Sheikh Ali Najfi Brolmo Ki Roohani Zindagi o Karamat
شیخ علی نجفی برولمو کی روحانی زندگی و کرامات

تذکرہ غوثیہ سے نقل ہے کہ: یک روز ارشاد ہوا کہ فرعون کی ایک انتہائی قیمتی چیز گم ہوگئی ہے جو اسے پسند تھی۔ اس نے اپنے تمام غلاموں کو حکم دیا کہ "تم میں سے جو ڈھونڈ لائے گا، انعام و خلعت پائے گا"۔
جس غلام نے وہ چیز پائی نہایت شاد و خنداں تھا۔ باقی مایوسی کے عالم میں سر جھکائے کھڑے تھے۔ فرعون نے ناکام غلاموں سے کہا: "تم سب ملول کیوں ہو۔ طلب اور تلاش میں تو تم سب برابر ہو۔
صرف یافت سے محروم ہو اور یافت ایک اتفاقی امر ہے۔ اس لیے کہ چیز صرف ایک تھی اور کسی ایک ہی کو ملنی تھی۔
اس پر وہ غلام جس نے وہ چیز پائی تھی، بولا۔ "حضور اس لحاظ سے مجھ میں اور ان سب میں کیا فرق رہ گیا ہے؟"
فرعون نے وہ چیز اٹھا کر یوں زمین پر دے ماری کہ وہ ریزہ ریزہ ہوگئی۔ پھر وہ بولا۔
" تم میں اور ان سب میں صرف اس چیز کا فرق تھا، سو مٹ گیا۔ اس چیز کے ہونے نہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم تو صرف تمہاری طلب کے قدر دان ہیں"۔
پس ثابت ہوا کہ طلب و ریاضت سے بڑھ کر کوئی شے نہیں، یہی طلب ہے جو عشق مجازی میں ہو تو مجنون اور عشق حقیقی میں ہو تو رابعہ بصری، جنید بغدادی، معروف کرخی، لال شہباز قلندر، ابراہیم مجیب، بہلول دانا، گنج بخش شکر یا پھر حضرت شیخ علی نجفی برولمو بنتا ہے۔
شیخ مرحوم کو کوئی روحانی پیشوا مانتا ہے تو کوئی عالم باعمل، کوئی غیبی طاقت کا حامل کوئی عجیب ہستی مانتا ہے تو کوئی کچھ، اشفاق احمد نے روحانیت کے بارے میں خوبصورت لکھا ہے، میں چاہتا ہوں وہ آپ سے شئیر کروں۔۔
فاضل مصنف لکھتے ہیں" باباجی سے میں نے ایک دن پوچھا، ہماری روحانی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے، وہ بزرگ چلتے چلتے ندی کے کنارے پہنچے، پانی کی سطح پر پاؤں رکھا اور پانی پر چلتے چلتے ندی کے پار اتر گئے، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا انسان روحانیت کے زور پر پانی پر چل سکتا ہے؟
باباجی نے قہقہہ لگایا اور فرمایا "مذکرہ نویس ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کے بزرگ روحانی طاقت سے انسان سے بطخ بن گئے تھے، میں نے حیران ہو کرعرض کیا "کیا مطلب" وہ بولے، لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں میں سے کوئی ایک پانی پر چلنے کی طاقت حاصل کر لیتا ہوگا مگر یہ کام دنیا کی ہر بطخ اور اس کے بچے روز کرتے ہیں، تمام بگلے پانی کے تمام پرندے دنیا کے ہر کونے میں پانی پر تیرتے اور چلتے پھرتے ہیں لہذا یہ کیا روحانیت ہوئی، انسان، انسان سے بطخ بنا گیا"۔
میں نے عرض کیا "بزرگوں کے بارے میں لکھا جاتا ہے وہ اچانک ہوا میں اڑنا شروع ہو گئے"۔
باباجی نے ایک پھر قہقہہ لگایا اور فرمایا "گویا وہ روحانی طاقت سے مکھی بن گئے، میں نےسر جھکا لیا، وہ بولے، بیٹا ہم اگر دس، بیس، چالیس سال کے عملیات سے اڑنے کی طاقت حاصل کرلیں تو بھی ہم مکھی سے بہتر نہیں اڑ سکتے، ہم چڑیوں، طوطوں کوؤں اور عقابوں سے اچھا نہیں اڑ سکیں گے، چنانچہ یہ کیا روحانیت ہوئی، انسان، انسان نہ رہا، مکھی طوطا یا کوا بن گیا یا چیلوں اور چڑیوں کا مقابلہ کرنے لگا۔
میں نے عرض کیا اور "بزرگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے فلاں ولی چشم زدن میں ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتے تھے"؟
باباجی نے مسکرا کر جواب دیا، "یہ بھی کوئی کمال نہیں۔ شیطان کی سپیڈ اس سے بھی ہزار گناہ زیادہ ہوتی ہے، یہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دنیا کے کسی بھی مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ شیطان اپنی سپیڈ کی وجہ سے ایک لمحے میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو گمراہ کرتا ہے چنانچہ یہ کیا روحانیت ہوئی، انسان دس بیس پچاس وظیفے اور چلے کرے اور آخر میں شیطان کے ساتھ ریس شروع کردے"۔۔
میں نے عرض کیا "پھر روحانیت کیا "؟
باباجی بولے "روحانیت اشرف المخلوقیت ہے، اللہ تعالی نے انسان کو جس قدر مطمئن، شاکر، صابر، عالم، متحرک اور خوش پیدا کیا تھا، انسان ٹینشن، پریشانیوں، ہوس اور افراتفری کے اس زمانے میں خود کو واپس اس بنیاد کی طرف لے جائے اور حضور ﷺ کی ذات اقدس کو مظہر نور تسلیم کرلے۔ یہ لوگوں کے درمیان رہے، ان سے معاملہ کرے، ترقی کرے، آگے بڑھے، لوگوں کی مدد کرے اور اپنے اہل و عیا ل کے نان نفقہ کا بندوبست بھی کرے۔ لیکن ان تمام کارہائے دراز کے باوجود اللہ اور اسکے کریم رسول ﷺ کی یاد سے بھی غافل نہ ہو، یہ اپنی ہر کامیابی اور اپنی ناکامی میں اللہ تعالی کو یاد رکھے۔ یہ سوئے تو اللہ سے توبہ کرکے سوئے، یہ جاگے تو اللہ کا شکر ادا کرے، حضور ﷺ پر کثرت درود کرے فنا فی الرسول ہو یہ رزق حلال پائے تو اللہ کا شکر گزار ہو۔ یہ رزق حلال ہضم ہو جائے تو اللہ کا احسان مند ہو۔ مشکلیں پڑیں تو مخلوق کی بجائے خالق حضور ﷺ کے وسیلہ سے رابطہ کرے، مشکلیں آسان ہو جائیں تو بھی مخلوق سے قبل خالق کا شکر ادا کرے۔ یہ کل روحانیت ہے۔۔
تو اس پیراگراف کی روشنی میں یہ تمام صفات قبلہ شیخ علی نجفی کی ذات بابرکت میں بدرجہ اتم موجود تھیں، اہل و عیال کی ضروریات کا خیال رکھنے کی وہ اس حد تک تاکید کرتے تھے کہ کہا جاتا ہے کہ مرحوم تبلیغ کے سلسلے میں کھرمنگ کے کسی سرحدی گاؤں میں پہنچا تو عمائدین ان کی استقبال کے لئے جمع ہوے، ایک ایک سے وہ ہاتھ ملا رہا تھا کہ ایک شخص سے ہاتھ ملاتے ہی انہوں نے زیر لب لاحول ولا قوہ۔۔ پڑھا، ان کے ساتھی نے آہستگی سے پوچھا قبلہ خیریت؟
