Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waris Dinari
  4. Hasb e Haal

Hasb e Haal

حسب حال

پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ سوشل میڈیا سے دور رہا سوشل سرگرمیوں سے تو ایک طویل عرصے سے دور ہوں سوشل میڈیا سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن گزشتہ ہفتے میں ایک دو واقعات نے نہ صرف سوشل میڈیا پر آنے بلکہ لکھنے پر بھی مجبور کیا ہے۔ آپ ہم اکثر سنتے ہیں غریب تو اپنے شہر میں اجنبی ہوتا ہے جس پر میں اکثر اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ اپنا شہر تو دور کی بات ہے غریب تو اپنی برادری میں بھی بیگانہ ہوتا ہے۔ چند روز قبل اپنے ہی برادری کی فوتگی پر مجھے میرا ایک پرانا دوست ملا ایک چھوٹے ہی شہر میں رہتے ہوئے کئی سالوں کے بعد سامنا ہوا تو دیکھتے ہی ایک دوسرے سے پوچھ بیٹھے بھائی کہاں غائب ہو گئے ہو تو موصوف جو کہ شہر کی معروف کاروباری شخصیت رہے ہیں کہنے لگے کہ بس بھائی میں نے گوشہ نشینی اختیار کرکے ہر قسم کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ یار دوستوں پر بہت پیسہ خرچ کیا لیکن اب سمجھ آیا کہ جب تک پیسہ ہے اور آپ دوستوں پر بےدریغ خرچ کرتے رہو تب تک آپ محفلوں کی پہچان اور دوستوں کی جان بنے رہتے ہو، جونہی روپیہ پیسہ نے آپ سے منہ موڑ لیا تو 98% آپ کے یار دوستوں کی ترجیحات بھی بدل جاتی ہے۔ مجھ سے پوچھنے لگا آپ سنائیں تو میں نے جواباً کہا کہ آپ کی اور میری کہانی سیم ہی ہے بلکہ ہر تیسرے شخص کی کہانی اسی طرح کی ہے۔

اس لئے تو کہتے ہیں کہ پیسہ آنے اور جانے دونوں صورتوں میں لوگ تبدیل ہو جاتے ہیں کیونکہ پیسہ آنے کے ساتھ گاڑی اور گھر بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تنگ تاریک گلیوں سے نکل کر پوش علاقوں میں رہائش اختیار کی جاتی ہے پھر اسی علاقے کے باسیوں کے ساتھ روابط پیدا کئے جاتے ہیں شادی غمی میں ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہ جاتا ہے۔

پیسہ جانے کے بعد بھی ہم نے دیکھا کہ پوش علاقوں سے نکل کر لوگ کسی کچی بستی یا پسماندہ علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور ان ہی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ مل جول شروع کرتے ہیں اور پھر ان کا جینا مرنا ان لوگوں کے ساتھ ہو جاتا ہے پیسہ جانے کے بعد یار دوستوں کے ساتھ اکثر خونی رشتے بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔

ملک میں کسادبازاری معاشی بدحالی کی وجہ گراں فروشی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وطن عزیز میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا تصور ختم ہو رہا ہے اس کی جگہ غربت یا پھر ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگ راتوں رات امیر بننے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں اور پھر یہ نو دولتے آئے روز مختلف طریقوں سے اپنی دولت کی نمائش کرکے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف شادی غمی میں اپنی دولت کی نمائش کو جانے نہیں دیتے ہیں بلکہ مذہبی حوالے سے بھی جیسے کہ فریضہ حج کی ادائیگی یا عمرہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد مبارک باد دینے کے لئے آنے والے سینکڑوں افراد کرنسی نوٹوں کے بنے ہوئے ہار جو ہزار دو ہزار سے لے کر پانچ پانچ ہزار تک کے ہوتے ہیں ساتھ لاتے ہیں مبارک باد دیتے وقت حاجی صاحب کو ڈالتے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ عمرہ کرنے کے اخراجات مبارک باد دینے والوں کے کرنسی نوٹوں کے بنے ہاروں سے پورے ہو جاتے بلکہ منافع بھی اس طرح دولت کی نمائش کرنے والوں کے لئے ایک منافع بخش کاروبار بن گیا۔ بچے کا ختم قرآن ہو حفظ قرآن ہے کسی بھی شادی تقریب میں شرکت کریں وہاں پر عام آدمی کو بھی ایک ہزار سے پانچ ہزار تک دینا پڑتا ہے کسی کی فوتگی پر بھی تعزیت کیلئے جائیں تو بندے کو کم از کم پانچ سو روپے دینے پڑ جاتے ہیں۔ اب تو دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی بچے کی پیدائش، سالگرہ، یہاں تک گود بھرائی، منہ دیکھائی، بیمار کی مزاج پرسی ہو غرض کہ آج کل ہمارے یہاں ماں کی پیٹ سے لے کر زمین کی پیٹ تک پہنچنے میں دولت کی نمائش کی جاتی ہے۔

ان حالات میں ایک عام متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا کہاں جائے ان حالات میں یا تو وہ معاشرے سے ہماری طرح کٹ کر رہ جاتا ہے یا پھر آمدن بڑھانے کے لئے ناجائز ذرائع اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کے خرافات اسلام میں بلکل بھی نہیں ہیں اسلام میں تو دولت کی نمائش کو سختی سے منع فرمایا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری خوشی غمی دونوں صورتوں میں مسجد ہی ہمارا محور ومرکز ہے۔

