Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Hussain
  4. Mawazna Bua Abbas o Shuraye Qadma

Mawazna Bua Abbas o Shuraye Qadma

موازنہ بوا عباس و شعرائے قدما

آگرہ کے غالب کو خبر نہیں کہ شگر نامی علاقے میں بوا عباس نام کا بندہ میدان سخن کا شہسوار بنا ہوا، نہ ہی بوا عباس کو یہ اطلاع کہ ان سے پہلے غالب نامی ستارہ، آسمان ادب پہ جلوے بکھیر چکے۔۔ مگر عجیب اندز میں کبھی ان کے خیالات یوں ملتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے گویا انہوں نے آہس میں مشورے سے شاعری کی ہے۔۔ مثلاً

غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگئی بو تراب میں

اسی مضمون کو ملک الشعریٰ نے یوں بیان فرمایا:

علی منتخ پو وجہ الله ہی صورت پے معانی ان!
خدا تھونگمی ڑگیہ لونگ پینگ نو، خدا ہلتنمی نشانی ان

شاعر مشرق لقب پانے والے حضرت اقبال نے جہاں ایک بات پہنچانے کے لیے پوری رباعی صرف کی وہیں ملک الشعرا حضرت بوا عباس نے صرف دو مصرعوں میں احسن طریقے سے اس بات کو پہنچا دی۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ اگر بواعباس اپنے افکار کو فارسی یا اردو زبان میں پیش کرتا تو ان کے قد وقامت کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا تھا! یقین جانئئے۔۔

شاعر مشرق فرماتے ہیں:

فطرت میری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میرا کبھی آہستہ کبھی تیز

پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سرِ خار کو سوزن کی طرح تیز

اسی بات کو ملک الشعرا یوں بیان کرتے ہیں:

ہلتوسی کھوے سترونگ لوکھی بزو، سترونگ می فیلا شاہِ گلاب
ژھوغی نیزونگ لہ خلونگی سکور بو زونے غدَر چوگسید

اصل سبب کو چھوڑ کر شاعر اگر اپنی طرف سے کوئی سبب بیان کرے اور اصل وجہ کو قبول نہ کرے تو اس صنعت کو حسنِ تعلیل کہا جاتا ہے۔ مثلاََ نامور مرثیہ گو شاعر مرزا دبیر سورج کے طلوع و غروب ہونے کے فطری عمل کو نہیں مانتا بلکہ اس کے نزدیک سورج کا مشرق سے طلوع ہو کے مغرب میں غروب ہونا کسی خاص وجہ سے ہے وہ کہتے ہیں:

خورشید سرِ شام کہاں جاتا ہے؟
واقف ہے دبیر اس سے جہاں جاتا ہے

مغرب ہی کے جانب ہے مزارِ حیدرؑ
یہ شمع جلانے کو وہاں جاتا ہے

اسی مضمون کو فخرِ بلتی زبان ملک الشعرا بوا عباسؒ یوں بیان کرتے ہیں

نیما ژوخ یانگ لہ غدنگ سَل بیا، نجف سی زگوا خلانے غدونگ پو
ما لا شر چوک پی ضامن پو، نا سلطانِ خراسان بید

نعت گوئی میں انہیں کمال حاصل تھا، عشق رسول میں ڈوبا ان کا ایک شعر بمعہ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں تاہم شعر کے ترجمے میں لسانی اور ادبی محاسن کو منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اگر ایسا ممکن ہوتا تو شاید دنیا کے سارے منقبت گو شعرا بوا عباس کو امام الشعرا مان کر ان کی شاگردی قبول کرتے۔ ان کے کلام میں حسن تعلیل، تشبیہ، استعارہ، تضاد اور تلمیح جیسی صنایع ادبی کو بہت خوب صورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ دو بیت ملاحظہ کریں:

کھیرے پھوق توگ پہ دنیا مید نرے کھوانگ گیاب اَن لا
کھو نہ کھوے لژنگمہ بوژھونی پھری میول لنگسید سُوگ

یہ کائنات دھڑام سے گر جاتی اگر آپ ﷺ پشت پناہ (سہارا) نہ ہوتے۔ آپ اور آپ ﷺ کی آل اطہارؑ کے طفیل ہی یہ دنیا قائم ہے۔

یری معراجی جغینگ لوق پی رگانو مید نا رے
سہ سا کھوانگ سے کھہ مہ کھڈ پا یری لزا برنگسید سُوگ

معراج کے دن آپ ﷺ کے واپس زمین پر آنے کی خوشی اگر نہ ہوتی تو یہ زمین بے قراری میں زمین پر نہ ٹکتی اور آپ ﷺ کے ساتھ جانے کی ضد کرتی۔۔

بوا عباس علیہ الرحمہ کی شاعری سمجھنا بھی ایک فن ہے اور عام آدمی سمجھنے سے قاصر ہے، مضمون کی طوالت کے پیش نظر صرف ایک شعر جو فارسی و اردو زبان کا حسین امتزاج ہے کی تشریح کروں گا، ملاحظہ فرمائیں

ماہ چو فغفورِ چین کھوے اودی کھا لمعہ چین
جام جم است چون ہلال کاسہ گدا، نی علی

بوا عباس مرحوم کی مشہور منقبت کے اس شعر کو فارسی کے مشکل الفاظ و تراکیب اور صنایع ادبی کے سبب عام طور پر ہمارے لوگ سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک بزرگ کو اس کی غلط تشریح کرتے بھی سنا لہذا بلتی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی سہولت کے لیے اس بیت کے مشکل الفاظ کی وضاحت کے ساتھ شعر کا مکمل ترجمہ اور مختصر تشریح پیش خدمت ہے۔

