Barhta Hua Taleemi Kaarobar
بڑھتا ہوا تعلیمی کاروبار
صنعتکاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل حکومت سرکاری اداروں کی براہ راست نجکاری کرکے اپنے یار دوستوں کو اونے پونے داموں میں فروخت کرنا چاہتی ہیں جبکہ جاگیرداروں اور وڈیروں کا گروہ اداروں کی سر عام نجکاری کی بجائے انہیں خفیہ نجکاری جسے عرف عام میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کہا جاتا ہے، کے تحت این جی اووزکے حوالے کرکے عوام سے سستی سہولیات چھیننا چاہتا ہے اور ملکی ثقافت کا بیڑہ غرق کرناچاہتا ہے۔
تعجب والی بات یہ ہے کہ عوام کی صحت، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کے باوجود کبھی آئی ایم ایف اور کبھی ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر اور کبھی حکومتی بوجھ کم کرنے کے بہانے تلے سرکاری اداروں کی پرائیوٹائزیشن ہر حکومت کی پہلی ترجیح رہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے سرکاری تعلیمی ادارے محض تنخواہیں وصول کرنے والے ادارے بن چکے ہیں، طالبعلموں کو تھرڈ گریڈ کی تعلیم مہیا کی جاتی ہے، سرکاری اساتذہ ٹیویشن سنٹرز اور اکیڈیمیوں میں اپنی توجہ صرف کرتے ہیں، سکولوں میں اسی طرح طلباء کو ٹیویشن، اکیڈیمیاں جائن کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جیسے سرکاری ہسپتالوں میں کنسلٹنٹس صاحبان مریضوں کو اپنے کلینکس وزٹ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سرکاری شعبہ جات ایسی صورتحال میں قطعاً جکڑے ہوئے نہیں ہیں۔ اِکا دُکا واقعات کو گڈ گورنینس کے ذریعے درست کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔
سرکاری اداروں، گورنمنٹ سکولوں کی کردار کشی کرکے دانستہ ایک ماحول بنایا جاتا ہے تاکہ والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول مافیا کے سپرد کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ کردار کشی قصے گھڑ کر، یا قصے ایجاد کرکے اخبارات میں شائع کرکے، الیکٹرانک اور سائبر میڈیا میں وائرل کرکے کی جاتی ہے۔ پس پردہ یہ کردار کشی دراصل پرائیویٹ سکول مافیا کی ایڈورٹائزمنٹ ہوتی ہے جس میں یہ مافیا بخوبی کامیاب رہا ہے۔ اگرچہ مڈل کلاس طبقے کے لیے گنتی کے چند ایک اچھے پرائیویٹ سکول بھی موجود ہیں۔ ایسے سکولوں کا نام ہی کافی ہوتا تھااور ان میں بچوں کا ایڈمیشن ہو جانا ایک معرکہ کے مترادف ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے گنتی کے یہ چند سکول بھی مافیا کی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نصف دہائی قبل انہیں نہ کسی ایڈورٹائزمنٹ کی ضرورت ہوتی تھی اور نہ ہی آج کی طرح سارا سال داخلے جاری رہتے تھے۔
مہنگائی کی شدید لہر نے جہاں غریب آدمی کو جیتے جی زندہ درگور کر دیا ہے، وہیں تعلیم بھی تین گنا مہنگی ہو چکی ہے۔ کتابیں، کاپیاں، ریسورس میٹریل، بستے، سٹیشنری، یونیفارم، ٹرانسپورٹ چارجز، ماہانہ فیس وغیرہ نے مڈل کلاس کو دن میں تارے دکھا دیئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے والدین کو بجائے معمولی سا ریلیف دینے کے، یہ سکول مافیا مزید رگڑے لگا رہا ہے جو کہ ایک سرمایہ دار کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔ اکثر سکولوں میں، سکول یونیفارم کے بعد آج پی۔ ٹی جو کہ پرائمری جماعت تک کے بچوں کو آدھا گھنٹہ کروائی جاتی ہے، اس کے لیے بھی کِٹ لازم قرار دے دی گئی ہے۔ بندہ پوچھے بیس پچیس منٹ کے لیے ایک کِٹ پہنانے کا کیا مقصد ہے؟ آج تک یہ شوشا نہیں دیکھا۔ اس کا مطلب صرف یہی کہ سکول مافیا نے بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے بزنس کو، کپڑا لَتا کو فروخت کرنے کو ترجیح دینی شروع کر دی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیسیں بھی پوری وصول کی جاتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ چارجز میں ڈنڈی یوں ماری جاتی ہے کہ اگر محکمہ تعلیم تین جون سے چھٹیوں کا اعلان کرے تو سکول مالکان بجائے دو دنوں کے پورے ماہ کے ٹرانسپورٹ چارجز غریب والدین کی جیبوں سے اینٹھ لیتے ہیں۔ تعلیم کے اس کاروبار کا والدین اور بچوں پر شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے۔ جو بچے او لیول کرنے کی پوزیشن میں تھے، وہ سکول مالکان کی پیسے کی حرص کی وجہ سے میٹرک کرنے پر مجبور ہیں کہ او لیول کی فیسیں، کتابیں اور خفیہ چارجز میٹرک کی نسبت دو گنا سے بھی زیادہ ہیں۔ گویا سکول مافیا کی کاروباری نیت کے وجہ سے بچوں کی پوشیدہ صلاحیتیں اجاگر ہونے سے قبل ہی دم توڑ رہی ہیں اور ٹیلنٹ کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کسی حقیقی سکول کی پالیسی کا حصہ قطعاً نہیں ہوتا۔
بچوں کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، انہیں پانی دینے اور رُوڑی ڈالنے میں ایک ٹیچر کا اہم ترین رول ہوتا ہے۔ راقم ایک سرکاری سکول میں پڑھا تھا جس میں ہزاروں بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس وقت ہمارے اساتذہ کرام نصاب کو حرفِ آخر سمجھ کر ہمیں نہیں پڑھاتے تھے بلکہ اگر نصاب میں غلط بات درج کی جاتی تھی خصوصاً معاشرتی علوم (مطالعہ پاکستان) میں تو ہمارے اساتذہ ہمیں درست حقائق بتاتے تھے اور واشگاف الفاظ میں کتاب میں موجود مواد کو پراپیگنڈہ قرار دیکر ہمیں اس سے اثر نہ لینے کی ترغیب دیتے تھے اور خاموشی سے یہ بھی کہہ دیتے کہ اگر پیپر میں یہ سوال آئے تو من و عن وہی لکھ ڈالیں جو کتاب میں درج ہے مبادا صفر نمبر مل جائے کہ کیا معلوم پیپر چیکر دو قومی نظریہ کا مجاور ہو۔ ایسے اساتذہ آج ناپید ہیں جبکہ آج ہی ان کی زیادہ ضرورت ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں نہ سائنسدان نمودار ہو رہے ہیں اور نہ ہی قابل ڈاکٹر، نہ اساتذہ اور نہ ہی معیشت دان۔ تو پھر بچوں کو جو تعلیم دی جارہی ہے اس کا آخر مقصد و منشاء کیا ہے؟ نہ یہ تعلیم طبقاتی شعور پیدا کرتی ہے، نہ معاشرہ کو استحصالی طاقتوں کی گرفت سے نکالنے کی جدوجہد میں حصہ لینے پر مائل کرتی ہے جبکہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے اہم ترین مسائل میں بڑا مسئلہ ہی استحصالی طاقتوں سے نجات کا ہے۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو صرف اپنی ذات کو فوکس کرنے پر ابھارے؟ جہاں بھی دیکھیں ہر کوئی دو نمبری کے ذریعے لوٹ مار کر رہا ہے۔ لینڈ مافیا ہو، تاجر مافیا ہو، سکول مافیا ہو، ٹرانسپورٹ مافیا ہو، ڈرگ مافیا ہو یا ڈاکٹر مافیا ہو۔ ہر کوئی محض پیسے اینٹھنے کے لیے اپنے داؤ پیچ لگا رہا ہے، چرب زبانی سے کام لے رہا ہے۔ کس لیے؟ صرف اپنے ذاتی فائدہ کے لیے۔ حالانکہ تعلیم کا مقصد ترک دنیا ہے۔
ترک دنیا سے یہ مراد نہیں کہ بوریا بستر اٹھا کر کسی سنسان جگہ مصلحہ بچھا لیا جائے۔ بلکہ آج ترکِ دنیا کا مطلب نفیء ذات ہے۔ یعنی اپنی ذات کو بھول کر معاشرے کی بہتری کے لیے، استحصالی قوتوں سے چھٹکارے کے لیے جدوجہد کرنا۔ معاشرہ میں جہالت، جبر و تشدد، ادارہ جاتی آمریت (جیسا کہ رواں دنوں چھ ججوں کا ایک خط موضوع بحث ہے)، جرائم اور سماجی برائیوں کو ختم کرنے میں اپنا رول ادا کرنے کا نام نفیء ذات ہے۔
گذشتہ ماہ ہم نے ایک مضمون بعنوان "کیا پاکستان میں ہوم سکولنگ ممکن ہے؟" لکھا تھا۔ آج ہم ایک مرتبہ پھر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہوم سکولنگ ہی اب ایک آخری اُمید ہے جسے اپنا کر ہم سکول مافیا سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور بچوں کو حقیقی تعلیم دینے کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں۔