Kachay Ka Ilaqa
کچے کا علاقے
کچے کے علاقوں اور ڈاکووں کے بارے میں ہم سب کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں، اور میں بھی کئی بار لکھ چکا ہوں۔ انگریز دور میں دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف بند، بیراج وغیرہ بنائے گئے جن کے باعث سکھر بیراج سمیت پاکستان کا بہترین نہری نظام وجود میں آیا، ان دریائی حفاظتی بندوں کے اندر کافی بڑا علاقہ خالی چھوڑا گیا جو کہ بارشوں یا کسی بھی وجہ سے دریاؤں میں سیلابی صورتحال کے باعث، دریائی پانی کے آزادانہ بہاؤ اور اردگرد کے شہروں اور آبادیوں کو بچانے کے لیے تھا۔
حفاظتی بند کے اندر جو رقبہ آتا ہے اسے "کچے کا علاقے" کہتے ہیں، اور بند سے باہر علاقے کو پکے کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال مون سون میں بارشیں ہوتی ہیں جس کے باعث جب بھی دریاؤں میں یا کسی بھی وجہ سے سطح آب بلند ہوتی ہے تو یہ علاقے آہستہ آہستہ پانی سے بھرنا شروع ہو جاتے ہیں، اور کبھی کبھی کسی سال بہت زیادہ پانی آنے اور سیلابی صورتحال ہونے پہ تقریباً سارا ہی علاقہ جو بند کے اندر ہوتا ہے زیر آب آ جاتا ہے، یہ کچے کا علاقہ ویسے تو پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں میں ہے۔ لیکن ان میں جو کچے کا علاقہ سب سے بڑا اور مشہور ہے اور طرح طرح واقعات اس سے منصوب ہیں وہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کا کچے کا علاقہ ہے۔
اس سارا رقبہ کی ملکیت محکمہ جنگلات اور ریونیو کے پاس ہے، پنچاب کے جنوبی حصے رحیم یارخان، صادق آباد، راجن پور جب کہ سندھ کہ شمالی علاقوں شکار پور، گھوٹکی، سکھر اور کشمور وغیرہ کی زمینیں اس کچے کے علاقے میں شامل ہیں۔ کچے کے اس علاقے میں مغیری، شر، جاگیرانی، جتوئی، بھیو، تیغانی، بلوچ، چاچڑ، میرانی، سندرانی، کھڑوس سمیت کئی قبائل آباد ہیں، جن دنوں کچے کے علاقے میں پانی نہیں ہوتا یہ لوگ وہاں کھیتی باڑی، گلہ بانی وغیرہ جسے پیشے اپناتے ہیں، کچے کی زمینیں پاکستان کی سب سے زرخیز زمینوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ان علاقوں میں اکثر زمینیں سیاستدانوں، ریٹائرڈ افسران، وڈیروں کے غیر قانونی قبضے یا عملداری میں ہیں اور ڈاکوں کی تمام پناہ گاہیں بھی یہیں موجود ہیں۔