Hatak e Izzat Qanoon, Media Aur Azadi e Raye
ہتک عزت قانون، میڈیا اور آزادی اظہارِ رائے
پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت قانون کا بل منظور کر لیا گیا۔ اس بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرانک، سائبر اور سوشل میڈیا پر ہوگا اور جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس دائر کیا جا سکے گا۔ اس بل پر نہ عوامی رائے طلب کی گئی، نہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا گیا، اُن کی ترامیم کو یکسر مسترد کر دیا گیا، اور نہ ہی اس بل سے براہ راست متاثر ہونے والے صحافیوں سے مشاورت کی گئی۔ عجلت میں کوئی بھی کام کبھی بھی پائیدار نہیں ہوتا، جلد یا بدیر کام میں رخنے نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ماضی کی تاریخ دیکھیں تو قومی سلامتی، امن و امان، فرقہ واریت اور فتنہ و فساد کے ضمن میں حکومتیں میڈیا پر پابندیاں عائد کرتی رہی ہیں۔ ہتک عزت بل کی طرز پر ایسے قانون پہلے ہی سے موجود ہیں مثال کے طور پر ضابطہ تعزیراتِ پاکستان دفعہ 124 الف، دفعہ 153 الف، دفعہ 55 کے تحت دو سال سے لیکر عمر قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ جبکہ دفعہ 12 کے تحت اخبارات پر سنسر شپ بھی لگایا جا سکتا ہے یا کسی اخبار کو مخصوص ایام تک بند بھی کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ دفعات 499 تا 502 جرائم ازالہ حیثیت عرفی سے متعلق ہیں جو قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ نیز کئی صحافتی ضابطے بھی وقتاً فوقتاً وضع کیے جاتے رہتے ہیں۔ پہلے سے قانون اور ضابطے موجود ہیں تو یکدم ایک اور بل پاس کرناچہ معنی؟
جب ہم ہتک عزت قانون کے بل کی رات کے اندھیرے میں منظوری کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے حکومت پنجاب بوٹ پالش کا ایک نیا طریقہ لے کر آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں عمران خان کو کئی مقدمات جن میں نو مئی اور آزادی مارچ قابل ذکر ہیں، میں بری کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح پرویز الہیٰ کو بھی جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ن لیگ نے بوٹ پالش کا ایک نیا طریقہ آزماتے ہوئے پی ٹی آئی اور اسٹیشبلیشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور رابطوں اور نئے سرے سے پینگھیں چڑھانے کو روکنے کے لیے ہتک عزت قانون کے بل کو منظور کر لیا ہے یہ خیال پال کر کہ کبھی کبھار کھوٹا سکہ بھی چل جاتا ہے کیونکہ ہتک عزت قانون کا سب سے زیادہ فائدہ اسٹیبلشمنٹ کو ہی ہوگا کہ یہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔
ہماری دانست میں اس بل کا پاس ہونا ن لیگ کے اپنے ہی بیانئے ووٹ کو عزت دو، مجھے کیوں نکالا کی نفی ہے اور یہ نفی غیر سیاسی سوچ کی پختگی کی کی عکاسی کرتی ہے اور محض اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ اور یہ سب آمریت میں ہوتا ہے نہ کہ جمہوریت میں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اپنے مشن سے ہٹ کر کاروباری ادارہ کی حیثیت اخیتار کر چکا ہے۔ وگرنہ رپورٹرز حضرات راتوں رات محل ماڑیاں نہ ڈال چکے ہوتے۔ صحافت کا پہلا بنیادی اصول یہی ہوتا ہے کہ کسی خبر کو برائے آگاہی عوام الناس تک پہنچایا جائے۔ کوئی رپورٹر اپنی رائے کو عوامی رائے کا چوغہ پہنا کر خبر کاحلیہ نہ بگاڑے۔ جبکہ ہمارا میڈیا خبر میں لون مرچ ڈال کر سنسنی خیزی بھر کر، سیاق و سباق سے ھٹ کر اور یکطرفہ بیانیہ پیش کرتا ہے جو کہ صحافیانہ بددیانتی کے ذمرے میں آتا ہے۔ جب تک دونوں پارٹیوں کے بیانیے کو جگہ نہیں دی جائے گی، صحافت دیانتدارانہ نہیں کہلا سکتی۔
میڈیا نے پاکستان میں جہاں ایک طرف شعور بخشنے میں کردار ادا کیا ہے وہیں پر ایک قوم نہ بننے دینے میں بھی اپنا بھرپور ہاتھ ڈالا ہے۔ ہمارے چینلز سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے کارندے بن چکے ہیں اور کسی ایک جماعت کو کوریج دیکر غیر جانبدداریت کی دھجیاں اُڑا کر صحافت کو بدنام کر چکے ہیں۔ اکا دکا چینلز کو چھوڑ کو کوئی ایک بھی چینل نہیں ملے گا جو کسی پارٹی کے لیے پراپیگنڈا کا کام نہ کر رہا ہو۔ نتیجتاً "لفافہ صحافت" اصطلاح معرض وجود میں آئی۔ حکومتیں بنانے، ختم کرنے، آمریت کا دفاع کرنے میں بلاشبہ ہمارا میڈیا ڈائن کا روپ دھارچکا ہے، اس کو راہ راست پر لانے کے لیے قوانین و ضابطوں کو عملآ نافذ کرنا جمہوریت کے لیے، پاکستان کے لیے، یکجہتی کے لیے لازم ہے۔
ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان میں قانون بناتے وقت عوامی فلاح و بہبود کے بہانے سیاسی جماعتیں اپنی فلاح و بہبود کا خیال رکھتی ہیں۔ مذہبی قوانین ہوں یاہتک عزت قانون ہو، ان کے پس پردہ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بینک کو بچاتی ہیں اور تنقید سے بچنے کے لیے قانون کی چھتری استعمال کی جاتی ہے اور یہی سب آج حکومت پنجاب کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانا، ٹوئٹر بند کرنا، ہتک عزت قانون کے بل کو پاس کرنا، تنقید سے بالاتر ہونے کی آمرانہ سوچ ہے۔ تنقید کا دفاع تنقید سے نہ ہو سکے تو حکومتیں ایسے کالے قوانین لیکر آتی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم سوشل میڈیا کو اس بل سے استشنیٰ، دینا چاہیے او ر سوشل میڈیا کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کیونکہ یہی ایک ٹول باقی بچا ہے جو مادر پدر آزاد میڈیا چینلز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ میڈیا منڈی کی داداگیری کو توڑنے میں سوشل میڈیا ہی کھڑا ہو سکتا ہے۔ حکومت پنجاب کو بل پر عوامی رائے اور اپوزیشن سے باقاعدہ بات چیت کرنی چاہیے اور صحافیوں کے جائز مطالبات پر غور کرنا چاہیے تاکہ اظہار رائے کی آزادی بھی قائم رہے اور لفافہ صحافت کی بھی حوصلہ شکنی ہو۔