Nakam Riyasaten Aur Mehkoom Qaum
ناکام ریاستیں اور محکوم قوم
پاکستان بظاہر 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا تھا۔ تاہم یہ آزادی پاکستانی عوام کو نصیب نہ ہو سکی۔ بلکہ آزادی صرف طاقتور حلقوں کے حصہ میں آئی ان کو ہر قسم کی مدر پدر آذادی حاصل رہی جو آج تک تسلسل سے جاری و ساری ہے۔ طاقتوروں کو اس ملک کے بھوکے ننگے عوام کو نوچنے اور لوٹنے کی مکمل آزادی ہے یہ وہ واحد کام ہے جس پر تمام اشرافیہ ایک دوسرے کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں۔
اب تو کرپشن ہمارہ قومی کھیل بن چکا ہے چند سال سرکاری نوکری کرنے والے ریٹائیرڈ ہونے کے بعد اندرون ملک اور بیرون ملک اربوں کی جائیدایں بنا لیتے ہیں کوئی ان کو پوچھ نہیں سکتا، کیونکہ پوچھنے والے خود بھی مصوم نہیں۔ قانون ادھر کی جانب سے اندھا ہے غریب اور بے بس کےلیے انتہائی سخت ہے۔
شاید اسی لیے محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔ شاید کچھ ایسا ہی میرے پیارے وطن پاکستان کا اور ہم سب پاکستانیوں کا حال ہو چکا ہے۔ کسی دانا نے کہا تھا کہ جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، چند پیسوں کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی یا صحافی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار نما قاری، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔۔
کمزور اعتقاد کے باعث ہمارا ملک ہر برکت سے دور ہوچکا ہے۔۔ ہمارے کمزور عقائد ہی کے باعث ہمارے ملک میں اس طرح کے چالاک و ٹھگ قسم کے پیروں و فقیروں پر عوام نے اپنا یقین پختہ کرلیا ہے۔۔ پیر و فقیروں نے بھی ہمارے عوام کی نفسیات کو جانچنے کا کورس کر رکھا ہے ایسے فراڈیئے اور ٹھگ افراد کو معلوم ہے کہ عوام کس حال میں ہیں انہیں کیسے لوٹنا ہے۔۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہو جاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔ کاش کہ ہم سمجھ سکیں کہ محنت میں عظمت صرف پڑھنے لکھنے میں نہیں ہے نا ہی تعویز کھنڈوں میں ہے بلکہ علم کی آگاہی اور الله تعالیٰ پر توکل میں ہے۔