Teen Bartao
تین برتاو
دو افراد کے باہمی تعلقات میں تین برتاو ہوں تو تعلق بہت ٹاکسک اور ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے بے وفائی۔ دونوں پارٹنرز میں سے کوئی ایک اس امر کا مرتکب ہو اور دوسرا انجان ہو لیکن جب دوسرے کو معلوم ہو تو پھر تعلق میں صرف مجبوری کا ساتھ رہتا ہے یا پھر زندگیوں میں زہر گھل جاتا ہے۔ کیونکہ بھروسہ، اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی نظروں میں عزت بھی نہیں رہتی۔
دوسرا۔ پرانے تعلق سے جو کہ ٹوٹ چکا ہو اس سے نہ نکلنا۔ گو یہ مشکل کام ہے بہت مشکل۔ لیکن بہر حال زندگی گزارنے کے لئے یہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر صبر کرنا چاہیئے کہ دوسرا فرد اس دنیا سے چلا گیا ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
تیسرا برتاو۔ پرانے تعلق کو یاد کرتے کرتے نیا تعلق بنانے کی خواہش، اور اگر نیا تعلق بن جائے تو نئے پارٹنر کے سامنے بار بار اس فرد کا ذکر کرنا۔
یعنی ایک انسان نے آپکو چھوڑ دیا، آپ اسکے لئے غیر اہم تھے اپنی تمام تر محبت کے باوجود، اس لئے اس نے بہ آسانی آپکو چھوڑا۔ لیکن اگر کسی انسان کی سوئی اسی پرانے تعلق پر اٹکی ہوئی ہے تو پھر اس انسان کو سائیکاٹرسٹ کے ساتھ چند سیشن ضرور کرنے چاہئیں۔
یہ برا ماننے کی بات نہیں ہے یہ ذہنی حالت اور نیا تعلق درست رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
یہ سب مجھے یوں لکھنے کی ضرورت پیش آئی کہ اکثریت یہ غلطیاں کرتی ہے اور کر رہی ہے کیونکہ ہمارے یہاں باقاعدہ تربیت تو ہے نہیں کسی بھی نوعیت کی۔
گزشتہ برس ایک محترمہ کا انباکس آیا کہ ڈپریشن میں ہوں۔ بات کر لیں۔ میں نے ان کے ساتھ بات کی اور انسانیت کے ناتے بار بار بات کی ورنہ اتنا وقت نہیں ہوتا میرے پاس، لیکن وہ پریشان تھیں اکیلی تھیں۔ چالیس برس کی ہونے والی تھیں اور جب وہ بیس برس کی تھیں تب انکی خالہ نے اپنے بیٹے کے ساتھ انکی منگنی کروائی تھی۔ لیکن شادی نہ کی تھی جب وہ تیس برس کی ہوئیں تو منگنی توڑ دی اور دوسری جگہ بیٹے کی شادی کر دی۔
انکی شادی نہ ہو سکی کیونکہ والدین کا انتقال ہوگیا، یہ بہن بھائیوں کے گھر رہتی رہیں اور ڈپریشن میں مبتلا ہوگئیں۔ فیس بک پر بھی کم ہی آتیں۔
خیر انکے مسئلے کے حل کے لئے انکے شہر میں ایک ایسی اچھی خاتون کا پتہ بتایا جنہوں نے نہ صرف ان کا رشتہ کروا دیا۔ بلکہ انکی ذہنی و ظاہری حالت بھی درست کروائی۔ لیکن اب جب کہ رشتہ طے ہوگیا ہے وہ اپنے خالہ زاد منگیتر کو یاد کر رہی ہیں اور اس بندے سے بھی سابقہ منگیتر کا ذکر کر دیا۔
پہلے تو اس شریف آدمی نے کچھ نہ کہا، لیکن اب دوسری خاتون سے کہہ دیا کہ لڑکی سے دوبارہ ٹھیک سے پوچھ لیں کہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ ڈیسنٹ بندہ ہے، ایک چار سالہ بیٹا ہے۔ بدقسمتی سے بیگم دوسرے بچے کی پیدائش کے وقت انتقال کر گئی۔
