Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Usman/
  4. Iss Wadi Pur Khoon Se Dhuwa Uthay Ga Kab Tak

Iss Wadi Pur Khoon Se Dhuwa Uthay Ga Kab Tak

اس وادی پرخوں سے اٹھے گا دھواں کب تک

5 فروری جسے ہم کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ ہر سال ہم پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ کشمیر کا جھنڈا لگا کر یہ ثبوت دیتے ہیں کہ ہم ہر وقت کشمیر یوں کے ساتھ ہیں اور ان پر ہونے والے ظلم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ کشمیر میں اس وقت ایک کروڑ سے زائد لوگ ہیں جن میں 25 لاکھ کے قریب آزاد کشمیر میں رہتے ہیں جب کہ 80 لاکھ کے قریب کشمیری ہندو مظالم کا شکار ہیں۔

کشمیریوں پر مظالم کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب تقسیم کے بعد مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ اور ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان کے ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثیریت زیادہ تھی اس لیے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملایا جانا تھا لیکن کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے معائدہ تقسیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیریوں کی مرضی کے خلاف الحاق بھارت کا اعلان کر دیا جسے مسلمان کشمیریوں نے نہ منظور کیا اور ہری سنگھ کے فیصلے کے خلاف ہو گئے۔ وہ شروع سے ہی پاکستان کے ساتھ تھے اور پاکستان کے نعرے لگاتے تھے تقسیم پاکستان کے وقت انہوں نے پاکستان کے لیے بہت سی قربانیاں بھی دیں پھر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو ہندوؤں کی غلامی میں دے دیتے۔

کشمیریوں نے اپنی مدد کے لیے پاکستان کے مسلمانوں سے مدد مانگی اور اس وجہ سے قیام پاکستان کے تھوڑے ہی عرصے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین جنگ لڑی گئی۔ اکتوبر 1947 سے 1 جنوری 1949 تک کی اس جنگ میں بھارت کو پاکستانی قبائلیوں اور فوج کے علاوہ غیور کشمیریوں سے منہ کی کھانی پڑنی اور اس مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں ریاست آزاد جموں و کشمیر کا قیام عمل میں آیا آج جس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے جہاں اس کی اپنی آزاد سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہے ان کا اپنا علیحدہ صدر و وزیراعظم ہے۔

لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری موجودہ حکومتوں نے کشمیرکے مسلمانوں کےبارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروانے کے بعد ہم چپ کر کہ بیٹھ گئے لیکن ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ہندوستان سے سارے کا سارا کشمیر حاصل کرتے اور ان کو بتاتے کہ مسلمانوں کی طاقت کیا ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیر کی آزادی صرف تقریروں تک ہی محدود ہو گئی ہے۔ جو بھی سیاست دان آتا ہے وہ کشمیریوں کے حق میں بات کر کے سب کا دل جیت لیتا ہے لیکن جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو وہ چپ کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ یہی حال ہماری عوام کا ہے جو صرف کشمیر کے حق میں بات صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے تک ہی محدود ہے۔ فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ پرآپ کو ہزاروں لوگ مل جائیں گے جو کشمیر کے ساتھ ہمدردی کرتے دکھائی دیں گے ان کے جھنڈے کی تصویریں پوسٹ کریں گے، نغمے لگائیں گے، ریلی نکالیں گے۔

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے سے کشمیریوں کو آزادی مل جائے گی کیا صرف نغمے لکھنے سے کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ 5 فروری آتا ہے تو تمام پاکستانیوں کے دلوں میں کشمیر کے لیے پیار جاگ اٹھتا ہے۔ صبح سب اکٹھے ہوتے ہیں ایک گلی سے دوسری گلی تک یا ایک چوک سے دوسرے چوک تک ریلی نکالتے ہیں اور اپنی تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر لگا دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے کشمیریوں کو آزادی مل سکتی ہے اگر مل سکتی ہے تو پورے پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایک دن مل کر ریلی نکال لیں۔

عمل سے زندگی بنتی ہےلیکن ہم ایسے لوگ ہیں جو صرف باتوں سے جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو سکتا تو ہم بہت دیر پہلے ہی جنگ جیت چکے ہوتے اور کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے مظالم سے چھڑوا لیتے لیکن یہاں تو اس کا اُلٹ ہوتا جا رہا ہے ہندوؤں کے مظالم کشمیری مسلمانوں پر بڑھتے جا رہے ہیں۔ 6 ماہ سے ان پر کرفیو لگا ہوا ہے ان کا کھانا پینا پڑھنا سب بند ہیں اور کئی لوگ قتل کیے جا چکے ہیں لیکن ہمارا خون خشک ہو چکا ہے۔ ہم صرف ان کے مظالم کے خلاف صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ ہی کر سکتے ہیں ناکہ کشمیریوں کی مدد۔

Check Also

Modi Hai To Mumkin Hai

By Wusat Ullah Khan