Meri Aap Beeti
میری آپبیتی
میری پچپن سے یہ خواہش تھی کہ میرا ایک گھر ہو جسے میں اپنی محنت کی کمائی سے تعمیر کروں میری بیوی اسے اپنے طریقے اور خوشی سے سجائے اور سنوارے۔ یہ بات میں اپنے والدین کو کئی بار بتا چکا تھا اور وہ راضی تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میری شادی ہمارے محلے میں ہی رشتےدار خاندان میں ہوگئی۔ لڑکی کا بھائی میرا جگری دوست تھا ہم اکثر فارغ وقت ساتھ گزارتے تھے لیکن باوجود دوست اور رشتےدار ہونے کے ہم ایک دوسرے کے گھر نہیں جاتے تھے اور نہ ہی کبھی میں نے اپنی بیوی کو شادی سے پہلے دیکھا تھا۔
میری بیوی قد میں چھوٹی اور جسمانی طور پر کمزور تھی، جبکہ خود طاقتور اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک صحت مند جسمانی ڈھانچہ عطا کیا تھا۔ قد کی بلندی اور مضبوطی کے سامنے بیوی بہت چھوٹی لگتی تھی۔ ہم دونوں خوش تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد میں نے اپنی بیوی کو اپنے الگ گھر کی خواہش کے بارے میں بتایا۔ میں سمجھا کہ وہ یہ بات سن کر خوش ہوگی مگر اس نے میری بات کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ میں ایک بڑی جوانئٹ فیملی سے آئی ہوں اکیلی نہیں رہ سکتی میں اسی گھر میں رہوں گی میری بیوی شرارتی بھی بہت تھی اپنی چھوٹی جسامت کے باعث وہ ایسی چھوٹی جگہ بھی چھپ جاتی تھی کہ سوچنا بھی محال ہو۔
ایک بار وہ کپڑوں کی الماری میں چھپ کر بیٹھ گئی اور ہم سب گھر والے پورے گھر میں تلاش کرکے تھک گئے مگر وہ نہ ملی۔ کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹا عطا فرمایا۔ اگلے سال ہی بیٹی سے بھی نواز دیا چونکہ میری بیوی جسمانی اعتبار سے کمزور تھی اور بچے بھی آپریشن سے ہوئے تھے۔ اس لیے ماں اور بچوں کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی حالات انتہائی خراب تھے اگر کھانا کھاتے تو دوا کے پیسے نہ ہوتے اور دوا خریدتے تو کھانے کے پیسے نہ ہوتے تھے۔
ایک بار میری بیٹی بہت بیمار ہوگئی ہم اسے شہر کے پرائیویٹ اسپتال میں لے گئے جہاں ڈاکٹر نے بچی کو داخل کرنے کا کہا مالی تنگدستی کی وجہ سے یہ ہمارے لیے بہت پریشان کن صورتحال تھی ڈاکٹر کے اصرار پر ہم نے بچی کو ہسپتال میں داخل کرا دیا اور میں جہاں مزدوری کرتا تھا کام پر چلا گیا تاکہ دوا اور ہسپتال کے لیے کچھ پیسے لا سکوں۔ رات کو ایک لیڈی ڈاکٹر نے بچی کو ایک انجیکشن لگایا۔
کچھ دیر بعد ہی جس ڈاکٹر نے ایڈمٹ کیا تھا وہ آ گیا اور بچی کا معائنہ کیا تو وہ پریشان ہوگیا ہم سے دریافت کیا کہ اس کو کیا دیا ہے ہم نے کہا کہ لیڈی ڈاکٹر ابھی انجیکشن لگا کر گئی ہے ڈاکٹر نے غصے میں لیڈی ڈاکٹر کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور بتایا کہ بچی کی انکھیں پلٹی ہو رہی ہیں اور جسم نیلا پڑ رہا ہے۔ کافی دیر تک ٹریٹمنٹ کے بعد ڈاکٹر نے ہم سے کہا کہ دعا کریں صبح تک بچی ہوش میں آجائے۔
وہ رات ہم میاں بیوی کے لیے انتہائی طویل اور تکلیف دہ ثابت ہوئی اس رات میں زندگی میں پہلی بار رویا۔ اپنی بے بسی اور تنگدستی پر اس رات میں نے خود کو بے یار و مددگار محسوس کیا آج اس رات کو بیتے ہوئے اٹھارہ سال ہو چکے ہیں میری بیٹی اللہ تعالیٰ کے کرم سے ڈاکٹر اور بیٹا انجینئیر بن رہیں ہیں لیکن میں آج بھی اس رات کا کرب ایسے ہی محسوس کر رہا ہو جیسے وہ رات ابھی جاری ہو۔