26Wi Aeeni Tarmeem Aur Adliya
26 ویں آئینی ترمیم اور عدلیہ
حکومت اور اتحادی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی نے دو ماہ تک مسلسل گردش میں رہنے کے بعد بالٓاخر چھبیسویں ترمیم منظور کرو ا لی۔ اس ترمیم سے پارلیمان طاقتور ہوگی جبکہ معزز عدلیہ اپنے کام پر زیادہ یکسوئی سے توجہ دے سکے گی۔ ترمیم کا لب لباب اگر مختصر الفاظ میں نکالا جائے تو کہا جائے گا کہ آئین میں چھبیسویں ترمیم کرکے سن تہتر کے آئین کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کی طرف موڑنے کی طرف ایک قدم ہے۔ وجہ یہ کہ تہتر کے آئین میں اختیارات وغیرہ بارے دو ٹوک الفاظ میں کچھ نہیں کہا گیا، جو کہا گیا ہے اس کے کئی معنی حکومتیں اور ادارے خود تراش لیتے ہیں جس کے نتیجہ میں شخصیت پرستی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ادارہ جاتی آمریت پیدا ہوتی ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے نشانے پر زیادہ تر عدلیہ آئی ہے۔ پہلے سینئر جج کو چیف جسٹس تعینات کیا جاتا تھا۔ جبکہ اس ترمیم کے بعد اب سینئر ترین تین ججز کے نام بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے جو ان تین ججز میں سے کسی ایک کے نام کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی اور وزیراعظم، صدر پاکستان کو نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی درخواست کریں گے۔ المختصر، آئینی ترمیم کے ذریعے سنیارٹی سسٹم کو ختم کرکے تین ججز میں سے ایک کا انتخاب بذریعہ پارلیمانی کمیٹی کو سونپا گیا ہے۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ حکومت میرٹ کی بجائے من پسند چیف جسٹس لانا چاہتی ہے، لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ سنیارٹی ہی سب کچھ ہوتی تو پھر سرکاری ملازمین کی اے سی آر، پی آرز کا وجود نہ ہوتا کہ ملازم کی سالانہ کارکردگی جاننے کے لیے اے سی آرز مرتب کی جاتی ہیں اور سنیارٹی کے ساتھ ان اے سی آرز کو بھی بغور جانچا پرکھا جاتا ہے اور ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ملازم کو ترقی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ تین ججز کے نام بھی دراصل ان کی پی آرز کو دیکھنے کا ایک عمل ہے نہ کہ عدلیہ کے پر کاٹنے کا۔
اسی 26 آیئنی ترمیم میں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے سے منع کیا گیا ہے اور اسے باور کروایا گیا ہے کہ یہ کسی ادارے کو مت یا ڈائریکشن نہیں دے سکتی۔ مطلب یہ کہ چیف جسٹس پر واضح کیا گیا ہے کہ اپنا کام کریں، دوسروں اداروں کے کاموں میں کیڑے نہ نکالیں، ان کا وقت ضائع نہ کریں، انہیں اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے دیں، ان کی توجہ کو اپنے ماتحت کرنے کی آمرانہ سوچ ختم کر دیں، سو موٹو لیکر پوائنٹ سکورنگ کی بجائے کارکردگی کے ذریعے نمبر بنائیں اور پاکستان کا باوا آدم بننے کا خبط ترک کر دیا جائے۔
دیکھیں تو اس ترمیم کے ذریعے حکومت وقت نے اداروں کے سر پر سے آمریت کے بادل ختم کر دیئے ہیں۔ ویسے بھی سوموٹوز زیادہ تر صرف انہی کیسز پر لیے جاتے رہے ہیں جن کا مقصد اداروں کو کمزور دکھا کر شخصی پوائنٹ سکورنگ کرنا تھا۔ سوموٹوزکے باوا آدم افتخار چوہدری نے سوموٹوز کو اپنا ہتھیار بنا لیا تھا اور سستی شہرت کا حصول سمجھا۔ اب سوموٹو چیف جسٹس ازخود نہیں لے سکیں گے بلکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی سوموٹو لینے یا نہ لینے بارے فیصلہ کرے گی۔ گویا اس ترمیم کے ذریعے شخصی آمریت ختم کرکے جمہوریت کا بولا بالا کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو چھبیسویں آئینی ترمیم سے پارلیمان کو دوسرا جنم ملا ہے اور عدلیاتی آمریت کے سایوں میں یہ ترمیم خزاں میں بہار کا ایک تازہ جھونکا ہے۔
آئینی ترمیم میں پی ٹی آئی بھی دو ماہ تک گردش میں رہی اور متعدد مرتبہ مولانا فضل الرحمٰن کے درشن کیے لیکن تعجب ہے کہ آئینی ترمیم کا نہ ہی حصہ بن سکی اور نہ ہی کسی بحث میں شریک ہوئی اور نہ ہی کوئی مشورہ دے سکی۔ اس سے صاف ظاہرہے کہ پی ٹی آئی آئینی معاملات بارے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور یہ صرف مولانا کو ووٹ دینے سے منع کرنے کے منت ترلے کرتی رہی کہ اس کا ایجنڈا صرف عمران خان کو رہا کرانا اور حکومت کے ہر کام میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اس روش سے یہی تاثر پھیلتا ہے کہ یہ ایک انتشاری گروہ محض ہے جسے سوائے اقتدار کے کچھ نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی کا آئینی ترمیم کو عدلیہ کے پر کاٹنا کہنا ایسا ہی ہے کہ جیسے بقول شاعر:
یہ بھی ہے ماہتاب پرستی کی اک ادا
جب اُس کو چُھو نہ پائے تو خاک اس پہ پھینک دی