Awami Khyalaat Par Hukumati Pehre
عوامی خیالات پر حکومتی پہرے
گذشتہ دنوں محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق محکمہ صحت کے تمام ملازمین کو سختی سے منع کیا گیا ہے کہ ملازمین سوشل میڈیا میں کسی بھی قسم کی سیاسی، سماجی، دینی، ثقافتی وغیرہ بحث و مباحثہ میں شرکت نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی ملازم اپنی رائے بذریعہ کمنٹس دے گا اور نہ ہی کوئی پوسٹ شئیر کرے گا اور نہ ہی کوئی آرٹیکل لکھ کر شئیر کرے گا۔ محکمہ صحت ملازمین کو محکمہ صحت سے متعلق کسی بھی قسم کے ڈاکومنٹس کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
کچھ اسی قسم کے نوٹیفیکیشن دیگر سرکاری محکموں میں بھی وقتاً فوقتاً جاری ہوتے رہتے ہیں اور مختلف بلز بھی پاس ہوتے رہے ہیں جیسا کہ رواں برس پنجاب حکومت نے ہتک عزت قانون کا بل پاس کیا تھا۔ ان سب کا لب لباب صرف یہ ہے کہ عوام اور سرکاری ملازمین منہ میں گھنگنیاں رکھ کر زندگی بسر کریں، وہ غلام ہیں اور وہی کریں جو حکومت کہتی ہے۔
پس پردہ حکومت آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی خواہشمند ہے اور سوشل میڈیا کو بھی پی ٹی وی بنانا چاہتی ہے۔ درحقیقت حکومت ملازمین اور عوام سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھیننا چاہتی ہے، انہیں غور و فکر کی صلاحیت سے محروم کرنا چاہتی ہے، انہیں سوال اخذ کرنے اور اس کے جواب کے لیے ابلاغ کا سہارا لینے سے منع کرنا چاہتی ہے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جو تھوڑی بہت گردشِ زمانہ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں، ان کو دبانا چاہتی ہے۔ حکومت کی یہ سوچ ایک آمرانہ اور جاہلانہ قدم ہے اور محکمہ تعلیم کی اہمیت کو صفر کرنے کو کافی ہے۔
حالانکہ دیکھا جائے تو جس تعلیمی نظام کی بھٹی میں بُھن کا لوگ آج سوشل میڈیا پر پہنچے ہیں، اس کے پیش نظر تو سوشل میڈیا کا استعمال حکومت کے لیے فائدہ مند ہی ہے کیونکہ دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان، سب سے پہلے پاکستان، پاکستان ہے تو ہم ہیں، جہاد، مذہبی قوانین، پاک بھارت دشمنی، محکمہ زراعت ریڑھ کی ہڈی۔۔ کے علاوہ سوشل میڈیا میں اور تو کچھ ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے جو کسی گنتی میں نہیں آتا۔
محکمہ صحت کے اس نوٹیفیکیشن سے ایک اور بات پانی کی طرح شفاف ہوگئی ہے کہ اسے عوام کی بیماری و صحت سے کوئی غرض نہیں۔ وگرنہ ایسا نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوتا کیونکہ ڈاکٹر کمیونٹی، سوشل میڈیا پر عوام کو گھر بیٹھے ایک کلک پر ان کی صحت کے مسائل کا حل بتاتی ہے۔ اس بارے ڈاکٹر مجیب رحمان کے ایک فیس بُک گروپ "ٹیلی پولی کلینک" کی مثال دینا چاہوں گا جس کے ساٹھ ہزار سے زائد ممبرز ہیں اور جو سالوں سے لوگوں کو ان کے صحت سے متعلقہ مسائل بارے مفت سہولیات دے رہا ہے۔ ہر طبی مسئلہ پر خصوصی ماہرین مشورے دیتے ہیں اور ادویات تجویز کرتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی یہ گروپ بھرپور مدد کر رہا ہے۔ مریضوں کے لیے وڈیو کال کی سہولت بھی اس گروپ میں دی جاتی ہے۔ راقم خود کبھی اپنے لیے اور کبھی بال بچوں کے لیے اس گروپ کی سہولیات سے مستفید ہو چکا ہے۔
لکھنے کا مقصدیہ کہ سوشل میڈیا پر صرف منفی باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سی مثبت باتیں بھی موجود ہیں۔ سوشل میڈیا تخریب سے زیادہ تعمیر کا کام کر رہا ہے۔ ڈاکٹروں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کی حکومتی سوچ آمرانہ سوچ ہے کیونکہ آمرانہ سوچ میں صرف ذاتی فائدہ دیکھا جاتا ہے عوامی نہیں۔ اس سوچ میں عوام کی حیثیت کو کیڑے مکوڑے سمجھ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
