Boseeda Aur Saazishi Nizam e Taleem
بوسیدہ اور سازشی نظام تعلیم
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ خوداعتمادی اصل میں آدھی کامیابی ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس آدھی کامیابی کو بچوں سے شروع میں ہی ضبط کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بچوں کو شروع ہی سے جی حضوری کرنا سکھایا جاتا ہے۔ دوسروں کی، بڑوں کی منظوری حاصل کرکے انکی توقعات پر جب بچہ عین فٹ اترتا ہے تو ان کے نزدیک ایسا بچہ بہت شریف، قابل، نیک، بھلہ مانس، تابعدار اور اچھے خاندان کا چراغ ٹھہرتا ہے۔
اس عمل سے بچہ بھی اپنی تعریفیں سن کر پھولا نہیں سماتا اور بڑوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مزید زور و شور سے جی حضوری کرنی شروع کر دیتا ہے اور بچہ سمجھ لیتا ہے کہ دوسروں کی نظروں میں اچھا ثابت ہونے کے لیے جی حضوری اولین شرط ہے۔ نتیجتاً بچے میں خود اعتمادی کی پیدائش رک جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر بچہ اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی جینا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ لفظ "میں" ہی ہے جو ہمیں دوسروں سے الگ اور ممتاز مقام دیتا ہے، اس "میں" کی عدم موجودگی میں انسان محض زندہ لاش ہی کہلاتا ہے۔
جب بچہ گھر سے سکول پہنچتا ہے تو وہ باقاعدہ دوسروں کی منظوری و خوشنودی حاصل کرنے کی تربیت کا آغاز کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں خصوصاً سرکاری سکولوں یا این جی اووز کے تحت چلنے والے سکولوں میں، امتحانی نظام میں، اور نصابی کتابوں میں موجود اسباق و کہانیوں پر اچٹتی سی نظر ڈالنے سے ہی نظر آ جاتا ہے کہ بچے کی خوداعتمادی، اسکی ایگو، اسکے خیالات پر پہرہ بٹھانا ہی ان سکولوں کا بنیادی ٹارگٹ ہے تاکہ سرمایہ داروں اور تاجروں کے ایلیٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو مستقبل میں نوکرشاہی اور اہم پوسٹوں پر پہنچنے کے لیے زیادہ مقابلہ بازی نہ کرنی پڑے اور اسی دوران انکی خدمات کے لیے سرکاری سکولوں سے مشرف بہ تعلیم مخلوق تیار ہوجائے۔
سکولوں میں یہ سکھایا جا رہا ہے کہ کسی معاملے پر اپنے آپ پر اعتماد نہ کریں۔ ہر بات کیلیے اجازت طلب کریں۔ کس ڈیسک پر بیٹھا جائے۔ سر میں اندر آجاؤں، مس میں پانی پی آؤں، میڈم مجھے بخار ہے میں گھر چلا جاؤں وغیرہ۔ یہاں تک کہ نہایت معمولی نوعیت کی باتیں بھی استاد کی مرضی کے مطابق کی جائیں۔ ہماری تعلیمی ادارے، نصاب اور ٹیچنگ طریقہ کار یہ نہیں سکھاتا کہ بچے خود غور و فکر سے کام لیں۔ وہاں تو صرف ہدایات جاری ہوتی ہیں اور بچوں کو ان پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا پڑتا ہے اور اگر کوئی بچہ اللہ کا نام لیتے ہوئے توانائی اکٹھی کرکے کوئی سوال پوچھ بیٹھے تو اسکو ایسے لہجہ و طرزِ تخاطب میں جواب دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ سوال کرنے سے خوف محسوس کرنے لگتا ہے۔
ہمارے نظامِ تعلیم میں وضاحت طلب کرنے کو بد تمیزی اور بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔ استاد بچوں کو اطاعت شعار بناتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم میں تابعداری نمایاں ترین خصوصیت اور خوبی کا درجہ رکھتی ہے۔ تعلیمی پالیسی ساز دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ تعلیم کے ذریعے نئی نسل میں خود اعتمادی پیدا کرنا چاہتے ہیں، ان کی شخصیت کی نشوونما کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن ہوتا اسکے بالکل برعکس ہے۔ جو بچے بلا چون وچرا اپنی خود مختاری سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوں انہیں بدتمیز، باغی، بے ادب، جھگڑالو، لڑاکو، خَر دماغ جیسے طعنے مہنے دئیے جاتے ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ دوسری طرف تابعدار اور یس سر یس سر کہنے والوں کی تعریف کی جاتی ہے اور انہیں مثالی طالبعلم قرار دیا جاتا ہے۔
کالج میں داخلہ لینے والوں بچے مضامین کے انتخاب کے لیے دوسروں کی رائے اور فیصلے کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ خود فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ان میں فیصلہ سازی کی اہلیت سکول نے باقی ہی نہیں رہنے دی ہوتی۔ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو لوگوں کو تابعدار رکھنا حکومت کے مفاد کا تقاضا ہے۔ لوگ حکومت کی ہر بات کو خلوص دل کے ساتھ قبول کریں، ہر ہدایت پر، ہر کال پر بلا سوچے سمجھے عمل کریں۔ حال ہی میں پنجاب کالج سے متعلقہ فیک نیوز پر طلباء کے رویے سے یہ باتیں عیاں ہو جاتی ہیں۔
ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے لیے سوچنے اور سمجھنے کی تمام راہیں بند کر دی جائیں۔ اچھے، وفادار اور محب وطن شہری پیدا کرنے کے بہانے حکومتیں عوام کی تمام صلاحیتیں سلب کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ ہاں کہنے اور سرجھکانے والی مخلوق بن کر رہ جاتے ہیں۔ سرمایہ دار کا اشتہار بازی کا فلسفہ بھی یہی کہتا ہے کہ آپ خود کوئی اچھا انتخاب کرنے کے نااہل ہیں لہذا دوسروں کی رائے کو قبول کریں۔ انفرادی فیصلے ناپسندیدہ ہیں، دوسرے لوگوں کی پسند کا خیال رکھنا آپ پر لازم ہے لہذا انکی دلجوئی کیلیے فلاں فلاں شے استعمال کریں۔
جان ڈیوی کے نزدیک تعلیمی عمل میں اساتذہ کا کردار صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ایسا ماحول فراہم کریں، ایسے نکات بیان کریں کہ جو بچے کے نصاب کو ڈائریکٹ کرتے ہوئے جوابی اقدام کی تحریک اُبھارے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے نصاب تعلیم میں کسی موضوع پر باہم متصادم نظریے ملتے ہی نہیں ہیں، اگر ملتے ہیں تو ان کو مذہب کی آڑ میں منطقی طور پر سوچنا ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے کہ اس سے ہمارے کُفر کے مرتکب ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ڈارون تھیوری اسکی ایک مثال ہے۔
اسی طرح بچوں کو ہر بات بحثیت سند کے بتائی جاتی ہے کہ اب اس پر غور و فکر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر فلاں تاریخی یا مذہبی یا سیاسی شخصیت نے یہ کہا ہے کہ نصاب میں سرسید کو دو قومی نظریہ کے تحت ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے۔ سند کے طور پر اسی لیے پڑھایا جاتا ہے کہ کوئی بچہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق، اپنی تشفی کے لیئے، تشنگی کو دور کرنے کے لیئے سرسید کے ہیروازم پر یہ کہہ کر سوال نہ اٹھا سکے کہ ہندوستان پر قابض تیسری غیر ملکی انگریزکی قوم کی موجودگی میں دو قومی نظریہ یعنی ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں وغیرہ وغیرہ، کا کیا جواز بنتا تھا؟
ہندو اور مسلمان تو صدیوں سے ہی اکٹھے رہتے رہے ہیں، انکی بودوباش و ثقافت میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ شہنشاہ ہند جلال الدین محمد اکبر کے تاریخ ساز دور میں تو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہے ہیں تو پھر اپنے ہی ہم وطن ہندووں سے آزادی لینے والا نظریہ دریافت کرنا چاہئے تھا یا غیرملکی انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ہندو اور مسلم دونوں کویک جان ہو کر انگریزوں کو جن کا اس خطہ سے کوئی معاشرتی، سیاسی، روایتی، مذہبی، ثقافتی، معاشی، خانقاہی، اور تاریخی تعلق ہی نہیں، کو نکال باہر کرنے کے لیئے کوئی نظریہ دریافت کرنا چاہئے تھا؟
بغور دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ ہی کی بدولت انگریز یہاں پر پون صدی حکومت کر گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ نظریہ انہی کا متعارف کردہ تھا کہ، لڑاو اور حکومت کرو۔ بصورت دیگر ہندوستان کب کا آزاد ہو چکا ہوتا ہو اور پاکستان بھی بہت پہلے ہی معرضِ وجود میں آ چکا ہوتا۔
حاصل کلام یہ رسمی اور غیر رسمی تعلیم موجودہ استحصالی، ظالمانہ نظام اور سرمایہ دارانہ سسٹم کو بحال رکھنے کے لیئے تعصبات ذہن نشین کرنے کا ذریعہ ہے اور تعلیم کی آڑ میں نسل کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔ وجہ یہ کہ ابتدا ہی سے ہمارے تعلیمی نظام، سیاسی نظام اور میڈیا پر ایک مخصوص ٹولہ براجمان ہے جسکا پاک وطن کی دھرتی سے کوئی زمینی و معاشرتی و ثقافتی و لسانی و مادری رشتہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ زیادہ تریو پی، سی پی طرز بود و باش کا مالک ہے اور اسی کی ثقافت و بودوباش کو یہاں پروان چڑھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اپنی حکومت (اسٹیبلیشمنٹ) کی برقراری و نشوونما و پائیداری و ترقی کے لیے نونہالوں کے اذہان میں دانستاً تخلیقی صلاحیتیں بیدار نہیں ہونے دیتا۔ جب تک اسکی ٹولہ کی سازش کو سمجھا نہیں جائے گا، تب تک پاکستان، پاکستانیوں کو واپس نہیں مل سکتااور نہ ہی ملک میں معجزاتی لیڈروں کے پیدا ہونے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