Pur Asrar Muahida
پراسرار معاہدہ
پاکستانی حکومتیں انتہائی لاجواب ہیں چاہے وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ہوں۔ میرا تعلق چونکہ سندھ کے شہر سکھر سے ہے۔ اس لیے کئی بحرانوں کا مشاہدہ کر چکا ہوں، کرونا کے وقت پاکستان کا جو شہر سب سے پہلے متاثر ہوا وہ سکھر تھا۔ اس کے بعد گزشہ بارشوں کے باعث سیلاب سے متاثر ہوا۔ مذکورہ بالا دونوں آفات میں سندھ اور وفاقی حکومتوں نے خبروں کی حد تک اربوں روپیہ عوام کو دیئے مگر عوام کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید ابتر ہو چکی ہے۔
جماعت اسلامی کا دھرنا بخیر و عافیت ختم ہوگیا۔ جب حافظ نعیم الرحمان نے دعوی کیا کہ میں کاغذ کا ٹکڑا لے کر واپس جانے والا نہیں ہوں تو ہم کم عقلوں کو بھی لگا کہ اب کی بار ایک مختلف امیر جماعت اسلامی ہے اور اب کی بار حکومت کو ایک مختلف تجربے کا سامنا ہوگا مگر جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مبارکباد تو عوام کو دی جارہی ہے مگر معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی جارہی ہیں جس روز معاہدہ ہوا اسی روز حکومت نے بجلی ڈھائی روپیہ مہنگی کر دی جس سے عوامی ردعمل ظاہر ہونا فطری عمل تھا۔ جماعت کے قائدین نے بھی صورتحال واضع کرنے کے بجائے اسے حاسدین کا بغض قرار دے دیا۔
جماعت اسلامی کے کارکنان بد ترین قسم کے رد عمل کا شکار ہیں اور تنقید کرنے والوں کو ناشکری قوم کا خطاب دیا جا رہا ہے سیاسی میدان میں نا قدری نے ان کے اندر عجیب سی تلخی بھر دی ہے۔ دھرنے کے اس طرح خاتمے پر سوالات کا اٹھنا فطری امر ہے۔ ان سوالات کے جواب میں تلخ لہجوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تلخ لہجے آپ کو بتاتے ہیں کہ جب ہم آئے اور دھوپ میں بیٹھے رہے اور آپ نہیں نکلے تو اب تنقید کس منہ سے کر رہے ہیں، یہ آپ کو بتائیں گے کہ اچھا ہم تو چلے گئے اب آپ آ کر بیٹھ جائیے۔ یہ رویے نفسیاتی عدم توازن کا اعلان عام ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ایک سیاسی جماعت ہیں اور آپ خالصتا عوامی مسئلے پر نکلے ہیں اور عوام کو بھی اپنا مخاطب بنا رہے ہیں تو اس طرح واپسی پر ایک باقاعدہ موقف تو عوام کے سامنے رکھیے۔ ہر وقت گلوگیر لہجوں میں حافظ نعیم الرحمن کے فضائل بیان کرنے سے گروہی سیاست کے تقاضے تو پورے ہو سکتے ہیں اس سے عوامی سیاست نہیں ہو سکتی۔ عوامی سیاست کے لیے اپنے خول سے نکلنا ہوگا۔ یہ خول جماعت اسلامی سے نہیں ٹوٹ رہا۔ آپ نے عوام کا ایک ایشو اٹھایا تو اب عوام کو اعتماد میں تو لیجیے۔ لیکن قیادت جب پر اسرار فیصلے کرے گی تو کارکنان کا اپناغصہ ناقدین پر نکالتے ہیں۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں جب سوال ہوا تو حافظ صحاب نے کہا کہ یہ ٹیسٹ میچ ہے ذرا میری بیٹنگ تو دیکھنا۔ اب لوگ پوچھ رہے ہیں بیٹنگ کا کیا ہوا۔ تو ناشکری قوم کہا جا رہا ہے۔ جماعت کے پاس شاید ایسا کچھ نہیں جس سے عوام کی تسلی کرائی جاسکے۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ حکومت ڈھائی روپیہ بجلی سستی کرتی تاکہ جماعت عوام کو کارنامہ بتا سکتی اور وعدوں کے لولی پاپ کی بجائے حکومت سے کوئی بات منوا کر جاتے۔ یہاں بے قدری کا عالم یہ تھا کہ صبح حکومت نے بجلی مہنگی کر دی شام کو یہ دھرنا ختم کر گئے کہ، ہماری بات ہوگئی ہے۔ الٹا عوام کو مبارک باد دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے۔