Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Wasif Akram
  4. Gorakh Hill Station Dadu

Gorakh Hill Station Dadu

گورکھ ہل سٹیشن

صوبہ سندھ جہاں مزاروں، جھیلوں، مقبروں، قلعوں اور محلوں کی وجہ سے مشہور ہے وہیں اس کے سیاحتی مقامات میں ایک ایسی جگہ بھی شامل ہے جو کیرتھر کے پُر اسرار پہاڑوں کی چوٹی پر واقع ہے اور جہاں کا موسم اکثر ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے، یہ گورکھ ہل ہے، جسے عرف عام میں گورکھ ہل اسٹیشن کہا جاتا ہے۔

صوبہ سندھ کے مغرب میں بلوچستان کی سرحد کے قریب کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ اس پہاڑی سلسے میں بہت سے چھوٹے بڑے پہاڑ ہیں جن میں مری، مونگ تھل، کامبو، گمبر، ماہیر اور دیگر شامل ہیں۔ لیکن کیرتھر پہاڑ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جس کی بلندی ان میں سب سے زیادہ ہے اور اسی پہاڑی سلسے میں ضلع دادو کی حدود میں واقع ہے سندھ کی جنت یعنی گورکھ ہل اسٹیشن۔

5689 فٹ (1734 میٹر) کی بلندی پر واقع یہ خوبصورت جگہ، دادو شہر سے 94 کلومیٹر شمال مغرب میں تحصیل جوہی کا حصہ ہے۔ کراچی شہر سے اسکا فاصلہ 423 کلومیٹر بنتا ہے جو تقریباً آٹھ گھنٹوں میں باآسانی طے کیا جا سکتا ہے۔

گورکھ نام کے حوالے سے دو واقعات مشہور ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ نام اس علاقے میں جگہ جگہ گھومنے والے ایک سندھی ہندو مبلغ "گورکھ ناتھ" کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ ایک اور روایت کے مطابق لفظ گورکھ بلوچی زبان میں"بھیڑیئے" کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ اس جگہ بھیڑیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، تو مقامیوں نے اسے یہ نام دے دیا۔ آبادی بڑھنے کے بعد اب یہ بھیڑیئے یہاں نظر نہیں آتے۔

سنسکرت زبان کے نندو کے مطابق یہ ایک سنسکرت لفظ ہے جو "بھیڑ بکریاں چرانے" کے لیئے بولا جاتا ہے۔

یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ جامع سندھی لغات (جلد 5 از پبلشر سندھی ادبی بورڈ جامشورو) کے مطابق گورکھ کے معنی مشکل اور نہ حل ہونے والا مسئلہ ہے۔

سندھ و بلوچستان کی سرحد پر واقع کوہ کیرتھر کے دل میں بسا گورکھ ہل اسٹیشن، 2500 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہے جس کے دوسری جانب بلوچستان کا شہر خضدار واقع ہے جہاں کے چرواہے روزانہ اپنے مویشیوں سمیت یہاں کا چکر لگاتے ہیں۔

اس جگہ کی بنیادی خاصیت اسکی اونچائی اور ٹھنڈا موسم ہے جس کی بدولت ہر ہفتے یہاں پر سیاحوں کا جھمگٹا لگتا ہے اور آگ کے الاؤ کے گرد ڈرم بیٹرز، بانسری نواز اور گٹارسٹ اپنے اپنے فم کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کراچی اور دادو سے آنے والے واہی پاندھی میں رک کر ایک پٹرول پمپ پر اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں اور یہاں سے جیپ پر گورکھ ہل تک جاتے ہیں۔ واہی پاندھی، گورکھ سے پہلے تک آخری بڑا قصبہ ہے جہاں سے آپ پانی اور ریفریشمنٹ کا سامان خرید سکتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کا اصل سفر شروع ہوتا ہے۔ ایک تنگ سی کچی پکی سڑک آپ کو سنسان و بیابان علاقے سے لے کر کیرتھر کے پُراسرار پہاڑوں تک لے آتی ہے۔

