Bas Karen Bahut Ho Gaya Hai
بس کریں بہت ہوگیا ہے
اسپورٹس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے، ایک عام پاکستانی کی طرح میرے جزبات وہی ہوتے ہیں جو پاکستان کی جیت پر بے حد خوشی اور ہار پر افسوس مایوسی کی حد تک۔ میں بچپن میں سکول سے واپس آ کر گھر کے کام کاج میں لگ جاتا تھا بہت ہی کم وقت کھیل کود کے لئے ملتا پھر جو بھی وقت ملتا تو دوستوں کے ساتھ فٹ بال کھیلتا کبھی کبھار اسکول میں دوستوں کے ساتھ ہاکی بھی کھیل لیتا تھا۔ میرے فٹ بال کھیلنے کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ جتنے بھی دوست اکٹھے ہوئے فوراََ ہی دو ٹیمیں بنا کر کھیلنا شروع کر دیتے تھے پلیئر کی کمی بیشی کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا تھا۔
دوسری وجہ اس دور میں ہمارے لئے سب سے سستی گیم فٹبال ہی تھی کیونکہ آپس میں چندہ جمع کرکے بال خریدتے پھر ایک عرصے تک ننگے پاؤں کھیلتے رہتے تھے یہاں تک کئی کئی پنکچر لگواتے تھے۔ جب تک ٹیوب پر پنکچر لگانے کی جگہ نہیں بچتی تب جاکر اس ٹیوب کی جان چھوڑتے۔ نادر نامی لڑکا کلاس فیلو تھا وہ سکول کے بعد اپنے والد صاحب کے ساتھ موچی کا کام کرتا تھا۔ ہم فٹبال کی مرمت کے لئے نادر ہی کے خدمات حاصل کرتے تھے۔ ہم جماعت ہونے کے ناطے وہ ہم سے مرمت کے پیسے نہیں لیتا تھا۔ 80 اسی کی دہائی تک ہمارے یہاں بلوچستان میں فٹبال کو لوگ جنون کی حد تک پسند کرتے تھے بلکہ بعض علاقوں میں آج بھی ایسا ہی ہے۔
ویسے دور دور کی بات ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب کلاس ٹیچر کے علاوہ کوئی استاد کلاس میں آ کر کسی بچے سے کوئی سوال پوچھتا تو درست جواب پر استاد پوچھتا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو تقریباً 80 فیصد بچوں کا جواب ہوتا تھا SDM بننا ہے، جبکہ بیس فیصد بچے ڈاکٹر انجینئر استاد وغیرہ بننے کی خواہش کرتے تھے۔ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر SDM سب ڈویژنل مجسٹریٹ ہوتا تھا اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کچھ اختیارات مجسٹریٹ کے بھی ہوتے تھے۔ پھر ایک دور آیا جب ایس ڈی ایم صرف اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر DCO ڈسٹرکٹ کوڈینشن آفیسر بن کر رہ گئے تو دور بدلہ ایک بار پھر بچوں کے ذہن تبدیل ہونے لگے۔
بچے سی ایس ایس اور پی سی ایس کے ساتھ وکالت ڈاکٹر کے پیشے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ آج ایک بار پھر ٹرینڈ بدلنے جیسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز دو بچوں نے مجھے حیران کردیا، سکول جانے والے دو کمسن بچے میرے دکان پر آئے کاپی پین خریدی میں نے ان بچوں سے پوچھا بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے تو چھ سات سال کی عمر کے ان بچوں نے میری توقعہ کے برعکس جواب دے کر حیران اور پریشان بھی کردیا۔ دونوں نے کہا کہ ہم تو ارشد ندیم بنیں گے ارشد ندیم کیوں وہ اس لئے کہ اس وقت پورے ملک میں ان کا چرچا ہے۔
عزت شہرت دولت ہر چیز اس نے حاصل کی ایک ہی جھٹکے میں ساٹھ، ستر کروڑ روپے کما لئے۔ ٹیلی ویژن اخبارات سوشل میڈیا ہو ہر طرف ارشد ندیم کے گن گانے لگے ہیں حالانکہ دیکھا جائے پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے کئی ممالک کے کھلاڑیوں نے اسپورٹس ہی میں بیشمار اولمپک اور ورلڈ لیول پر لاتعداد میڈل جیت کر اپنے اپنے ملک کے پرچم بلند کرتے آرہے۔ گوگل پر میں نے سرچ کیا تو بے شمار کھلاڑیوں کے نام آئے جنھوں نے لاتعداد میڈل حاصل کرکے ریکارڈ بنائے ہیں ایک امریکن کھلاڑی مائیکل فیلپس نے اولمپکس کی تاریخ میں 28 تمغے حاصل کئے ہیں جن میں 23 سونے کے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا ریکارڈ ہے۔
