Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Hasil e Mutalia

Hasil e Mutalia

حاصلِ مطالعہ

محبت کی مانند مجھ میں مطالعہ کا شوق اچانک بیدار ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں آٹھویں یا نویں جماعت میں تھا تو ایک روز ابا جی کے نواڑ والے پلنگ کے سرہانے رکھے ہوئے ایک سسپینس ڈائجسٹ کی یوں ہی صفحہ گردانی کرتے ہوئے ایک کہانی پڑھنا شروع کر دی۔ کہانی اتنی دلچسپ اور تھرلر تھی کہ جیسے جے بی پریسٹلے کا ڈرامہ "An-Inspector-Calls" (مجرم کون) کی ہے۔ جب کہانی کا آخری صفحہ پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ قسط وار کہانی ہے جو ہر ماہ ڈائجسٹ میں چھپتی ہے۔ اس ایک لمحے میں مجھے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن یہ شوق غیرنصابی لٹریچر کا تھا، نصابی کتابوں کا نہیں۔

بعد ازاں سکول کی پاکٹ منی سے جو کہ کبھی کبھار ہی ملتی تھی، فٹ پاتھ پر فروخت کیے جانے والے پرانے سسپینس اور جاسوسی ڈائجسٹ خریدنے کرنے لگا جو کہ چار آنے یا آٹھ آنے میں مل جاتے تھے۔ ابا جی کی کتابوں کی شیلف میں موجود میکسم گورگی کے ناول پڑھے، سبط حسن کی موسیٰ سے مارکس اور ماضی کے مزار پڑھی، کم ال سنگ، لینن، ماوزئے تنگ، ھیر وارث شاہ، قصہ یوسف زلیخا پڑھا۔ ماہنامہ نقوش کی کئی جلدوں کا مطالعہ کیا جس سے کئی نامور ترقی پسند ادیبوں بارے معلوم ہوا اور ان کے افسانے، خطوط اور ناولٹ پڑھے۔

پھر لائبریری کی ممبر شپ لی اور ہر موضوع کی کتب کا مطالعہ کیا جو ویاہ ہونے تک باقاعدگی سے خشوع و خضوع سے جاری رہا۔ بعد از شادی مطالعہ میں بتدریج کمی ہونا شروع ہوگئی اور دلچسپی بھی کم ہونے لگی۔ اسکی وجہ شاید ذمہ داریاں بڑھ جانا تھی یا کوئی اور وجہ تھی، یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس بارے سیانے بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ پڑھنا لکھنا ہو یا کوئی معرکہ سرانجام دینا ہو تو یہ شادی سے پہلے پہلے ہو جانا چاہیے کہ بعد از شادی بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھنا لکھنا تو دور کی بات پڑھا لکھا ہوا بھی گنوا بیٹھتا ہے اور وقت نے میرے لیے یہ بات درست ثابت بھی کر دی۔

میں جب بھی مطالعہ کرتا ہوں تو قلم یا پنسل ہاتھ میں ضرور پکڑتا ہوں اور کام کی باتیں انڈر لائن کرکے اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میری ڈائری کافی بھر چکی ہے۔ چونکہ درجنوں کتابیں پڑھ کر پسندیدہ اقتباسات، سطور، اقوال اور ڈائیلاگ وغیرہ ڈائری کی زینت بنائے ہیں اس لیے ڈائری میں اتنی کتابوں، رسالوں، ماہناموں کے نام، پبلشرز کے نام اور مصنفین کے نام بطور حوالہ لکھنا میں نے غیر ضروری سمجھا اور کہیں کہیں ہی یہ سب لکھا ہے۔ ڈائری کے چند اوراق میں سے کچھ سطور قارئین کی لیے پیش خدمت ہیں:

1۔ زندہ رہنے کے لیے امنگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر امُنگ ہی ٹوٹ جائے تو پھر زندگی کو حرارت کہاں سے ملے گی؟

2۔ انسان اپنی غیر معقول خواہشات و شہوات اور مادیت پسندی کا اسیر ہو کر ذہنی بیماریوں کا طرف جاتا ہے۔

3۔ یہ دل کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے، یہ بَسی ہوئی ہو تو ہر طرف بہار کا سماں نظر آتا ہے۔ اگر دل کی دنیا اُجڑی ہوئی ہو تو گلستان کے اندر بھی ویرانہ نظر آتا ہے۔

4۔ یہ توقع عبث ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین فوجی اقوام ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں گی جبکہ دوسری اقوام محض افزائش نسل سے طاقت کا توازن بدل دیں گی۔ (برٹریند رسل)

5۔ ابتدائی سالوں کی یادوں سے زیادہ کوئی شے اُبھارنے والی نہیں ہوتی۔

6۔ ذہنی خوف جنسی عمل کی تکمیل میں سخت حارج ہوتا ہے کیونکہ صحت مند جنس کا تصور جسم اور ذہن کے رابطے کی تیاری کا نام ہے۔

7۔ جب تک کچھ خدمت نہ کی جائے، کوئی کسی سے کسی قسم کی محبت نہیں کرتا۔ دیوتا بھی مَنت تب پوری کرتے ہیں جب کوئی چڑھاوا اُن پر چڑھایا جائے۔ (پنچ تنتر)

8۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خواب انسان کی ذات، شخصیت اور کردار کی متنوع حالتوں اور ذہن کے مخفی رویوں کا مظہر ہوتے ہیں۔ خواب کے عناصر اور ان کی نوعیت درحقیقت فرد کے شخصی مسائل، اسکی بصیرت اور روحانی بالیدگی کی سطح کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی انسان کے خوابوں سے اس کے نفسی مسائل اور روحانی ارتقاء کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہی اصول خود شناسی کے ضمن میں اہم ہے۔

9۔ نفرتوں میں جدائی سکون کا باعث ہوتی ہے۔

10۔ وطن پرستی خود غرضی کا دوسرا نام ہے۔ بہترین انسان وہ ہے جو اپنی ذات، برادری اور وطن پرستی کے خول سے باہر نکل کر کائنات اورزندگی سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے اور دنیا میں موجود جانداروں، چرند پرند اور انسانوں سے محبت اور وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔

11۔ جن اور راج مزدور ایک دفعہ گھر میں داخل ہو جائیں تو پھر انہیں خدا ہی نکالے تو نکلتے ہیں۔

12۔ گھر میں فاقے سے سو رہنا اور بات ہے مگر دعوت کی صَف سے اٹھا دیا جانا تو ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

13۔ عورت تو گنجی ہوتی ہی نہیں اور اُسے دوپٹہ اوڑھا دیتے ہیں اور یہ مرد حضرات ہر طرف گنج چمکائے پھرتے ہیں اور انہیں سر ڈھانپنے کو کوئی نہیں کہتا۔

14۔ بگلے تے مچھیاں نہ رہن تے ایہدا ایہہ مطلب تے نہیں پئی ندی وی نہ وَگے۔

15۔ میرا خیال کوئی ٹاہلی دے پَتر نہیں جیہڑے رُتاں نال رنگ پئے بدلن گے۔

16۔ سورج وی راتیں ٹھونکا لاہ لیندا اے۔ بندیاں نوں وی کھلون مِلن دا ویلا ہونا چاہیدا اے۔

17۔ اپنے آپ کو کھو دینے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ انسان کی کوئی قابلِ قدر دشئے چِھن جائے۔

18۔ انسان جتنی محنت خامی چُھپانے میں صَرف کرتا ہے اتنی محنت میں خامی دور کی جا سکتی ہے۔

19۔ جب کوئی توجہ دینے والا ہی نہ ہو تو خوبیوں کو لے کر چاٹنا ہے؟

20۔ ذہن جسم کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ کئی لوگ جو جسمانی طور پر بیمار ہوتے ہیں صرف قوتِ ارادی سے صحتمند ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جسمانی لحاظ سے صحتمند افراد بیماری کے وہم سے بیمار ہو جاتے ہیں۔ خیال بذاتِ خود جسم پر اُس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتا جب تک کہ خیال کے ساتھ کوئی جذبہ (خوف، ٹصہ وغیرہ) شامل نہ ہو۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جذبات جسمانی اعضاء پر بلاواسطہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی خیال کے ساتھ احساسِ مُسرت ہو تو اس سے کچھ جسمانی اعضاء پھیلتے ہیں۔ جب کوئی خیال ذہن میں پختہ ہو جائے تو اس کا جسم پر اثر ہوتا ہے۔ (ابن سینا)

21۔ غریبی خدا نے نازل نہیں کی بلکہ وہ انسانی حماقت ارو ظلم کا نتیجہ ہے۔

22۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ آدمی اپنی ذات کو ماحول کی روشنی میں اور ماحول کو اپنے حالات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرے۔

23۔ بدھ مت میں سب سے بڑی روحانی منزل 'نروان' کو سمجھا جاتا ہے۔ نروان ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں نہ انسان کچھ محسوس کرتا ہے، نہ سوچتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا ارادہ کرتا ہے۔ اس لیے نروان کی حالت کلیتاً موت سے مشابہہ ہے۔ بدھ مت کے سلسلے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا حصول موت کی سی ذہنی کیفیت کو بروئے کار لانا ہے۔ اسے ہم معدومیت (Annihilism) بھی کہہ کستے ہیں۔

24۔ دیمک ہماری نیو میں اُتر چکی تھی

سو مَیں نے اُسے بلڈوزر چلانے کا اختیار دے دیا!

آج میں اپنے مَلبے پر بیٹھی

سوچ رہی ہوں

ٹپکتی ہوئی چھت

اور گرتی ہوئی دیواروں نے

کتنے بھیٹریوں کو

مجھ سے دور رکھا تھا!

(ملبے پر لکھی گئی ایک نظم از پروین شاکر)

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan