Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Umair Haidry
  4. Pakistan India Jang

Pakistan India Jang

پاکستان انڈیا جنگ

دو رائے نہیں بلکہ اس بات پہ مکمل انسانیت کا اجماع ہے کہ جنگیں بربادی ہولناکی غربت افلاس اور بربادیاں لاتی ہیں۔ مگر جنگ کا شوق اور جنگ مسلط ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک قوم جسے سرداری کا صرف شوق ہو۔ طاقت کے نشے میں دھت اسے ہر قوم ہر ملک اور ہر مذہب چھوٹا اچھوت اور قابل فاتح محسوس ہوتا ہو۔

ظلم ناانصافی کے نظام میں ترتیب دیا گیا ایسا ہر نظام ہمیشہ خود برباد تو ضرور ہوتا ہے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کی عارضی بربادی کا پیش خیمہ بھی ضرور ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری قوم جن پر جنگ مسلط کردی گئی ہو اس کی غربت اور اس کے چند اندرونی بگڑے معاملات سے اندازہ زن سورما۔

اپنے آپ کو چوہدری بنانے لگ جائیں تو پھر دوسری طرف سے طبل جنگ نہیں بقائے حقوق۔ بقائے ریاست۔ بقائے مذہب اور بقائے نسل کی بنیاد پر دفاع کیا جاتا ہے۔ دنیا میں چھوٹی طاقت اور بڑی طاقت کا پیمانہ تو بظاہری حالات دیکھ کر ناپا تولا یا سوچا جاتا ہے، مگر غیرت اور بے غیرتی کا پیمانہ ہمیشہ بیس بیس سال کی لمبی لڑائیوں کے بعد رزلٹ نکالتا ہے۔

امریکہ اور افغانستان کی جنگ میں جب بظاہری شان و شوکت نے غربت افلاس کو روندنے کی کوشش کی تو غیرت نے بغیرتی کو مات دی اور ایک سپر پاور کہلوانے والی طاقت دم دبا کر بھاگتی نظر آئی۔

ریاست پاکستان شدت پسند ہندووں کو ہمیشہ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کھٹکتا آرہا ہے۔ ہندوستان نے اپنی مذہبی شدت پسندی کے عوض ہر الیکشن میں اپنے آپ کو سیاسی طور پر مضبوط صرف اس بنیاد پر کیا ہے کیوں کہ وہاں مذہب صرف اور صرف ہندو ہی سمجھا جاتا ہے۔

باقی کسی مذہب کو نہ تو مذہبی آزادی ہے اور نہ ہی سیاسی آزادی ہے۔ وہاں کا مسلمان اچھوت سمجھا جاتا ہے۔

ہندو مذہب نے اپنی نسل کے ذہنوں میں مسلمانوں سکھوں اور دیگر مذاہب کیلئے اتنا زہر بھردیا ہے کہ وہ اب خالص ہندو سیاسی رہنماوں کو ہی پسند کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں۔ ہندوستان میں ایک ہندو اگر مسلمانوں کیلئے ذہن میں شدت پسندی رکھتا ہو مسلمانوں کو قتل کرنا ثواب سمجھتا ہو اور ہر موقعے پر مسلم قوم کو حراساں کرنے کی ناپاک سوچ رکھتا ہے؟

تو پھر وہ ہندو قوم کا ہیرو بھی ہے اور پرائم منسٹر کی کرسی کا حقدار بھی ہے۔ پھر ہندو قوم یہ نہیں دیکھتی کہ یہ چائے فروش ہے۔ یا بالکل ان پڑھ، گدھ اور گوار ہے۔ ہندوستان میں انسانیت نام کا کوئی پیمانہ ہی نہیں وہاں صرف مذہب انتہاء پسندی اور من پسندی کا بول بالا ہے۔

وہاں پر سب سے بڑا بدمعاش قابل عزت و تکریم ہے۔ وہاں ریاست کے اصول بالکل خاموش ہیں ہر اس ہندو کیلئے جو باقی ماندہ مذاہب کے خلاف غلیظ اور گندے کردار کا مرتکب ہے۔

اس کے برعکس پاکستان میں ہر مذہب کو مذہبی آزادی ضرور ہے۔ آج بھی سکھ اپنی مذہبی گردواروں کی وجہ سے ریاست پاکستان کی نیشنیلٹی لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں بہت سے ہندو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا حصہ ہیں۔ ریاست پاکستان میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں آج بھی اقلیتی سیٹوں کا ایک مکمل کوٹہ موجود ہے۔ بلکہ بلدیات کی حد تک ہر یونین کونسل میں اقلیت کو کوٹہ اور سیٹ دی جاتی ہے۔ مسلمان قوم کے مذہب میں ظلم اور ناانصافی کو ہمیشہ ناپسند کیا جاتا ہے اور یہ عقیدہ ہے کہ ظالم چاہے مسلمان حکمران ہی کیوں نہ ہو مظلوم کافر کی آہ اسے خدا کی پکڑ میں لا کر چھوڑے گی۔

انڈیا کی طرف سے اگر یہ جنگ مسلط کی گئی تو پاکستانی قوم اپنی بقاء کیلئے ضرور لڑے گی۔ جب مرنا اور مارنا طے ہوجائے تو پھر مسلم قوم ایک جنگجو قوم سمجھی اور کہلائی جاتی ہے۔ پھر جان دینا اور جان لینا فرائض دین میں شامل ہے۔ جب عزت ریاست اور حقوق کی حفاظت کرنی ہو پھر یہ قوم ایوبی غزنوی جیسے کردار رکھتی ہے۔

انڈیا نے امیری کے نشے دھت یہ جنگ چھیڑی تو مرنا پہلے اور جینا بعد میں ذہن رکھنے والی قوم انشاءاللہ غالب ہوگی اور حقوق کی واپسی کی راہ یقینی بنائی گی۔

Check Also

Al Ayyala, Raqs e Fatah o Fakhar Aur Ghalat Fehmi Ka Shikar Saqafti Mazhar

By Toqeer Bhumla