Pidar Shahi Aur Character Certificate
پدر شاہی اور کریکٹر سرٹیفکیٹ
ہماری کہانیوں، ڈراموں اور فلموں میں ایک امیر آدمی کو ہمیشہ عیاش طبع دکھایا جاتا ہے، شراب پیتے ہوئے، صنف مخالف سے افئیرز چلاتے ہوئے، پسندیدہ لڑکی کو اغواء کرتے ہوئے، دوستوں و لڑکیوں پر رعب جماتے ہوئے، غرض ساری برائیاں امیر آدمی میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ چلئے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ہوتی ہونگی، پھر اچانک اس امیر آدمی کو کسی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے، وہ سدھر جاتا ہے یا وہ لڑکی اسے سدھار دیتی ہے، یا کوئی حادثہ اسے سدھار دیتا ہے اور وہ نیک ہو جاتا ہے، اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں اللہ اللہ، خیرصلا۔
ان کہانیوں کے ذریعے یہ عمومی خیال راسخ ہوا کہ امارت بُری شے ہے، اور امیر لوگ بُرے ہوتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اسکے بر عکس ہے، ہمارے پیارے وطن کو حاصل کرنے کی جدوجہد امراء نے شروع کی اور قائد اعظم نے نہ صرف اپنی بہن کو آزادی کی جد و جہد میں ساتھ ساتھ رکھا، بلکہ اپنے دوستوں کی بہنوں، اور بیگمات کو بھی عملی طور پر کام کرنے کے لئے کہا، ملک بھر میں دورے کئے اور جب ایک ہل اسٹیشن کے کلکٹر صاحب اور انکے اہل خانہ سے ملے، تو ان سے خاص طور سے درخواست کی کہ، اپنی ہمشیرہ اور بیگم سے کہیئے کہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا کے ساتھ تحریک پاکستان کے لئے کام کریں۔
کلکٹر صاحب کی ہمشیرہ اس وقت محض سترہ برس کی تھیں اور کنواری تھیں، کمشنر صاحب نے انکی شادی ایک دوسرے علاقے کے کلکٹر سے کروائی، جو رنڈوے تھے اور شاید چار بچوں کے باپ تھے، یہ شادی گھریلو و سیاسی دونوں وجوہات کی بناء پر کی گئ تھی اور بہت اچھی چلی، ان عظیم خاتون کا اس وقت مجھے نام یاد نہیں آ رہا، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور خواتین اور بچوں کے لئے بہت سماجی امور سر انجام دیئے، ڈان اخبار میں کبھی کبھی لکھا بھی کرتی تھیں۔
کراچی کے علاقے لالہ زار میں انکا گھر تھا، بلکہ اب بھی ہے، (احباب میں کوئی تفصیلات جانتا/ جانتی ہیں تو ضرور شئیر کیجئے)تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، کسی خاتون کو معاشرے میں کوئی بھی معاش اختیار کرنے میں، کوئی بھی سیاسی سماجی کرنے کے لئے مرد کی طرف سے کریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی بہن نے تین چار دن پہلے، اپنا ایک افسانہ پڑھنے کے لئے دیا کہ تبصرہ کر دیجئے پلیز۔
افسانہ یہی تھا کہ، کہ ایک امیر آدمی کو غریب لڑکی سے محبت ہو گئ، آدمی میں ساری اخلاقی برائیاں موجود تھیں، بیگم کو مارتا بھی رہا، لڑکی نے رو دھو کر ساری زندگی گزار دی، بستر مرگ میں آدمی نے معافی مانگ لی اور پھر بیوہ پر سکون زندگی گزارنے لگی۔ میں نے کہا، شکریہ یہ بچوں والا افسانہ پڑھانے کے لئے۔ فرمانے لگیں، میں بولڈ نہیں لکھ سکتی، لوگ باتیں بناتے ہیں۔ لوز نانیاں، دادیاں بن کر بھی اس سماج کی عورت کو سوشل میڈیا پر بھی کریکٹر سرٹیفکیٹ چاہیئےکہ، اسکی کہانی پڑھنے والے مرد اسے نیک آپا سمجھیں۔
یعنی سچ لکھنے سے، کسی بیماری کے بارے میں بتانے سے، کوئی طبی آرٹیکل شئیر کرنے سے آپ بولڈ لگیں گے، اور روتے دھوتے وظیفے پڑھتے، لوگوں کی کہانیاں لکھنے سے نیک ترین۔ کہانیاں لکھئے، ہمارے سماج کا سب سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ مرد و عورت کے درمیان ہی ہے، اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے افسانہ لکھئے، شادی کے بعد کے مسائل پر افسانہ لکھئے، پچھلے کئ برس سے طلاق کی شرح کیوں بڑھی ہے؟ اس کی وجوہات پر کہانی لکھیئے، اس مسئلے پر سنجیدگی سے گفتگو و کہانی ہونی چاہیئے۔ یہ بولڈ مسئلہ نہیں ہے یہ انسانی، سماجی و معاشرتی مسئلہ ہے، اس پر کُھل کر لکھیں اور بات کریں۔
کوئی بولڈ کہے تو کہنے دیں۔ مرد تو نہ جانے کیا کچھ لکھتے ہیں، اداکاروں اور ماڈلز کی تصاویر اپنی والز پر لگاتے رہتے ہیں، ہر موضوع پر کُھل کر بات کرتے ہیں۔ ان کو تو عورتوں کی طرف سے کریکٹر سرٹیفکیٹ نہیں چاہیئے۔ عورت کو کیوں ہر مرد سے نیک پروین کا سرٹیفکیٹ چاہیئے؟ یہ ایک مضحکہ خیز برتاو ہے، خواتین کو خود اس رویئے کو بدلنے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔ کہانی میں با کردار مرد دکھایئے تا کہ سماج میں کچھ تو سدھار آئے، کیونکہ بقول آپکے کہ آپ معاشرے کو سدھارنا چاہتی ہیں۔ عیاش مرد کے عشق کی فینٹیسی سے باہر آنا ہو گا، تب ہی کہانی بدلے گی، سماج بدلے گا۔