Double Game
ڈبل گیم
گنڈا پور اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں کی شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ اس وقت گنڈا پور ہی ہیں جن کے جوش خطابت کی وجہ سے پی ٹی آئی کا وجود نظر آتا ہے، اسکی ٹینکی فُل ہوتی ہے۔ برعکس اس کے پی ٹی آئی کے دیگر قائدین عمران خان کی سیاست کی جارحانہ پالیسی پر مکمل پورا نہیں اتر سکے اور ٹھونک بجا کر ہی بیانات داغتے ہیں۔ ایسا سنجیدہ اور پڑھی لکھی سیاست کے علمبردر ہونے کے طور پر کرتے ہیں یاپھر ایسا کرنا بذات خود سیاست کا حصہ ہے، اسکا درست فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔
حالیہ دنوں میں اصل سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ اکیس ستمبر کو کاہنہ لاہور میں ہونے والے جلسہ میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ گنڈا پور نہیں پہنچ سکے۔ اسی طرح پانچ اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد پر احتجاج کے لیے بھی گنڈا پور نہ پہنچ سکے۔ کنٹینرز کوکھسکا کر راستہ بناتے، شیلنگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عین منزل کے قریب پہنچ کر بھی نہ پہنچ پانا اور اس غیرحاضری کو پولیس اور رکاوٹ گردی کے پیچھے چھپانا سمجھ سے باہر ہے اور دکھائی دیتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ جیسے چور، "چوروں"کے ساتھ مل کر چور چور کی آوازیں نکال کر "پولیس" کو چکمہ دے رہا ہو۔ جیسے ڈبل گیم کھیلی جا رہی ہو!
الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو دیکھیں، پہلے"جناح پور" اور پھر"پاکستان ہے تو ہم ہیں" شروع۔ نواز شریف کی ن لیگ کو دیکھیں، پہلے سپریم کورٹ پر دن دھاڑے مسلح حملہ اور بعد میں اسکی تقدیس میں خشوع و خضوع سے آغاز۔ ضیاء الحق کو دیکھیں، ایک طرف افغانستان میں اللہ کی خوشنودی بذریعہ "جہاد" کا درس جبکہ دوسری طرف پاکستان میں"فرقہ واریت"۔ ججوں کو دیکھیں ایک طرف آئین کی پاسداری کا حلف اور دوسری طرف پی سی او پر حلف۔ وکلاء کو دیکھیں ایک طرف عوام کے مقدمات میں انصاف میں تاخیر پر بین اور دوسری طرف وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت۔ گویا ہر طرف ڈبل گیم ہی پائی گئی۔
ڈبل گیم صرف آج نہیں بلکہ قیام پاکستان سے قبل سے جاری ہے۔ "وِچوں وِچوں کھائی جاؤ، اُتوں رولا پائی جاؤ" سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ سرسید احمد خان کو دیکھیں، خود تو مذہبی سیاست کرتے مگر مسلمانوں کو سیاست سے باز رہنے اور تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کرتے۔ ایک طرف مسلمانوں کو عیسائی مشنریوں سے پرے پرے رہنے کی تلقین کرتے جبکہ دوسرے پاسے انہیں یورپی طرزِ معاشرت اختیار کرنے پر زور دیتے۔ ایک طرف "اسبابِ بغاوتِ ہند" کتاب یا رسالہ لکھ کر انگریزوں کو ہندوستان میں حکومت کرنے کے نئے نئے گُر بتائے اور دوسری طرف مسلمانوں کو قابض انگریز کے خلاف کھڑا کرنے کی بجائے دھرتی ہی کے باشندوں ہندوؤں کے خلاف بذریعہ دو قومی نظریہ کھڑا کر دیا۔
سرسید نے بجائے اکثریتی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دلوانے کی جدوجہد کرنے کے اُلٹا اردو ہندی تنازعہ ایجاد کر دیا جس کی غالبآ وجہ یہی تھی کہ سرسید یو پی کے رہنے والے تھے اور ان کی مادری زبان اردو تھی۔ ایک طرف انگریزوں کے خلاف جہاد کو اسلامی تعلیمات کی رُو سے ناجائز قرار دیا جبکہ دوسری طرف اپنے ہی ہم وطن ہندوؤں کے خلاف جہاد کی تلقین کی۔ لہذا ثابت ہوا ڈبل گیم کا نام ہے"تحریک علی گڑھ" پیارے!
علامہ اقبال کو دیکھیں، پہلے پہلے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہمارا/ہم بُلبلیں ہیں اس کی، یہ گُلستاں ہمارا ہمارا" اور بعد ازاں پاکستان کا خواب اور خطبہ الہٰ آباد۔ یہ الگ بات کہ یہ خواب ہندوستان کے اندر ہی فیڈریشن کی طرز پر"صوبہ پاکستان" کی حیثیت سے اقبال نے دیکھا مگر حلوہ مانڈہ پر مر مٹنے والوں نے اس کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور صوبہ کی بجائے الگ ملک اس خواب اور خطبہ الہ آباد میں سے ایجاد کر لیا۔
جناح کو دیکھیں، ذاتی زندگی میں سیکولرازم کا نمونہ جبکہ سیاسی زندگی میں مذہبی بالادستی، ایک طرف جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف بیک وقت گورنر جنرل، مسلم لیگ کے صدر اور آئین ساز اسمبلی کے صدر کے تین عہدے رکھے اور تیسری طرف کھڑے کھڑے صوبہ سرحد کی اسمبلی منسوخ کروائی اور سندھ میں ایوب کھوڑو کو وزراتِ اعلٰی سے ہٹایا۔
جب تاریخ ڈبل گیم سے بھری پڑی ہو، جب اسی گیم کے زیر سایہ ہمارے سیاستدان پلے بڑھے ہوں توکیا جمہوریت کیا آمریت کیا ملائیت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ معنی بس حصول اقتدار رہ جاتا ہے چاہے عوام کے ووٹوں سے یا چاہے اسٹیبلمشمنٹ کی آشیرباد سے۔ گنڈا پور کا عین وقت پر غائب ہو جانا اور پھر پشاور سے طلوع ہو جانا سے اشارے یہی ملتے ہیں کہ پی ٹی آئی گئی نہیں بلکہ ایک پڑاؤ پر سانس لینے کے لیے رکی ہے تاکہ مہنگائی اور بجلی بلوں کے غضب سے خود کو بچا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو دو نہیں بلکہ چار آنکھیں رکھ کر ارد گرد دیکھتے رہنا چاہیے اور جو نظر آئے اسی کے مطابق اپنی سیاسی پالیسی کو موڑتے رہنا چاہیے مبادا کل کلاں کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ بقول پروین شاکر:
شجر کو سبز قبا دیکھ کر یہ اُلجھن ہے
کہاں پہ رنگِ نمو ہے کہاں پہ زہر کا رنگ