Aurat Aur Intekhab
عورت اور انتخاب
گزشتہ دنوں انڈیا و پاکستان سے خواتین کے گھر سے چلے جانے اور دوسری شادیاں کرنے کی خبریں آئیں۔ ان خبروں کے بعد سے سوشل میڈیا پر تواتر سے خواتین کے متعلق مختلف لطائف اور خود ساختہ گھڑے ہوئے واقعات فیس بک و واٹساپ گروپس میں پھیلائے جا رہے ہیں۔
ان سب حالات کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان لڑکوں کو کچھ نہیں کہا جارہا جن کی وجہ سے خواتین نے انتہائی قدم اٹھائے اور اپنے گھر بار چھوڑے۔ عورت شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ وہ صرف اسی صورت میں گھر سے نکل سکتی ہے جب دوسرے فریق نے اسے اتنا اعتماد دیا ہو۔
اگر انتخاب کا حق اتنا ہی قبیح فعل ہے تو حالیہ کیسز میں فریقین بھی اتنے ہی قصور وار ہیں، جتنی خواتین، لیکن ہماری روایات و اقدار نے مرد کو کچھ نہیں کہنا کہ تم نے شادی شدہ عورت سے تعلقات کیوں بنائے اور کیوں اسکو گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔
خطے میں تعلقات میں دیانت داری کا فقدان ہے چاہے وہ تعلق کسی بھی قسم کا ہو۔ ازدواجی تعلقات نبھانے کے لئے کوئی تربیت نہ ہی گھر سے کی جاتی ہے نہ ہی کسی ادارے سے اور بد قسمتی سے نہ ہی ضمیر ان نزاکتوں کو سمجھتا ہے بلکہ ضمیر تو شاید اپنا وجود کھو چکا ہے تب ہی ایسے واقعات منظر عام پر آتے ہیں اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ان واقعات کو الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اتنا بڑھاوا دیا گیا کہ انڈین میڈیا اپنے ملک کے سائنسدانوں کا کارنامہ اسپیس گرافٹ چندارین - تھری بھول کر ان جوڑوں کی کوریج میں محو ہوگیا۔
ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا کے عظیم دانشوروں نے حتی الامکان ان واقعات کو صرف اور صرف خواتین کی بے راہ روی قرار دیا، نہ جانے ہمارے مرد حضرات کو وہ مرد کیوں نظر نہیں آتے جو شادی شدہ خواتین پر ہر جگہ نظر رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ موقع کی تلاش میں کوشاں رہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے اپنا کام کر جاتے ہیں۔
اسکی مثالیں سوشل میڈیا پر روز ہی نظر آتی ہیں۔ جب خواتین انباکس کے اسکرین شارٹ لگاتی ہیں تو اکثریت ناراض ہوتی ہے کہ بلاک کر دو لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ خاتون تو بلاک کر دے گی، آپ کب سدھریں گے؟
آپ کیوں کسی اور کی زوجہ سے بات چیت بلکہ کہنا چاہیئے کہ دوستی کرناچاہتے ہیں؟ آپ کیوں ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں؟
شادی جیسا اہم ادارہ ازدواجی لطائف، مرد کی بےراہ روی اور بے وفائی پر پردہ ڈالنا، صرف عورت پر شادی کو قائم رکھنے کی ذمہ داری رکھنے پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد ابھی تک اس فکر میں مبتلا ہیں کہ خاتون میرا جسم میری مرضی کا مطالبہ کر رہی ہے یا اس مطالبے کی وجہ سے گھر سے نکل رہی ہے۔
اس سطحی سوچ سے نکل آئیں، جو خواتین گھر سے نکلنے جیسا انتہائی قدم اٹھاتی ہیں انکی اکثریت یہ مطالبہ کرتی ہی نہیں کیونکہ ان کو اتنا شعور ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں اگر خواتین کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی کھیل یا ہنر میں مواقع مل جائیں تو شاید وہ ایسا نہ کریں۔
معاش کے مناسب ذرائع اور پسند کے نکاح کی اجازت دی جائے تو وہ کبھی کسی بھی قسم کا انتہائی قدم نہ اٹھائیں، لیکن جہاں بہنوں و بیٹیوں پر ہر وقت نظر رکھی جاتی ہو، کڑی نگرانی کی جاتی ہو، اور کہا جاتا ہو کہ یہ بہک نہ جائیں وہاں چور دروازے اور راستے کھل جاتے ہیں اور عورت بھی اپنی ذمہ داریوں کو بھول کر مرد کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑتی ہے اور پھر ایسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔
گزشتہ دنوں تین چار علاقائی زبان کی کہانیوں کے اردو تراجم پڑھے۔ کہانیوں کی بنیادی موضوع وہ روایات تھیں جن کا شکار خطے کی عورتیں ہوتی ہیں۔ جہاں زمین اور عورت پر سر دیئے لئے جاتے ہوں، جہاں جائیداد کے بدلے بہنو و بیٹیو کے سودے ہوتے ہوں، جہاں ان مول زندگیوں و جوانیوں کے مول لگتے ہوں۔ جہاں جسم و روح نکاح کے نام پر نیلام ہوتے ہوں اور طلاق صرف ایک فریق کا حق ہو۔ جہاں شادی سے انکار پر لڑکی کو زندہ رہنے کا حق نہ دیا جاتا ہو، جہاں خاندان کی غیرت عورت کے جسم میں رکھی ہو۔ وہاں ایسے ہی المیئے جنم لیتے ہیں۔
ماں بھی گھر سے نکل جاتی ہے کبھی بچوں کے ساتھ اور کبھی بچوں کو چھوڑ کر۔ جب تک عورت کو انسان سمجھتے ہوئے اسکی زندگی کے ہر معاملے میں اس کو فیصلے اور انتخاب کا حق نہیں ملے گا۔ سماج میں مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ سوچ بدلنی ہوگی۔