انہوں نے فرمایا کہ ابھی جس شخص سے ہاتھ ملایا مجھے جہنم کی تپش کا احساس ہوا، یہ بات کسی طرح اس شخص تک پہنچی اور وہ دوسرے دن شیخ علی مرحوم کے پاس پہنچا اور کہا کہ مجھ سے ہاتھ ملا کے آپ نے ایسا فرمایا میری غلطی کیا ہے بتادیں تو مہربانی ہوگی تاکہ میں اصلاح کروں، شیخ نے پوچھا "اچھا وہ تیرا ہاتھ تھا؟" کہا "جی قبلہ"۔۔
پوچھا " ذریعہ معاش کیا ہے؟"
کہا " کھیتوں میں کام کرتا ہوں اور مال مویشی پالتا ہوں بس گذارہ ہوجاتا ہے"۔
پوچھا "اپنے اور پورے اہل و عیال کے کھانوں (رزق) کی تفصیل بتاؤ"۔۔
غربت کا زمانہ تھا، اس بندے نے جواب دیا "بیوی بچے شلجم، خشک خوبانی اور ستو وغیرہ سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں جبکہ میں چونکہ گھر کا سربراہ ہوں اس لیے صبح شام ایک آدھ روٹی اپنے لئیے تیار کرواتا ہوں"۔
یہ سننا تھا کہ غصے سے شیخ علی کا چہرہ سرخ ہوا اور ساتھیوں کو کہا کہ یہ شخص جس بچھونے پہ بیٹھا ہے اس کے جانے کے بعد اس کو بھی دھو لینا، استغفرُللہ گھر والوں کو روکھی سوکھی کھلا کے اپنے لیے من پسند کھانا کھاتے ہو"۔
یہ تھا وہ تعلیمات اہل بیت جس کا پرچار کرنے، جسے لوگوں تک پہنچانے کی خاطر شیخ علی جیسی شخصیت کو خدا نے ان پہاڑی علاقوں میں پیدا کیا، دین اسلام کا پہلا رکن نماز ہے اس کی اہمیت کا شیخ مرحوم نے جا بجا تاکید فرمائی اور محرمات سے بچنے کی تلقین کی، ایک اور واقعہ آپ سے شئیر کرتا ہوں۔
سنہ ستر کی دہائی کی بات ہے، ترتو میر(تورتو میر) نامی پنجاب پولیس کا آفیسر بطور ایس پی بلتستان میں تعنیات ہوتا ہے۔ ایس پی صاحب ایماندار آفیسر ہے لیکن اولاد کی نعمت سے محروم ہے اور اسی وجہ سے اداس بھی رہتا ہے، اسی دوران اسے پتا چلتا ہے کہ کھرمنگ کے سرحدی گاؤں "برولمو " میں ایک شیخ صاحب رہتا ہے، بڑا پہنچا ہوا بزرگ ہے، ان کی دعائیں خدا ضرور سن لیتا ہے۔ وہ اولڈینگ تھانہ کے ایس ایچ او کو کہتا ہے کہ کل ہی اس گاؤں میں جا کے دعا کی درخواست کرنا۔۔
صبح سویرے ایس ایچ او صاحب شیخ علی برولمو کے دولت کدے پر حاضر ہوتا ہے تو دستک دینے پر ایک بچہ باہر نکل کے ان سے کہتا ہے کہ قبلہ شیخ صاحب فرما رہے کہ آپ صبح کی نماز پڑھ کے ادھر آجائیں کل، بے نمازیوں سے ہم بات نہیں کرتے"۔ ایس ایچ او کو کرنٹ سا لگتا ہے اور وہیں سے توبہ توبہ کرتا ہوا واپس اولڈینگ تھانہ پہنچ کے پاک و صاف کپڑے پہن کر، غسل کرکے نمازوں کی قضا پڑھنا شروع کرتا ہے۔۔ دو دن بعد دوبارہ حاضری دیتا ہے، اس بار خود قبلہ شیخ صاحب دروازے پہ آ کے اس کا استقبال کرتا ہے۔۔ چائے پلا کے شیخ صاحب فرماتے ہیں "اپنے افسر کو کہو کہ اولاد ہوئی تو اسی دن اس کی موت ہوگی، کہو تو دعا کرتا ہوں" ایس ایچ او واپس جا کے فون پہ یہ بات ایس پی ترتومیر کو بتا دیتا ہے۔۔
اولاد کی محبت اور خواہش سے مغلوب ایس پی ساب کہتے ہیں کہ اولاد کے لئے دعا کروا دیں۔۔
نو ماہ کا عرصہ گزر جاتا ہے، ایس پی ساب کسی سرکاری میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد میں ہے، سکردو سے انہیں کال کرتا ہے کہ "مبارک ہو ایس پی ساب کے ہاں بیٹا ہوا ہے" دوسری طرف سے کال اٹھانے والا جواب دیتا ہے "افسوس ان کا ہری پور میں حادثہ ہوا ہے اور ڈرائیور زخمی ہے جبکہ وہ خود جاں بحق ہوئے۔۔
یہ تھا قبلہ شیخ علی نجفی برولمو کی روحانیت کا عالم۔۔ ان کا مزار آج بھی مستجاب الدعوات جگہ ہے، جہاں بس قسمت والے پہنچ پاتے ہیں، راقم نے دو مرتبہ یہاں آ کے اپنی مشکلات خدا کو سونپی اور خدا نے سن لی۔۔
مایوس لوگ یہاں سے شادمان لوٹ آتے ہیں۔ مرد عارف شیخ علی برولمو صاحب کشف و کرامات، عالم با عمل اور نابغہ روزگار شخص تھے، آپ کا مزار لائن آف کنٹرول پر عین بارڈر پہ واقع ہے اور نہ صرف پاک آرمی بلکہ انڈین آرمی بھی اس مزار کا احترام کرتے ہیں، بلکہ انڈین آرمی سے منسوب یہ قصہ بھی زبان زدعام ہے کہ کشیدہ حالات میں ایک نقاب پوش گھڑ سوار جو سفید گھوڑے پر سوار ہے وہ پاکستان سائڈ پہ سرحدوں پہ گھومتا دکھائی دیتا ہے، اس کے علاؤہ کسی نے پاک فوج کے جوان کے ہاتھوں پھولوں کی چادر بھیجا تھا جسے مزار پہ چڑھائی مگر صبح وہ چادر مزار سے باہر پڑی ملتی ایسا کئی بار ہوا، اسی طرح یہ واقعہ بھی مقامی لوگوں کی زبانی سننے کو ملتا ہے کہ مزار کی تعمیر کے دوران ایک کاریگر ریڈیو پہ غزلیں سنتے ہوے کام کر رہا تھا کہ اچانک ایک ہاتھ نمودار ہوا اور اس ریڈیو کو بند کردیا ہمیشہ کے لیے۔
علاقے کے کچھ بزرگوں کی زبانی ان کی زندگی کے کچھ ناقابل یقین واقعات سننے کو ملتا ہے، مثلاََ ایک بزرگ نے کہا کہ وہ بچپن میں کچھ عرصہ شیخ علی برولمو کے مدرسے میں زیر تعلیم رہا، زانسکار سے برولمو کی طرف آتے ہوے طلباء بھوک سے بے حال ہوے تو شیخ مرحوم نے دریاے کرگل کے کنارے دو رکعت نماز ادا کی اور اپنے لاٹھی کو دریا پہ مارا تو سیکڑوں کی تعداد میں مچھلیاں سطح آب پہ نمودار ہوئی جنہیں طلباء نے آرام سے پکڑ کے کھانے کا اہتمام کیا، کھانے کے بعد شیخ مرحوم نے حکم دیا کہ کانٹوں کو دریا میں پھینک دیں اور اس واقعے کا کسی سے ذکر نہ کریں۔
گانچھے سے تعلق رکھنے والے مشہور روحانی پیشوا بوا فقیر مرحوم نے ان سے کسب فیض حاصل کیا۔۔ شیخ علی برولمو 10 فروری 1974 کو ہوا اور برولمو گاؤں سے ذرا اوپر ایک میدان میں عین سرحدی لائن پہ آپ کو دفن کیا، مزار جو اسی علاقے میں دربار کے نام سے مشہور ہے ایک بڑا سا چوکور کمرہ ہے، کمرے کے عین وسط میں لوہے کی خوبصورت جالیوں کے اندر مزار ہے، چھت پر قبہ لوہے کا بنا ہوا ہے، ان کی رفیقہ حیات کی قبر بھی اسی کمرے میں ہے، دور دراز سے لوگ ان کے مزار پر حاضری دینے جاتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں۔
مقالے کی طوالت سے بچنے کے لئے انہی کلمات پہ اکتفا کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ خدا ہمیں قبلہ شیخ علی نجفی برولمو کی تعلیمات پہ عمل کرنے اور صحیح معنوں میں سچا مسلمان بننے کی توفیق دے آمین۔