چلو شکر ہے اس نے نیک نیتی سے دوسری شادی کا سوچا، سہارا دینے کی حامی بھری۔
جب میں نے محترمہ کو فون کیا کہ یار کیا مسئلہ ہے۔ بندہ تو اچھا ہے۔ آنٹی نے مجھے تفصیل بتائی ہے تو کہنے لگیں، بس مجھے اسکی یاد آتی ہے تو ذکر کر دیا، اس نے برا کیوں مانا بھلا، وہ بھی اپنی بیوی کا ذکر کر رہا تھا، اسکا تو بچہ بھی ہے الاں فلاں۔ میں نے کہا بچہ ہے تو کیا ہوا، بچہ اسقدر کیوٹ ہے کہ آپکو شکر کرناچاہیئے کہ پہلے سے بچہ موجود ہے۔ کیا پتہ خدا نے آپ کے لئے بہتری رکھی ہو۔
آجکل لوگوں کی اولاد نہیں ہو رہی ہے۔ پوری دنیا میں لوگ ترس رہے ہیں۔
جنوری میں میرے بھائی بھابھی عمرہ کرنے گئے تھے، بھابھی نے بتایا، یار مطربہ ہر تیسری خاتون بچے کی دعا کے لئے کہہ رہی تھی، اور سب اقوام کی خواتین پاکستانی، سعودی، انڈین، ملائشین، ترکش۔
حرم اور مسجد نبوی میں موجود بچوں میں ٹافیاں اور مٹھائیاں بانٹ رہی تھیں، کہ اللہ تعالٰی انکی مراد پوری کر دے۔
حج سے میری کزن واپس آئی ہیں انہوں نے بھی یہی بتایا، اتنی ساری عورتوں نے اولاد کے لئے دعا کا کہا کہ میں نے ایک شب جاگ کر صرف انہی لوگوں کے لئے دعا کی۔۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہی ہیں۔ تم لوگ کہتے رہتے ہو، کہ سائنس نے ترقی کرلی ہے۔ دیکھو پوری دنیا میں بانجھ پن بھی بڑھ رہا ہے، (خیر اسکا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب زندگی گزارنے کے غلط طریقے اور تعلقات کو عمدگی سے نہ نبھانے کے نقصان ہیں۔ اور بھی بہت سارے عوامل ہیں)۔
پھر بھی میں نے کزن سے بحث نہیں کی۔
لیکن محترمہ کو کافی سمجھایا اور جب یہ کہا کہ سائیکاٹرسٹ سے رجوع کر لیں، ایک اچھی ماہر نفسیات خاتون کا نمبر دیتی ہوں تو محترمہ برا مان گئیں اور ابھی چند لمحات پہلے دیکھا کہ محترمہ مجھے واٹساپ پر بلاک اور فیس بک پر ان فرینڈ کر گئیں ہیں۔
مجھے اس سارے معاملے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اکثر وال پر ہمارے کچھ احباب تعلقات کے حوالے سے جلی کٹی لکھ رہے ہوتے ہیں اور ہر دو اصناف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلقات نبھانے اور اچھے بنانے کے لئے ان تین برتاو سے بچنا ہوگا خاص طور پر اگر کوئی ماضی ہے تو اس سے پیچھا چھڑانا بنیادی شرط ہے۔
خاتون کو بھی لعن طعن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ خواتین حساس ہوتی ہیں، ہارمونل پرابلمز بھی ہوتی ہیں اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ دوسری خاتون کا ذکر سن کر خوش ہوں، اسلئے خواتین کے سامنے موجودہ یا سابقہ گرل فرینڈ، محبوبہ، یا زوجہ کا بار بار تذکرہ فضول ہے، بلکہ یہ خود کو کوفت میں مبتلا کرنے والی بات ہے۔ کیونکہ پھر خاتون کو موقع ملتا ہے کہ وہ آپکوطعنہ دے یا پھر اپنے کسی کزن یا سابقہ دوست کا ذکر کرے۔