150 ممالک کے پاس اتنے میڈل نہیں ہیں جو اکیلے شخص کے پاس ہیں۔ اسی طرح امریکہ ہی کی خاتون کھلاڑی نے تیراکی میں روس کا پچاس سالا ریکارڈ توڑ کر 9 میڈل اپنے نام کر دیئے۔ دور کیوں جائیں اپنے ہی ہیروز کی بات کرتے ہیں۔ اسکواش میں جہانگیر خان یا پھر جان شیر خان جو کہ ایک طویل عرصے تک اسکواش کی دنیا پر حکمرانی کرتے رہے۔ پوری دنیا ان کی کارکردگی پر حیران ہے جنھوں نے کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اسپورٹس میں پاکستان کے کئی کھلاڑیوں نے عالمی شہرت حاصل کی اس طرح دیگر شعبوں طب، سائنس، کمپیوٹر میں بھی عالمی ریکارڈ بنا کر پاکستان کے لئے عزت و وقار شہرت کے باعث بنے، لیکن ان کو حکومت پاکستان اور نہ ہی میڈیا میں پذیرائی ملی ہے یہی وجہ آج کوئی بھی بچہ یہ نہیں کہتا کہ میں جہانگیر خان، جان شیر خان۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر ادیب رضوی، عبد الستار ایدھی بنوں گا۔
بچپن میں ہم سے کہا جاتا تھا کہ لکھو گے پڑھو گے تو بنو گے نواب کھیلو گے کودو گے بنو گے خراب، آج کل اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ لکھنے پڑھنے والوں کو کوئی پوچھتا ہی نہیں جبکہ ہر طرف کھلاڑیوں کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جسمانی سرگرمیاں ذہن کو صحت مند رکھنے کیلئے مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ صحت مند سرگرمیوں کے لیے اسپورٹس سے انکار ممکن نہیں، تاہم اس کی ایک لیمٹ ہونی چاہیے ہمارے اسکول کے زمانے میں جب یوم آزادی یوم دفاع اور اس کے دیگر تقریبات اسکولوں کالجز میں منعقد کئے جاتے تھے، ان پروگراموں میں مختلف کھیلوں سمیت جنرل نالج اور تقریری مقابلے ہوتے تھے اس طرح کے پروگرامرز کے انعقاد سے نہ صرف طلباء میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا بلکہ ان کی معلومات میں اضافہ بھی۔
مجھے یاد ہے سکول میں جب بھی کوئی پریڈ خالی ہوتا تو ایک استاد آ کر ہم پر اپنی معلومات کی دھاک بٹھانے کے لئے الٹے سیدھے سوالات کرکے پھر خود ان کے جواب بتایا کرتا تھا۔ مجھ سمیت چند کلاس فیلوز کو یہ بات بری لگتی کہ ایک تو اس کا ہماری کلاس میں کوئی پریڈ نہیں پھر آکر ہمارے ہی کلاس فیلوز کو شرمندہ کرتا ہے۔ ایک روز خالی پریڈ میں جیسے ہی موصوف بیٹھ گئے ان کے سوال پوچھنے سے پہلے ایک دوست نے پوچھا سر روس کے صدر کا کیا نام ہے تو موصوف نے فوراً کہا میخائل گورباچوف تو میں نے کہا کہ سر وہ تو کیمونسٹ پارٹی کا سیکرٹری جنرل ہے صدر تو آندرے گرمیکو ہیں پھر ہماری طرف سے ایک اور سوال آیا سر روس کے وزیر خارجہ کا کیا نام ہے۔
ادھر ادھر دیکھنے لگا دوست نے بتایا سر ایڈ ورڈ شیورورڈ ناڈوزے روس کے وزیر خارجہ ہیں۔ بس پھر اس دن کے بعد استاد محترم ہماری کلاس میں بھول کر بھی نہیں آئے۔ اس دور میں ہم ساتویں آٹھویں میں پڑھتے تھے ہم میں سے زیادہ تر طالب علموں کو تقریباً نصف دنیا کے ملکوں کے سربراہانِ مملکت پارٹی وابستگی وہاں کی طرز حکومت وغیرہ کے بارے میں مکمل جان کاری تھی اور آج اکیسویں صدی میں جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ہم اپنے ہی ملک کے بعض وزراء کے ناموں سے ناواقف ہیں وجہ وہی ہے کہ اس وقت لوگوں کی عام معلومات کی طرف سے توجہ ہٹ کر فضول چیزوں پر لگ گئی ہے جس کا نتیجہ ہمارے آپ کے سامنے ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ہو یا نجی ادارے، سیاسی سماجی حلقے بیشک اسپورٹس کی سرپرستی کریں تاہم جن سے پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے ان کو ترجیح دی جائے نئی نسل کو اسپورٹس کے ساتھ پڑھائی کی طرف راغب کرنے کے لئے ترغیب دی جائے ان میں مقابلے کا شوق پیدا کیا جائے اس کے لئے ہر شعبے میں ہر حال میں میرٹ پر عمل درآمد یقینی بنانے کی سخت ضرورت ہے۔
اگر اس طرح نہیں ہوا تو پاکستان کا ہر نوجوان نامور کھلاڑی بننے کی چکر میں اگر کھلاڑی نہیں سکا تو اناڑی بن کر اپنی زندگی برباد کرے گا یا پھر ٹک ٹاکر ضرور بن جائے گا۔