Javed Nama, Mukhtasar Taaruf
جاوید نامہ، مختصر تعارف

گزشتہ دنوں کچھ طلباء سے اقبال کی نظریات پہ گفتگو ہوئی اور بات ان کی مثنوی "جاوید نامہ" تک پہنچی جسے وہ اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے، طلباء کی تشفی کے لئے جاوید نامہ کا مختصر تعارف اپنے قارئین کے لئے بھی زیب قرطاس کر رہا ہوں۔
"جاوید نامہ" بلاشبہ حضرت علامہ کا عظیم شاہکار ہے جو انہوں نے مشہور رومی شاعر دانتے کی کتاب "ڈیوائن کامیڈی" کے جواب میں لکھی۔ مثنوی کا نام اپنے نور نظر ڈاکٹر جاوید اقبال کے نام پہ رکھا، مثنوی ایک مناجات سے شروع ہوتی ہے جس میں اقبال اپنی تنہائی کی شکایت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہر دور کے نوجوان اس کے کلام کو سمجھتے رہیں۔ مناجات کے بعد تمہید آسمانی میں آسماں کی زبانی زمین کو طعنہ دیتے ہیں جس کے جواب میں زمین اپنے اندر بسنے والوں کی فضیلت بیان کرتی ہے، اس خوبصورت تمہید کے بعد مولانا رومؒ کی روح سے اقبال متصل ہوتے ہیں اور ان کی معیت میں آسمانوں کی سیر کے لئے نکل پڑتا ہے، ستارے ان دو عظیم ہستیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، اپنے مرشد سے اقبال مختلف فلسفیانہ سوالات پوچھتے ہیں اور مولانا روم کی زبانی وہ عشق کی اور اور زمان و مکان کو قابو پانے کے طریقے بیان کرتے ہیں نظم کے اس حصے میں قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں زمان و مکان کی حقیقت واضح کی ہے۔
چاند کی سیر کے بعد مولانا روم اقبال کو وادی طواسین لے جاتے ہیں (معروف صوفی منصور حلاج کی کتاب الطواسین کا نام اسی مناسبت سے ہے) یہاں ایک گڑھے میں ابوجہل پڑا رو رہا ہے اس کا دکھ یہ ہے کعبہ بت خانے سے حرم کیوں بنا، مسلمان آپس میں بھائی بھائی کیوں بنے، ان میں خاندانی فضیلت کیوں نہیں۔۔
آگے کسی اور مقام پہ اقبال کی ملاقات سید جمال الدین افغانی اور علیم پاشا سے ہوتی ہے، افغانی اسلامی ممالک کی زبوں حالی کے بارے میں پوچھتے ہیں اقبال کو شکوہ کہ وہ حضرت امام سجادؑ کی طرح کفر اور دین اسلام کی جنگ تنہا لڑ رہے۔ زیرہ نامی آسمان پر اقبال سے زمانہ قدیم کے کچھ معبودوں کی ملاقات ہوتی ہے جو اس بات پہ خوش ہیں کہ دنیا میں قوم پرستی، مسلک پرستی اور نسل پرستی کے بت از سر نو زندہ ہو رہے گویا بت پرستی دوبارہ احیا ہو رہی اولاد ابراہیم میں وہ ایمان باقی نہیں رہا جبکہ سیکڑوں ابو لہب پھونکوں سے چراغ مصطفوی کو بجھانے کی کوشش میں ہیں۔
ستارہ مریخ پر اقبال کی ملاقات عمر خیام اور طوسی سے ہوتی ہے یہاں تقدیر اور تدبیر کے مسلے پر سیر حاصل گفتگو ہے۔ یہیں کہیں اقبال ایک ہجوم کو دیکھتا ہے جس میں ایک عورت تقریر کر رہی، عورت کا چہرہ بظاہر روشن مگر جسم میں زندگی کا نور نہیں، عشق اور سوز کا جذبہ نہیں، یہاں اقبال خواتین کو مغربی ثقافت سے دور رہنے اور اپنے پردے کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
سترِ زن یا زوج یا خاکِ لحد
سترِ مردان حفظِ خویش از یارِ بد
(عورت کا پردہ اس کا شوہر ہے یا پھر قبر کی مٹی ہے۔ جبکہ مردوں کا پردہ اپنے آپ کو بُری صحبت سے بچانا ہے۔)
مشتری کے آسمان پر اقبال کی ملاقات منصور حلاج، مرزا غالب اور قرآۃ العین سارہ سے ہوتی ہے اس حصے میں وحدت الوجود کے فلسفے پر بحث کی گئی ہے۔ ذرا آگے اقبال سلطان ٹیپو شہید سے وہ ملاقات کرتے ہیں اور برصغیر کے موجودہ صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں، ٹیپو سلطان شہید اپنے پیغام میں کہتے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کے سو سالہ زندگی سے بہتر ہے زندگی کوشش و حرکت کا نام ہے اور موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ مومن کی آرزو ہے، شہادت زندہ و جاوید کرتی ہے یہاں ٹیپو سلطان مثال میں حضرت امام حسینؑ کی شہادت کو پیش کرتے ہیں، اس گفتگو کے بعد حوریں اقبال کو گھیر لیتی ہیں اور شاعر مشرق سے غزل سنانے کی فرمائش کرتی ہیں۔ اقبال غزل سناتے ہیں جس کے اشعار کچھ یوں ہے۔۔
بہ آدمی نرسیدی خدا چہ میجوئی
زخود گریختہ نے آشنا جہ میجوئی
(آدمی تک نہیں پہنچ پائے اور خدا کی تلاش ہے، خود کو پہچان نہیں پائے اور آشنا ڈھونڈ رہے)۔
اس محفل سرور کے بعد اقبال امیر کبیر سید علی ہمدانی سے ملاقات کرتے ہیں امیر کبیر ان کو فقیری، بادشاہی، تخت و تاج کی اصلیت کے متعلق انتہائی بیش قیمت اسرار و حقائق بیان کرتے ہیں۔
مثنوی کا اختتام نہایت دلکش انداز میں کیا ہے، آخری حصہ "خطاب بہ جاوید" میں نوجوانوں کو حالات حاضرہ کی روشنی میں نصیحت بھرا پیغام دے رہا، وہ نصیحت کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو عقیدہ توحید پر پختہ یقین رکھنا چاہئے، مومن غلامی پہ کبھی بھی راضی نہیں ہوتا نہ ہی وہ فرقہ پرست اور بددیانت ہو سکتا ہے۔
غرض اقبال کے فلسفے کو سمجھنے کے لئے مثنوی "جاوید نامہ" کا مطالعہ بہت ہی کارامد شے ہے۔
کاش بلتستان میں کوئی ادارہ فارسی زبان سکھانے کا کام کرے تو یہاں طلباء و دیگر باذوق افراد نہ صرف اقبال کے فلسفے سے روشناس ہوں گے بلکہ دیگر مشاہیر عالم کے افکار و نظریات کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی۔