ان پہاڑوں میں آپ کو کئی شکلیں بنی نظر آئیں گی۔ یوں لگتا ہے جیسے یہاں پہلے کوئی شہر آباد تھا جو کسی عذاب کا شکار ہوگیا ہو اور اب اس کے آثار باقی ہوں۔ کئی پہاڑوں میں اتنی بڑی بڑی دراڑیں اور لکیریں ہیں جنہیں دیکھ کہ یوں لگتا ہے جیسے کرناٹک کے کسی قدیم مندر کی وشال مورتی پر دودھ کی لکیریں ہوں جو بالکل ایک دھار کی صورت بہہ رہی ہوتی ہیں۔

یہاں شام کو ڈر سا لگنے لگ جاتا ہے۔ یہاں راستے میں کئی جگہوں پر آپ کا سامنا خطرناک موڑوں سے ہوگا جو ہر لمحے بعد مقامی جیپ والوں کی مہارت کا امتحان ثابت ہوتا ہے اس لیئے ان راستوں پر کبھی بھی اپنی گاڑی لے کر خود ڈرائیو کرنے کی غلطی مت کیجیئے گا۔

واہی پاندھی سے 76 کلومیٹر کے بعد آپ کا گزر "یارو پاس" سے ہوگا جسے سندھی میں"یارو سائیں جو لک" کہا جاتا ہے۔ 2500 فیٹ کی بلندی پر واقع اس پاس کے بعد آپ ایک اور درے "خان وال پاس" سے زیگ زیگ مختلف تنگ اور خطرناک موڑوں سے گزر کر آپ سندھ کی جنت گورکھ تک جا پہنچیں گے۔ جہاں آپ کو چھونے والی سرد ہوا کے ٹھنڈے جھونکے، سفر کی تھکاوٹ اور اس کا اثر ذائل کرنے کو کافی ہیں۔

گورکھ ہل کو سب سے پہلے کس نے دریافت کیا؟

یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا لیکن مقامی سطح پر اس کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس جگہ کا دورہ کیا اور اس کو ڈیویلپ کرنے کا پلان شروع کروایا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں یہاں تعمیرات ہوتی رہیں اور اب یہاں تین خوبصورت کاٹیجز کے ساتھ ساتھ ایک ہوٹل بھی موجود ہے جہاں سیاحوں کے لیئے کمبل اور خیموں کا بھی انتظام ہے۔

گورکھ ہل اسٹیشن سندھ کا وہ واحد مقام ہے جہاں سردیوں میں برف اور خون جما دینے والی سردی پڑتی ہے۔ 2008 کی سردیوں میں گورکھ نے ایک سحر انگیز منظر دیکھا جب آس پاس کیرتھر کے تمام پہاڑوں نے برف کی چادر اوڑھ لی تھی اور دادو کے پہلو میں واقع یہ جگہ کشمیر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اسی کے بعد حکومتِ سندھ نے اس جگہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی تاکہ کراچی و حیدرآباد کے لوگ شمالی علاقوں میں جائے بغیر برف باری کا نظارہ کر سکیں۔

دوسری جگہ کچھ لوگوں نے اس کے متعلق پراسرار واقعات بھی مشہور کر رکھے ہیں۔ جیسے کے یہاں مم کو دیکھا گیا ہے۔ مم (Mum) وہ مخلوق ہے جو سنسان پہاڑوں میں پائی جاتی ہے اور انسانوں کو کھینچ کہ ویرانوں میں لے جاتی ہے اور انکے پاؤں چاٹ چاٹ کر انہیں مار دیتی ہے۔ دوسری طرف اکثر لوگ اسے صرف قیاس آرائی ہی کہتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر یہ مخلوق کبھی یہاں تھی بھی تو اب اسکا وجود باقی نہیں ہے۔

یہاں بہت سے نایاب جانور اور پرندے بھی پائے جاتے ہیں جن میں سندھ آئیبکس سر فہرست ہے۔ کیرتھر نیشنل پارک سے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں اڑٰیال اور کالے ہرن بھی نظر آتے ہیں۔

Check Also

Insaniyat Ki Rehnumai Ka Sarchashma

By Adeel Ilyas