Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. 26Wi Aaeeni Tarmeem, Adaliya Aur Aaeen

26Wi Aaeeni Tarmeem, Adaliya Aur Aaeen

چھبیسویں آئینی ترمیم، عدلیہ اور آئین

ایک طرف چھبیسویں آئینی ترمیم میں کی جانے والی چھپن ترامیم منظر عام پر آ گئیں ہیں اور دوسری طرف سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے کہ اسے غیر آئینی قرار دیا جائے اور عدلیہ کی آزادی، اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے۔ تیسری طرف کراچی میں وکلاء نے مجوزہ آینی ترامیم کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ گویا جیسے عدلیہ دودھ کی دھلی ہو، بے داغ ہو، کلنک کے ٹیکے سے پاک ہو، آسمان سے اتری ہوئی ہو اور پوتر ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر سورج بھی بارش برسا سکتا ہے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا معاشرہ جہاں عدل کا بول بالا نہ ہو، جہاں کی عدلیہ آزاد، بے دھڑک، غیر جانبدار اور ردعمل کی پرواہ کے بغیر فیصلہ سازی کرنے والی نہ ہو وہاں جنگل کا قانون نافذ ہوتا ہے۔ وہاں ریاستی ستون اپنی دھاک قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ نتیجتاً عوام ان ستونوں کے مابین فٹ بال بن جاتی ہے کبھی ادھر سے کِک کھاتی ہے اور کبھی اُدھر سے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ادارے اپنی چودھراھٹ قائم رکھنے کے لیے آئینی تقاضا جات کو لات مار دیتے ہیں اور اسی لیے یہاں معروف ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر آئین کو پامال کرنے کی شروعات اسی عدلیہ نے کی۔ ملک میں میرے عزیز ہم وطنو کا بیج اسی عدلیہ نے بویا، بلڈی سویلین کی ڈنڈی اسی نے بنوائی اور ایسی بنوائی کہ 77 سال سے یہ رواں دواں ہے۔ کبھی کبھار لولی لنگڑی جمہوریت کے کالے بادل سے یہ ڈنڈی عارضی طو ر پر جمہوریت کی بارش کی وجہ سے دب جاتی ہے لیکن جلد ہی یہ دوبارہ چالو ہو جاتی ہے جب نظریہ ضرورت کا حملہ ہوتا ہے۔ جسٹس محمد منیر نے تمیز الدین کیس میں اس نظریہ کو روشناس کروایا اور ایسا کروایا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

نظریہ ضرورت کی بدولت ہی مارشل لاء کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ ایسا ہی نظریہ ہے کہ جیسے ہانڈی میں بہت سے مصالحے ڈال کر حرام گوشت کو حلال کرنے کی بے وقعت کوشش کی جائے۔ اس نظریہ کو بنیاد بنا کر جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشنل مرڈر کر دیا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت ختم کر دی جاتی ہے۔ اسی نظریہ کے تحت پی سی او پر حلف لے لیا جاتا ہے۔ سوموٹوز کے نام پر سیاست چمکائی جاتی ہے۔ اسی نظریہ ضرورت نے ڈنڈا کا بول بالا کیا ہے اور سیاستدانوں، صحافیوں اور دانشوروں کو ماتحت رکھنے کے لیے توہین عدالت کی سوٹی تراشی ہے۔

چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت چھپن ترامیم کا سرسری جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ اول، پارلیمنٹ کو مقدم قرار دینے کی یہ ایک کاوش ہے، دوم عدلیاتی آمریت کا زور توڑنے کی ایک کوشش ہے اور سوم آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ پر بوجھ کم کرکے اسے عوامی مفادات پر مشتمل کیسز کو نمٹانے پر توجہ مہیا کرنا ہے۔ اس ترمیم کے ڈرافٹ کے پیش نظر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ چھپن ترامیم میں کوئی ایسی غیر ضروری اور مفاداتی ترمیم نہیں ہے تو پھر اسے دو دن تک چھپائے کیوں رکھا گیا؟ غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ کالا کوٹ ان ترامیم کو اپنی آزادی پر حملہ قرار دیکر امن و امان کا مسئلہ پیدا کر سکتا ہے جیسا کہ آج کراچی میں آغاز ہوا۔ عدلیہ کی آزادی کیسی؟

عدلیہ تو آج تک آزاد ہو ہی نہیں سکی، پھر اس کی آزادی پر حملے کا سوال کیونکر؟ ایسے کالے کوٹ والے یا یوتھیے جو ان ترامیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں وہ سہیل وڑائچ کی کتاب بعنوان "عدلیہ کے عروج و زوال کی کہانی" اگر پڑھ لیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ عدلیہ میں کرپشن کی شرح کیا ہے؟ عدلیہ پر حملہ سے پہلے عدلیہ کو کیسے معلوم تھا؟ افتخار چوہدری کے کراچی جانے پر کراچی لہو لہو کیونکر ہوا؟ عدلیہ اور آمروں کا آپس میں گٹھ جوڑ کیا ہے؟ عدلیہ میں مفادات کا تحفظ کیسے کیا جاتا ہے؟ مقدمات کیسے لٹکائے جاتے ہیں؟ پی سی او پر حلف کیوں حلال ہو جاتے ہیں؟ دور آمریت میں ججوں کو پلیٹ میں رکھی ہوئی گورنرشپ کیسے حاصل ہو جاتی ہے؟ آئین توڑنے والوں کوسزا کیوں نہیں ملتی؟ عدلیہ میں سیکولر رحجان سے مذہب کی طرف رحجان کیونکر فروغ پا چکا ہے؟ بھٹو کا عدالتی قتل کیسے ہوا؟ بھٹو کا مقدمہ فوجی آمریت نے فوجی عدالت کی بجائے سول عدالت میں کیوں بھیجا؟ وغیرہ جیسے درجنوں سوالات کے جوابات انہیں ملیں گے اور ایسے ملیں گے کہ کوئی عبث نہیں کہ کالا کوٹ پہننے سے ہی توبہ استغفار کر لیں۔

قابل غور امر ہے کہ آئین میں ترامیم کی ضرورت کیونکر محسوس ہوتی ہے؟ محض اس لیے کہ تہتر کا آئین آج اکیسویں صدی کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے۔ آئین بناتے وقت عوام سے کوئی رائے نہیں طلب کی گئی تھی۔ اس میں اقلیتوں کو سیاسی حقوق نہیں دیئے گئے جیسا کہ اس آئین کے تحت صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اس میں اسلامی چھاپ نمایاں ہے۔ اس میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کو سونپی گئی ہے جبکہ اس طرح یہ حاکمیت ملاؤں پر سرایت کر جاتی ہے کہ وہی خدا شناسی کے علمبردار بنتے ہیں۔ اس آئین کے ہوتے ہوئے بیشمار مذہبی تشدد، فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہزاروں معصوم لوگ ہلاک ہوئے، اقلیتوں پر زمین تنگ ہوئی۔ گویا اس آئین میں کمی بیشی ہے، خلا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو بھی ڈکٹیٹر یا جمہوریت آتی ہے وہ اس میں ترامیم کرتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں جب ایک زمانے میں لاؤڈ سپیکر حرام تھا، ٹی وی حرام تھا، پھر حرام قرار دینے والوں نے ہی اپنے ہی قانون میں ترمیم کرکے اسے حلال قرار دے دیا تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق، تمام صوبوں کی مشاورت اور عوامی رائے کے تحت نیا آئین کیوں نہ مرتب کیا جا سکے!

زندگی کے بند دروازوں سے ٹکرانے کے بعد
راستے کچھ عقل و دل کے درمیاں سے مل گئے

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed