Aaeeni Adalat Ke Qayam Ki Mukhalifat Kyun?
آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت کیوں؟
وفاقی سرکاری ملازمین کے دفتری معاملات وغیرہ کے بارے میں حصول انصاف کے لیے فیڈرل سروس ٹریبونل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بینکوں میں لین دین، چیک ڈس آنر، مالی اداروں سے منسلکہ معاملات وغیرہ میں انصاف فراہمی کے لیے بینکنگ کورٹس بنائی گئیں۔ وفاقی شرعی عدالت ضیاء الحق نے انیس سو اسی میں اس لیے قائم کی تاکہ دیکھا جاسکے کہ پارلیمنٹ اسلامی قوانین کے مطابق قانون سازی کر رہی ہے یا غیر اسلامی قوانین کے مطابق۔ خاندانی معاملات اور طلاق یا خلع کے نتیجہ میں بچوں کی حوالگی کے کیسز کے لیے فیملی کورٹ فرائض منصبی ادا کر رہی ہے۔
دہشتگردی اور تخریب کاری کے جرائم کے سلسلہ میں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتیں بنائی گئی ہیں۔ مجسٹریٹس کی جانب سے صادر کئے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سیشن کورٹس میں دائر اور سُنی جاتی ہیں۔ مالی معاملات، خرد برد، فراڈ، ہاؤسنگ معاملات وغیرہ کے جھگڑوں میں انصاف کی تکڑی استعمال کرنے کے لیے سول کورٹس بنیں۔ امن و امان کی بحالی، جرائم، دنگے فساد، بلوے، قتل و غارت اور شہریوں کی جان و مال بارے کیسز کریمنل کورٹس میں ڈیل ہوتے ہیں۔ نیب ان سب کے علاوہ ہے۔ سپریم کورٹ بطور سپریم عدالت کے کام کرتی ہے۔
اتنی اقسام کی عدالتوں کے بعد ایک اور آئینی عدالت قائم ہونے سے کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا بلکہ اس سے سپریم کورٹ پر ورک لوڈ راتوں رات کم ہو جائے گا جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں سیاسی کیسز کو نوے فیصد تک وقت دیا جاتا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام کے خلاف واویلا غیر سنجیدہ اور دیوانے کی بڑکوں کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کہا جاتا ہے کہ آئینی عدالت دراصل عدلیہ کے پر کاٹنے کی ایک کوشش ہے۔ بندہ پوچھے کہ عدلیہ کے پر تھے کب جو کٹ جائیں گے؟
پی سی او کو سر آنکھوں پر بٹھانے والی، نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر آئین پر فاتحہ خوانی کرنے والی، آمریت کو جائز قرار دینے والی، غیر جمہوری و آمر حکمرانوں کو آئین میں ترمیمیں کرنے کی اجازت مرحمت دینے والی، ذاتی پسند و ناپسند اور رنجشوں کو فیصلہ سازی میں جگہ دینے والی، عوامی مقدمات کو سالوں دہائیوں تک لٹکانے والی، وکیل کرنے کی بجائے ڈائریکٹ جج کرنے کی اصطلاحوں کا سامان مہیا کرنے والی، راتوں رات زیرو سے ھیرو بننے کے لیے من پسند ایشوز پر سوموٹو لینے والی، سیاسی و آئینی معاملات پر کلوزنگ آورز کے بعد آدھی رات کو کھلنے والی، توہین مذہب کے کیسز میں انڈر پریشر فیصلے صادر کرنے والی عدلیہ اگر پَر رکھ سکتی ہے تو پھر سورج بھی مغرب سے نکل سکتا ہے!
یہ بجا کہ ججز کی ایک کثیر تعداد آئین کی پاسداری کرتی ہے، دل کی صاف ہے، فیصلے بغیر کسی سیاسی وابستگی کے ضمیر کے مطابق آئین و قانون کے تحت دیتی ہے اور ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ عوامی مقدمات کے فیصلے جس قدر جلد ہو، نمٹائے جا سکیں۔ بیشمار ججز آمریت کی گود میں بیٹھنے کی بجائے مستعفیٰ ہوتے رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ججز کی یہ بہادری، انصاف، آزادی اور جمہوریت کے لیے کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کرسکی۔
جس طرح ہر ادارہ میں کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں، اسی طرح ہماری معزز عدلیہ میں بھی کالی بھیڑیں ہیں جو عوامی مقدمات کی بجائے ان مقدمات کو ترجیح دیتی ہیں جن سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ ممکن ہو سکے۔ یہ بھیڑیں سیاسی وابستگیوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے صادر فرماتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آئے روز آئینی، عدالتی اور قانونی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے ملک میں غیر یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو براہ راست معیشت، امن و امان، سرمایہ کاری اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔
مولوی تمیز الدین کیس، ڈوسو کیس، عاصمہ جیلانی کیس، نصرت بھٹو کیس جیسے کئی ایک کیسز ہیں جن کے فیصلے سیاسی تھے قانونی نہیں۔ یہ کالی بھیڑیں سپریم کورٹ کو مقدس ادارہ سمجھتی ہیں کہ جیسے اس پر کوئی باز پرس نہیں، اس کے فیصلے الہامی نوعیت کے ہوتے ہیں حالانکہ ججز بھی انسان ہیں اور ہماری طرح خطا کے پتلے ہیں۔ آجکل تو صنفی تعصب پر مبنی فیصلے بھی سننے کو مل رہے ہیں۔
سماعت سے جہاں پہلے سزا تجویر کر دی ہو
دلائل بے گناہی کے تو پھر بے جان لگتے ہیں
تاریخ بتاتی ہے کہ عدالتی بحران بھی آئینی اور سیاسی معاملات کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ سن انیس سو چھیانوے میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور میاں نواز شریف کے مابین آئینی اختیارات کی وجہ سے پیدا ہوا۔ دوسرا عدالتی بحران پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے مابین پیدا ہوا اور یہ بھی آئینی اختیارات میں اختلاف رائے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ جب بھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا گیا، کوئی مارشل لاء لگا یا اسمبلی ٹوٹی، اس میں عدلیہ کا کردار ہی نمایاں رہا۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ کا مقصد ہی حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آئینی عدالت کی مخالفت صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جو عدلیہ کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے، جو عدلیہ اور انتظامیہ میں محاذ آرائی جاری رکھنا چاہتے ہیں اورعدلیہ کو بطور ایک ہتھیار کے قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ جب دل کیا منتخب جمہوری نمائندوں کو اسمبلی سے باہر پھینک دیں اور آمروں کے سروں پر آئین کی چھتری تان دیں۔
آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ تمام تر وقت عوامی مفاد کے کیسز پر صَرف کرے گی اور ہزاروں کیسز جو فیصلوں کے انتظار میں ہیں، وہ جلد سے جلد نمٹائے جا سکیں گے۔ آئین کے معاملات آئینی عدالت میں جانے سے سپریم کورٹ کی ویلیو میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ ہاں البتہ سوموٹو ز کی شرح کم ہو جائے گی کیونکہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا دور ختم ہو چکا ہوگا۔