اسلام نے ہمیں ہمیشہ سادگی اور میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے، سادگی ہی میں انسانیت کی فلاح ہے لہذا اس کے لئے سب سے پہلے سرمایہ دار ایلیٹ کلاس کو پہل کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو ہندوانہ رسم جس میں منگنی، منہ دیکھائی، گود بھرائی، سالگرہ وغیرہ جیسے رسموں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ حج عمرہ سے واپس آنے والوں کو مبارک باد ضرور دی جائے ان سے اپنے لئے دعا کرائی جائے لیکن یہ پیسوں کے ہار وغیرہ کی رسم کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ فوتگی پر پیسے لینے کا رواج ختم کیا جائے گو کہ بلوچستان اور کے پی میں بعض جگہوں پر نہیں ہے نیز شادی دعوت ولیمہ پر اسلامی اصولوں کو اپنایا جائے۔

میں نے اپنی پچاس سالہ زندگی میں سینکڑوں شادی پروگراموں میں شرکت کی جن میں امیر، غریب، مڈل کلاس ہر طرح کے پروگرام تھے یہاں تک وزیر اعلیٰ گورنر وزیراعظم تک کے پروگرام شامل رہے۔ کراچی میں ہوٹل آواری، ہالیڈے، پی سی ہوٹل سے لے کر ارمی کلب تک۔ اس طرح کوئٹہ میں مختلف شادی حالوں سے لے کوئٹہ کینٹ میں منعقد کئی شادی کے پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا ہے جہاں پر میں نے دیکھا ہر جگہ پر پیسہ اور عہدہ غالب رہا ہے۔ شادی کی ایک تقریب ایسی تھی جو کہ میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی اور نہ ہی سنی ہے لگتا ہے مستقبل میں بھی اسی طرح کی تقریب کا انعقاد اور شرکت بظاہر ناممکن لگتی ہے۔

آج سے بارہ سال قبل میں گرمیاں گزارنے کوئٹہ شفٹ ہوگیا تھا، پٹیل باغ میں رہائش اختیار کی میرے استاد اس وقت ڈگری کالج استا محمد کے پرنسپل پروفیسر قادر بخش سمیجو صاحب کواری روڈ پر رہتے تھے شام کو اکثر ہم موتی رام روڈ پر واقع انصاری بک اسٹور یا پھر سٹی تھانہ کے قریب واقع فاران ہوٹل جو کہ معروف شخصیت ایمل کانسی کے بھتیجے فرید خان کانسی کی ملکیت ہے، سے ان کے ہوٹل میں ان کے آفیس میں بیٹھتے تھے جہاں پر دیگر بڑے شخصیات کا بھی آنا ہوتا تھا۔

بس انہی دنوں میں ایک روز میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ چھوٹے بیٹے نے آکر ایک انتہائی قیمتی بہت ہی خوبصورت کارڈ دیا دیکھا تو فرید خان کانسی کی شادی کا دعوت ولیمہ کا کارڈ تھا تو دعوت ولیمہ میں شرکت کے لئے پروفیسر قادر بخش سمیجو صاحب سے رابطہ کیا کہ سائیں اتنے بڑے شخصیت کے دعوت پر مجھ جیسا ایک عام بندہ کس طرح شرکت کرسکتا ہے جبکہ وہاں پر کتنے پیسے یا کتنے ہزاروں کا گفٹ دینا پڑے گا جس پر پروفیسر صاحب نے مجھے سمجھایا کہ آپ سب باتیں مجھ پر چھوڑیں بس گاڑی میں بیٹھ جائیں۔

میں نے ایسا ہی کیا جب ہم کینٹ میں کوئٹہ کلب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کو کرسیوں پر بیٹھاتے رہے میں نے دیکھا کہ ہر ٹیبل کے ساتھ دس دس کرسیاں لگائی گئی تھیں لیکن تمام ٹیبلوں پر آٹھ آٹھ مہمان بیٹھاتے گئے میں پنڈال کا بغور جائزہ لیا تو دیکھا مہمانوں میں اس وقت کے گورنر بلوچستان اسپیکر بلوچستان اسمبلی سمیت کابینہ کے بیشتر ارکان بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین سمیت اعلیٰ سرکاری افسران سمیت قبائلی شخصیات کاروباری افراد شامل تھے۔

حیرانی اس وقت ہوئی جب دولہا فرید خان اپنے والد صاحب کے ہمراہ ہر ٹیبل پر جاکر آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ ملتے خیر خیریت معلوم کرتے سیکورٹی کی وجہ سے راستے میں کسی دشواری وغیرہ کا بھی پوچھتے اسی طرح فرداً فرداً ہر مہمان سے ملے ان سب سے مختصر حال احوال کیا کھانا کھاتے وقت کسی مہمان کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ملا، میں نے دیکھا کہ اس میں موقعے پر بعض مہمانوں نے نہایت ہی قیمتی تحائف دیئے جبکہ کئی ایک ہماری طرح صرف کھانا کھا کر میزبان سے اجازت طلب کرکے واپس ہوگئے۔

میزبان نے بھی نہایت ہی خندہ پیشانی سے سب کو رخصت کرتے رہے اس طرح میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا سب کو برابر کی رسپکیٹ دی گی ہمارے یہاں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شادیوں میں تین قسم کا کھانا تیار کیا جاتا ہے جس میں عام لوگوں کے عام کھانا ہوتا ہے وی آئی پیز اور وی وی آئی پیز کے لئے الگ الگ ڈشیز تیار کئے جاتے ہیں میزبان اور اس کے تمام کارندے صرف دو تین وی وی آئی پیز کے آ گے پیچھے رہتے ہیں حالانکہ دعوت ولیمہ میں شرکت کرنے والے تمام افراد کو دعوت نامہ دے کر بلایا گیا پھر اس طرح کی بے رخی صرف چند افراد کی اوبھگت میں لگے رہنا کیا معنی رکھتا ہے۔

Check Also

Pakistani Jahazon Ne Rafael Kaise Giraye

By Saqib Ali