Isfahan Ki Sair
اصفہان کی سیر

یہ اصفہان ہے، جسے دنیا نصف جہاں کہتے ہیں، میں مولانا جاوید مبلغی کے ساتھ شہر کی رعنائیوں میں کھویا ہوا، یہاں پھول ہیں، پری چہرہ پری زادوں کی ٹولیاں ہیں رونقیں ہیں، خوبصورتی ہے لیکن میری نگاہیں ساڑھے چھ سو سال قبل کا اصفہان دیکھ رہا جب تیمور لنگ نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی، تیمور لنگ جن کا کہنا تھا کہ کٹی ہوئی انسانی گردن سے ابلتا خون دیکھنے میں جو سرور اور لذت ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں۔
میں امیر تیمور سے چھ سو اکتالیس سال بعد اس شہر میں پہنچا لیکن میں نے اب بھی اس شہر کی در و دیوار سے سسکیاں سنی جو تیموری مظالم پہ نوحہ کناں تھیں، میرا بھانجا مولانا جاوید اقبال مبلغی مجھے اشاروں سے مختلف مقامات دکھا رہا، میں بظاہر ہوں ہاں کر رہا لیکن میری نظریں ان گلیوں میں خون کی ندیاں اور شہر کے کسی میدان میں انسانی سروں کا مینار دیکھ رہا۔ تیمور لنگ کسی مہم پہ جا رہا تھا کہ فارس کے قریب وہ بیمار ہوا، شاہی طبیب نے اسے لیموں کا رس ایک گلاس پینے کو کہا تو انہوں نے شہنشاہ فارس شاہ منصور کو خط لکھا کہ میں تمہارے پڑوس میں بیمار ہوں، طبیب نے مجھے لیموں کا رس پینے کو کہا ہے، میں تجھ سے ایک ٹوکری لیموں کی امید رکھتا ہوں، ایک بادشاہ کا یہ تحفہ یاد رکھوں گا اور واپس اپنے ملک پہنچ کر تمہارے شایان شان تحفہ پیش کروں گا۔۔
نہیں معلوم کہ شہنشاہ فارس نے اس خط کا مطلب کیا سمجھا کہ انہوں نے جواب میں لکھا کہ میں یہاں بادشاہت کر رہا، سبزی فروشی نہیں، تم نے مجھے سبزی فروش سمجھا ہے کیا جو لیموں مانگ رہے؟ اس جواب نے وحشی تیمور لنگ کی تن بدن میں آگ لگا دی اور ایک طویل اور خونریز جنگ کے بعد شاہ منصور اور اس کے گیارہ فرزندوں کے سروں کو نیزے پہ چڑھا کے وہ اگلی مہم پہ روانہ ہوا، شاہ منصور کو شکست دینے سے پہلے اس نے خراسان اور اصفہان کو تاراج کیا۔
وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ جب میں 780 ہجری کو ایک لاکھ بیس ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر اصفہان پہنچا تو شہر کے دروازے بند کرکے اہالیان اصفہان دفاعی پوزیشن اختیار کر چکے تھے، اصفہان کے گرد مضبوط حفاظتی دیوار تھی جس کی لمبائی ساڑھے سات فرسخ تھی اور ہر ڈیڑھ سو گز پہ حفاظتی برجیاں بھی بنی ہوئی تھیں، نزدیکی قصبے سدہ کے امام جماعت نے مجھے بتایا کہ یہ دیوار حضرت نوحؑ نے بنوائی تھی اور اتنی مستحکم تھی کہ طوفان بھی اسے ڈھا نہ سکا، اس نے یہ بھی بتایا کہ نوحؑ نے اپنی کشتی اصفہان ہی میں بنوائی تھی اور طوفان کے بعد وہاں سے چلے تھے۔
اس دیوار کو بارود کے ذریعے ڈھا کے میرے فوجی دستے جب شہر میں داخل ہوئے تو گو کہ طویل محاصرے میں شہر کے لوگ بھوکے تھے اس کے باوجود انہوں نے سخت مزاحمت کی، میرا سردار گن چتن سمیت ہزاروں سپاہی اصفہان والوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، اس رات طوفانی بارش ہوئی اور اسی بارش میں یہ جنگ اصفہان کی گلی کوچوں میں پھیل گئی، پوری رات میرے سپاہی گلی کوچوں میں اصفہانی باشندوں سے لڑتے رہے، اگلے دن جب میں نے شہر میں قدم رکھا تو کیچڑ میں لپٹی لاشوں اور گلی کوچوں سے بہنے والے خون کی ندیوں نے میرا چلنا دوبھر کر دیا، میرے سپاہیوں نے کسی ترحم کے بغیر شہر کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا تھا۔
میرے سپاہی گھروں کو مسمار کرتے اور مکینوں کو تہ تیغ کرتے آگے بڑھ رہے تھے، ہمارے پاس وقت کم اور غضب کی آگ اتنی زیادہ تھی کہ جب کوئی خوبصورت جوان عورت ہمارے ہتھے چڑھتی تو اسے قیدی بنانے کے بجائے اس کا سر اڑا دیتے یا پیٹ چاک کرتے، جب کسی مرد یا عورت کا پیٹ پھٹتا تو معلوم ہوتا تھا کہ اہل شہر نے آخری دنوں میں صرف درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کر لئے۔۔ اصفہان شہر مکمل فتح کرنے کے بعد میں نے سپاہیوں کو لوٹ مار کی اجازت دی اور حکم دیا کہ شہر کی عورتوں کو سپاہیوں اور افسروں میں تقسیم کرے، اصفہان شہر کا دو تہائی حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا اور تین چوتھائی آبادی موت کے گھاٹ اتر چکی تھی"۔
یہی وجہ تھی کہ میں اس ٹیلے پہ کھڑے ہو کر خون کی بو محسوس کر رہا تھا اور اداس ہو رہا تھا جب کہ میرا بھانجا مجھے خوش کرنے اس پہاڑی پارک میں لے آیا تھا، اصفہان شہر میں شام اتر چکی تھی، مشہور و معروف پل سی و سہ کی رونقیں عروج پہ تھی، رنگ و نور کا سیلاب سا دکھائی دیتا تھا، کتنی زلفیں اور کتنے آنچل لہرائے زائندہ رود نامی دریا کی لہروں کو خبر۔۔ میں ماضی میں تھا جہاں چھ سو اکتالیس سال پہلے انہی پھولوں سے رنگین گلیوں کو تیمور لنگ اصفہانیوں کے خون سے رنگین کر رہا تھا۔۔
(ممتاز ناروی کا سفر نامہ "کوہ الوند سے پرے" سے اقتباس)