سوال یہ کہ حکومت کو ایسی عوام دشمن سوچ کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کے دو جوابات قیاس کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت سن اُنیس سو اسی کی دہائی میں آمریت کے زیر سایہ پلی، بڑھی، جوان ہوئی اور تخت پر بیٹھی، لہذا چونکہ فطرت کبھی نہیں بدلتی، اس لیے ایسی عوام بیزار سوچ پر حکومت مجبور ہے اور دوسرا یہ کہ حکومت میں سیاسی حسیات ناپید ہیں جو حالات و واقعات کو ھینڈل کرنے میں ناکام ہے۔ اس بارے پنجاب کالج کا حالیہ واقعہ تازہ ترین مثال ہے جس میں حکومت مبینہ ریپ واقعہ کی پاداش میں طلباء کے مظاہروں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی اور پولیس گردی کے ذریعے طلباء کی آواز دبائی جا رہی ہے۔
بذریعہ طاقت سوچوں پر پہرے وقتی طور پر تو لگائے جا سکتے ہیں مگر ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سوچوں کی بیخ کنی نہیں بلکہ ان کی پرورش کرنے والی حکومت ہی عوامی حکومت کہلاتی ہے۔ سوچ ہی کسی مسئلے کے حل کے لیے نئے زاویے کھولتی ہے۔ سوچنا ہر انسان کی سرشت ہے چاہے یہ سوچ محدود ہو یا لامحدود، چاہے یہ ناک کی سیدھ میں ہو یا چاہے ارد گرد سے ہوتی ہوئی منزل کی طرف جاتی ہو۔
انسان چوبیس گھنٹے سوچتا ہے اور یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ مشہور ریاضی دان پونیکار نے سونے سے قبل اپنے مشکل مسائل ایک صفحے پر لکھ لیتا تھا۔ سو کر جاگتا تو اکثر ان مسائل کا حل اس کے ذہن میں موجود ہوتا تھا۔ رات کی تاریکی میں اس کا بے خواب دماغ ان مسائل کو سلجھاتا رہتا تھا۔ گویا سوچنا اور انسان لازم و ملزوم ٹھہرے۔
انسانی سوچوں کا ابلاغ جب تک نہیں ہوگا، سوچ پختہ نہیں ہوگی۔ کیونکہ بغیر ابلاغ، سوچ کے درست ہونے یا نہ ہونے یا مزید پرتیں کُھلنے کا اتہ پتہ چلتا ہے۔ میں بھی سوچتا ہوں مثلاً کیا زندگی صرف دولت کے حصول کا ہی نام ہے؟ کیا انسان میں موجود احساسات و جذبات و خیالات کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ماہرین نفسیات کیوں کہتے ہیں کہ زندگی اصل میں خیالات کے مجموعہ کا نام ہے؟ جب انسان حیوان ناطق ہے تو اس میں"حیوان ازم" کا سِرے سے ہی خاتمہ کیونکر ممکن ہے کہ فطرت کبھی نہیں بدلتی؟ آیا دنیا بھر میں آج تک جتنی بھی جنگیں، لڑائیاں، یدھ، اور دنگل ہوئے ہیں، انکی بنیادی وجوہات حصول زر، وسائل، مال غنیمت، دولت اور زمین نہیں ہے؟
اگر کوئی کسی کی زمین کو خریدنا چاہے لیکن زمین کا مالک (فلسطینی، کشمیری) اسے بیچنے سے انکار کر دے تو معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن زمین کے مالک کے نہ بیچنے کے باوجود اگر کوئی (اسرائیل، بھارت) زبردستی اسے خریدنے یا ھتیانے پر اتر آئے تو زمین کے مالک کا ردِعمل کیا ہوگا؟ جب سڑکیں بنتی ہیں تو حکومت راستے میں آنے والی زمین کو اس کے مالک سے خریدتی ہے اور اگر مالک نہ بیچنا چاہے تو بھی سڑک تو بننی ہی ہوتی ہے کہ حکومت طاقتور ہوتی ہے جبکہ زمین کا مالک کمزور۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ "کچھ لو اور کچھ دو" کے مصداق مذاکرات کرکے معاملہ حل کر لیا جائے؟ یقیناََ بہتر ہے کیونکہ اس طرح سرحدوں کے تنازعات، نسلی و لسانی فسادات اور مذہبی اشتعالات ختم ہو جائیں گے اور ہر طرف بھائی چارہ اور رواداری کا بول بالا ہوگا اور عین ممکن ہے کہ دیوار برلن کی طر ح دیوار واہگہ بھی ٹوٹ جائے۔
میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ جب ہر چیز فانی ہے، ہر انسان نے خالی ہاتھ ہی جانا ہے تو پھر زمین کا مالک اسے آسانی سے بیچنے پر راضی کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں انسان دولت کی پوجا کرتا ہے؟ کیا اس کی وجہ دھرتی ماں کا فلسفہ ہے یا محض یہ عمل ایک "اڑی" ہے؟ المختصر خیالات پنپنے کی چیز ہوتے ہیں، قدغنیں لگانے کے لیے نہیں۔ خیالات پر پابندیاں لگانے کی حکومتی پالیسی غیر انسانی، غیر عقلی اور غیر جمہوری ہے۔ حکومت کو اپنی پالیسی کو بدلنا ہوگا اور باور کر لینا چاہیے بقول شاعر:
سب کمالات ہیں تخیل کے
ورنہ کچھ بھی نہیں حقیقت میں