو جنم دیا گیا اور اس ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات قائم کیے گئے اور بہت سے لوگ آج جیلوں میں بند کیے گئے ہیں۔ حالات اس قدر خوفناک صورت اختیار کر چکے ہیں کہ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ میں وہ گہما گہمی آج نظر نہیں آتی جو چند ماہ قبل تھی۔ یہاں تک کہ ڈیلی اردو کالمز ڈاٹ کام میں لکھنے والوں کے بلاگز میں بھی وہ آب تاب اور بے دھڑکا پن نظر نہیں آرہا جو پیکا ایکٹ سے قبل نظر آتا تھا۔ گویا اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے حکومت وقت نے بھرپور چوکے چھکے لگائے ہیں اور فی الحال پِچ پر مکمل کنٹرول کیے بیٹھی ہے۔

حکومت کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ اپنے ایم این ایز کی تنخواہیں دو سو فیصد تک بڑھا لیں لیکن جب اگیکا کے رحمان باجوہ نے ملازمین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں ٹرخا دیا گیا۔ بلوچستان میں دہشتگردی کی حالیہ لہر کو روکنے کے لیے ہارڈ اسٹیٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو دہشتگردی معاشرہ کو سیاسی تحریک کے ذریعے تبدیل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان میں مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔

لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے اداروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھینس کے بچے کے دودھ کی طرح لوگوں کے حصے کو ہھتیانے کے لیے معیشت کی بحالی کا ڈھکوسلہ چھوڑا جاتا ہے۔ مریضوں کے استحصال پر مٹی پانے کے لیے میو ہسپتال اور جناح ہسپتال لاہور کے ایم ایس کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ ملازمین کے استحصال کو چھپانے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کا فخر سے اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آج پاکستان میں جگہ جگہ استحصال جاری ہے جو کبھی مذہبی لبادے میں کیا جا رہا ہے، کبھی اداروں کی ساکھ کے لبادے میں، کبھی قانون کے لبادے میں اور کبھی نظریاتی سرحدوں کی اوٹ میں۔ المختصر ہر جگہ شاؤنزم کا دور دورہ ہے۔

ملازمین کا استحصال سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔ کبھی خسارے کے نام پر اور کبھی رشوت کے نام پر۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کو خسارے میں لانے میں حکومت اور اس کی بیوروکریسی ذمہ دار ہے۔ ان کی نیتیں اچھی نہیں ہیں کیونکہ یہ سرمایہ داروں، صنعتکاروں، آڑھتیوں، بینکروں اور تاجروں کی حکومت ہے جو ہر ادارے میں عوامی مفاد کی بجائے اپنا ذاتی مفاد مقدم رکھتی ہے۔ یہاں یہ لکھنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان پوسٹ جو کہ خسارے میں ھٹ لسٹ پر ہے، اسے وزیر اعلیٰ پنجاب نے نگہبان رمضان پروگرام کے پے آرڈرز پینتیس لاکھ ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے منتخب کیا۔

پے آرڈرز کی تقسیم کے لیے پاکستان پوسٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کا نیٹ ورک پورے پنجاب میں قائم ہے۔ اس پراجیکٹ کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کے لیے پاکستان پوسٹ کے آفیسرز اور ملازمین نے دن رات کام کیا، ملازمین کی اتوار کی چھٹی تک ختم کر دی گئی تاکہ دس ہزار روپے پر مشمتل پے آرڈرز ضرورتمندوں تک وقت پر تقسیم ہو سکیں۔ ایک ہفتہ میں چالیس فیصد پے آرڈرز تقسیم کر دیئے گئے تو اچانک پاکستان پوسٹ سے یہ کام حکومت کے ضلعی دفاتر کو سونپ دیا گیا۔ فی پے آرڈرز پر تین سو بیس روپے کمیشن پاکستان پوسٹ کو ملنا تھا اور کل ملا کر ایک ارب روپے سے زائد ریونیو ملنا تھا۔ اس ریونیو نے پاکستان پوسٹ کے خسارے میں کمی کے لیے سنگ میل کا کردار ادا کرنا تھا۔ لکھنے کا مطلب یہ کہ حکومت خود ہی نہیں چاہتی کہ ادارے خسارے سے نکلیں۔ یہ تو وہی بات ہوگئی جیسے شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا تھا:

خضر کیوں کر بتائے کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے

حل کیا ہے؟ جب پون صدی سے حل نہیں نکل رہا تو اب حل کیونکر نکل سکتا ہے؟ اگر حل ہوتا تو لوگ یہاں سے زندہ بھاگنے کو ترجیح کیوں دینے لگتے؟ خبریں ہیں کہ حکومت نے خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کے لیے نئے مالی سے قبل جان چھڑانے کی تیاری کر رہی ہے اور ڈاؤن سائزنگ اور گولڈن شیک ھینڈ پالیسی لانے پر غور کر رہی ہے۔ اس بابت کئی ملازمین نے استفسار پر بتایا کہ وہ گولڈن شیک ھینڈ سے ملنے والی رقم سے خود اور اپنے بال بچوں کو لیکر بیرون ملک جانے کو ترجیح دیں گے۔ گویا حب الوطنی آج قصہ پارئینہ بن چکی ہے اور صرف مطالعہ پاکستان میں ہی زندہ ہے!

Check Also

Nojawan Nasal Umeed Kab Aur Kaise Ganwa Baithi?

By Nusrat Javed