ماہ: فارسی زبان میں چاند اور مہینہ کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں چاند کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

چون/چو: یہ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے دو معنی ہیں: جب اور جیسے یا کی طرح، یہاں "جیسے یا کی طرح" کے معنوں میں حرف تشبیہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ "چون" کو کبھی مختصر کرکے "چو" کیا جاتا ہے۔

فغفورِ چین: یہ بھی فارسی کی ترکیب ہے۔ فغ یا بغ کا مطلب ہے خدا اور فور یا پور بیٹے کو کہا جاتا ہے۔ لہذا اس کے لغوی معنی خدا کے بیٹے کے ہیں لیکن اصطلاح میں عام طورپر چین کے قدیم بادشاہوں کا لقب ہے۔

کھو (ے): یہ بلتی زبان کا لفظ ہے اور مفرد غائب مذکر کا ضمیر ہے اور "ے" نسبت کے لئے یعنی "اس کا"

اود (ی): بلتی میں اود، نور یا روشنی کو کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ "عود" لکھتے ہیں جو مناسب نہیں ہے کیونکہ اصل بلتی الفاظ میں "ع" شامل نہیں ہے۔ آخر میں جو "ی" ہے وہ بھی نسبت کے لیے ہے۔

کھا: یہ لفظ اسم بھی ہے اور حرف بھی۔ اسم "منہ" کے معنوں میں مستعمل ہے جبکہ حرفی معنی "سے، پر یا آگے" کے معنوں میں ہے۔ اودی کھا یعنی اس کے نور سے۔

لمعہ: یہ عربی زبان کا لفظ ہے جو چمک، نور یا آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنی کو کہا جاتا ہے۔ (کچھ مصنفین نے اپنی تصنیفات کا نام بھی "لمعہ" رکھا ہے جس میں آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ عالم شمس الدین محمد المعروف شہید اول کی فقہ کے موضوع پر لکھی گئی عربی کتاب قابل ذکر ہے۔ لیکن اس شعر میں کوئی کتاب شاعر کا مقصود نہیں ہے۔)

چین: ملک چین کے علاوہ بلتی زبان میں "کیا ہے" کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لفظ چی اور ان/ین سے مل کر بنا ہے۔

فارسی میں "چین" مصدر"چیدن" کا مضارع ہے جس کا مطلب ہے چننا، حاصل کرنا، انتخاب کرنا، کشید کرنا وغیرہ۔ یہاں حاصل کرنا اور کشید کرنا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

لمعہ چین: اب اگر لمعہ چین کو ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہوگا۔ نور حاصل کرنے والا، روشنی لینے والا یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لمعہ یعنی تیز روشنی بھی کیا چیز ہے۔

جامِ جم: فارسی کی ترکیب ہے۔ "جام "کے معنی (شراب کا) پیالہ کے ہیں اور "جم" ایران کے اساطیری بادشاہ جمشید کے نام کا مخفف ہے۔ جام جم سے مراد جمشید بادشاہ کا وہ جام ہے جس میں وہ آنے والے زمانے کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کر لیتا تھا۔

است: فارسی زبان کا لفظ ہے اور فعل ناقص کے طور پر مستعمل ہے جس کے معنی 'ہے" کے ہے۔

چون: اوپر ذکر ہوا ہے۔

ہلال: عربی زبان میں مہینے کی پہلی تاریخوں کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے۔

کاسہ: کاسہ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس لفظ کے معنی بھی پیالہ اور جام کے ہیں۔ البتہ کاسہ صرف شراب خوری کے علاوہ دیگر مشروبات اور غذا خوری کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بھکاری کے کشکول کو کاسہ گدا کہا جاتا ہے۔

گدا: بھکاری، بھیک مانگنے والا

نی: میرا

علی: حضرت علیؑ

ترجمہ: چاند چین کے بادشاہ فغفور کے مصنوعی چاند کی طرح ہے اور اس (حضرت علیؑ) کے نور سے روشنی کشید کرتا ہے اور جمشید بادشاہ کا جام ہلال کی مانند میرے مولا علیؑ کے آگے بھکاری کی کشکول کے جیسا ہے۔

تشریح: چاند رات کے وقت پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے اور اپنی خوب صورتی اور روشنی سے رات کو مسحور کن اور منور بنا دیتا ہے لیکن اس کی روشنی اپنی نہیں ہے بلکہ حضرت علیؑ کے نور سے مستعار ہے۔ اگرچہ چاند کی روشنی سورج کی روشنی کا انعکاس ہے لیکن شاعر سے بہت خوب صورتی سے حضرت علی کے مقام و مرتبت کو واضح کرتے ہوئے آن حضرت کو سورج کی طرح نور بخشنے والا قرار دیا ہے۔ اسی طرح جام جم بھی (جس میں ایران کے اساطیری بادشاہ جمشید دنیا کے حالات و واقعات کو دیکھ سکتا تھا) حضرت علیؑ کے آگے اتنی بے اہمیت شے ہے جو فقیر کی کشکول کی طرح حضرت علیؑ سے بھیک مانگتا ہے اور اس میں جہان بینی کی صلاحیت بھی حضرت علیؑ ہی کی دین ہے۔ اس شعر میں شاعر نے تلمیح، جناس، ایہام، مراعات النظیر اورتشبیہ کا خوب صورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے جو بوا عباس مرحوم کی قدرت کلام اور شاعرانہ مہارت کی دلیل ہے۔

کتابیات: سید عباس علی شاہ شخصیت و فن۔ از محمد حسن حسرت

پبلشر: اکادمی ادبیات پاکستان

تحقیقی مقالہ: پروفیسر نذیر بیسپا جامعہ کراچی

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed