Liaquat Ali Khan Ki Shahadat Ke Naye Haqaiq
لیاقت علی خان کی شہادت کے نئے حقائق

لیاقت علی خان کے پنڈی میں قتل پر ایک نئی کتاب منظرعام پر آئی ہے جو قاتل سید اکبر کے بیٹے فاروق ببرک زئی نے تحریر کی ہے جس میں لیاقت علی کے قتل اور سید اکبر بارے نئے زاوئیے سے روشنی ڈالی گئی ہے جو سنسنی خیز ہونے کے ساتھ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔
فاروق ببرک زئی اب کافی عمر رسیدہ ہوچکے ہیں۔ امریکا میں مقیم ہیں اور ایک امریکن یونیورسٹی میں انگلش لٹریچرکے استاد کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ بلاشبہ سید اکبر کے حوالے سے انھوں نے جو انکشافات کئے اس پر انھوں نے کافی محنت کی ہے کیونکہ یہ ان کی فیملی کا معاملہ تھا لیکن ہمارے مطالعے کیلئے بھی دلچسپی کے کئی پہلو لئے ہوئے ہے۔
فاروق ببرک زئی کا یہ انکشاف حیران کن تھا کہ سید اکبر علامہ اقبال کی شاعری پڑھتا تھا اور اس سے متاثر ہوکر اسے کشمیر میں جہاد کا خیال آیا۔ اسی کے زیر اثر اس نے اسلامی کتابوں خصوصاََ جہادی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ اس زمانے میں جہاد کشمیر شروع ہوچکا تھا لیکن بعدازاں لیاقت علی خان نے سیزفائر کردیا۔
میجر خورشید انور ہی دراصل جہاد کشمیر کا آرگنائزر تھا، اس نے قبائلی علاقوں سے 4000 قبائلی پٹھانوں کو جہاد کشمیر کے لئے تیار کیا اور اکتوبر 1947 میں موجودہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کو مہاراجہ کشمیر سے آزاد کروا لیا اور اس کے بعد قبائلی لشکر دیگر علاقوں کو آزاد کرواتے ہوئے بارہ مولا تک پہنچ گیا، مہاراجہ کشمیر نے گھبرا کر نہرو سے مداخلت کی اپیل کی جس پر انھیں انڈیا سے کشمیر کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنا پڑے اور انڈین آرمی سری نگر میں اتر گئی۔
یو این او کی مداخلت پر سیزفائر ہوا اور کشمیر تقسیم ہوگیا۔ سیز فائر پر جنرل اکبر خاں سخت سیخ پا تھے اور جہاد کشمیر کے کمانڈر میجر خورشید بھی آؤٹ آف کنٹرول تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ لیاقت علی ملک کی باگ ڈور چلانے میں ناکام ہوچکے ہیں اور انھوں نے تھالی میں رکھ کر کشمیر بھارت کو دے دیا ہے۔ انھوں نے لیاقت علی خان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو پنڈی سازش کیس شروع ہوا۔ لیاقت علی نے فوجی افسروں کی ترقی بھی روک دی اور نرم سزاؤں پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں تو پھانسی کی سزا ہونی چاہئیے تھی۔ چنانچہ میجر خورشید انور کا خیال تھا کہ اس سے پہلےکہ لیاقت علی کشمیر بیچ دے اور جنرل اکبر علی خاں کو پھانسی دے دے اسے راستے سے ہٹادینا چاہئیے۔
میجر خورشید انور کے سید اکبر سے قریبی روابط تھے، دوسری طرف سید اکبر خود بھی جہاد کشمیر پر جانا چاہتا تھا کہ سیزفائر ہوگیا اور وہ بھی لیاقت علی خان کے خلاف ہوچکا تھا۔ سید اکبر کو سی آئی ڈی نے ماہانہ وظیفے پر رکھا ہوا تھا۔ اسی زمانے میں غلام محمد (جو بعد میں گورنر جنرل بنے) لیاقت علی کے سخت خلاف ہوچکے تھے اور ان کی پالیسیز پر تنقید کرتے تھے۔ پنجاب میں ممدوٹ اور دولتانہ بھی لیاقت علی خان کو پسند نہیں کرتے تھے۔
غلام محمد کے میجر خورشید انور سے قریبی تعلقات تھے۔ لاہور میں ایک ملاقات میں غلام محمد نے میجر خورشید سے کہا اس شخص (لیاقت علی) کو راستے سے ہٹا دو ورنہ میں اس ملک میں نہیں رہوں گا۔
میجر خورشید انور نے سید اکبر کوتیار کیا اور کہا کہ لیاقت علی کے قتل کے بعد تمھیں بچا لیا جائیگا، لیاقت علی نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا ہے لہذا اسے ہٹانا ضروری ہے۔
لیاقت علی کا جلسہ وکٹوریہ گراؤنڈ میں منعقد ہونا تھا لیکن جگہ تبدیل کرکے کمپنی باغ کر دیا گیا جو غیرمحفوظ کھلی جگہ تھی۔ سٹیج پر صرف ایک میز کرسی تھی جس کے پیچھے لیاقت علی تھے۔ جبکہ سٹیج کے عین سامنے 18 فٹ کے فاصلے پر سید اکبر کو بٹھا دیا گیا جو جلسہ سے دو گھنٹے پہلے وہاں پہنچ گیا۔ اس کے پاس اپنا مہلک جرمن لیوجر پسٹل تھا۔
جب لیاقت علی نے تقریر شروع کی تو پہلے دو الفاظ ادا ہوتے ہی سید اکبر نے فائر کئے، گولی سینے پر لگی اور وہ گرگئے، عجیب بات یہ کہ سٹیج پر بیٹھی ہوئی شخصیات میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا۔ ڈی ایس پی نجف خان جو سید اکبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے پشتو میں چیخ کر کہا جس نے گولی چلائی ہے اسے مار دو۔ انسپکٹر محمد شاہ سٹیج کے پیچھے سے گن لیکر سامنے آیا اور سید اکبر کو گولی مار دی جبکہ اس نے گولی چلاتے کسی کو نہ دیکھا تھا۔ بعد ازاں انسپکٹر محمد شاہ کو بہت مال ملا اور اس نے گجرات میں ٹیکسٹائل مل لگالی لیکن اسے اس مل میں ہی قتل کردیا گیا۔
لیاقت علی قتل کیس پر جو رپورٹ تیار کی گئی وہ جج جس جہاز پر سفر کر رہے تھے وہ جہاز بھی کریش ہوگیا۔

