Mian Muhammad Baksh (9)
میاں محمد بخش (9)

سُن مرلی دی لَگّر کولوں درد، وچھوڑا رکھ دا
سُبھناں دا ایہہ حال محمد، کہو کی حال انکھ دا
Listen from the wood of the flute the pain of separation from the tree.
All are in this same situation, Muhammad, what to say of the men
عبدالرحمان، آج آؤ ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو نہایت درد بھرے اور عارفانہ مصرعوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ الفاظ صوفیانہ ادب کے سب سے بڑے استعارے کو بیان کرتے ہیں۔
یہ اشعار ہمیں مولانا رومیؒ کی مثنوی کے ابتدائی نَے کے استعارے کی یاد دلاتے ہیں، جہاں بانسری اپنی جدائی کی کہانی سناتی ہے۔ میاں محمد بخشؒ بھی اسی علامت کو سامنے رکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہر انسان کی اصل حقیقت جدائی ہے، اپنے اصل سے جدائی، اپنے رب سے فاصلہ۔
جانتے ہو کہ "بانسری کا درخت سے جدا ہونا" کیا مطلب رکھتا ہے؟
عبدالرحمان، بانسری اصل میں درخت کا حصہ تھی۔ وہ شاخ کاٹی گئی، اس کا جسم خالی کرکے اسے بانسری بنایا گیا۔ اب وہ بانسری ہر وقت سُر بجاتی ہے، مگر اس کی ہر صدا دراصل جدائی کا ماتم ہے۔ وہ اپنے درخت کو یاد کرتی ہے، اپنے اصل کو ڈھونڈتی ہے۔
اسی طرح انسان بھی اپنی اصل سے جدا ہو کر دنیا میں آیا ہے۔ ہم سب مٹی سے بنے، مگر روح اللہ کی طرف سے آئی۔ وہ روح اب دنیا میں قید ہے اور ہر وقت اپنے اصل کی طرف لوٹنے کو تڑپتی ہے۔
قرآن میں ہے:
"ونفخت فيه من روحي" (الحجر: 29)
"اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی۔ "
یعنی انسان کی اصل اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا دل ہمیشہ اپنے اصل کی طرف کھنچتا رہتا ہے۔
جانتے ہو کہ "بانسری کا نغمہ" کس چیز کی علامت ہے؟
عبدالرحمان، بانسری کا نغمہ وہی ہے جو ہر انسان کے دل کی تڑپ ہے۔ کوئی اسے شاعری میں بیان کرتا ہے، کوئی موسیقی میں، کوئی عبادت میں، کوئی آنسوؤں میں۔ یہ سب اس روح کی آواز ہے جو اپنے رب کی تلاش میں ہے۔
بانسری کا نغمہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہر خوشی کے پیچھے ایک کمی ہے، ہر ہنسی کے پیچھے ایک آنسو ہے۔ کیونکہ اصل سکون اس وقت ملے گا جب روح اپنے رب کے ساتھ جڑ جائے گی۔
جانتے ہو کہ "یہ حال سب کا ہے"، اس سے کیا مراد ہے؟
عبدالرحمان، ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: یہ کیفیت صرف بانسری یا انسان کی نہیں بلکہ سب کی ہے۔ پرندے، درخت، پہاڑ، پانی، سب اپنے اصل کی طرف لوٹنے کو تڑپتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
"وإن من شيء إلا يسبح بحمده" (الإسراء: 44)
"اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو"۔
یعنی ہر شے اپنے اصل کو یاد کر رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انسان شعور کے ساتھ یاد کرتا ہے اور باقی مخلوق اپنی حالت کے ساتھ۔
اب بھلا جانتے ہو کہ "انسان کی جدائی" کس طرح ظاہر ہوتی ہے؟
عبدالرحمان، انسان کی جدائی کئی شکلوں میں نظر آتی ہے:
دل کا بے سکون ہونا، چاہے سب کچھ پاس ہو۔
بار بار گناہوں کے بعد بھی ایک پشیمانی رہنا۔
زندگی کی ہر کامیابی کے باوجود ایک خلا محسوس کرنا۔
موت کا خوف دل میں بسا رہنا۔
یہ سب اس جدائی کے آثار ہیں۔ انسان کی روح اپنے رب کی قربت چاہتی ہے اور جب تک وہ قربت نہیں ملتی دل کبھی مکمل سکون نہیں پاتا۔
عبدالرحمان، جانتے ہو کہ "پھر کیا علاج ہے؟"
علاج صرف ایک ہے، اپنے اصل کو پہچاننا اور اپنے رب سے جڑ جانا۔ یہ جڑاؤ عبادت، ذکر، قرآن، دعا اور نیکوں کی صحبت سے ملتا ہے۔ جیسے بانسری صرف اسی وقت خوشی کا نغمہ بجاتی ہے جب اس میں ہوا بھرتی ہے، ایسے ہی انسان صرف اسی وقت سکون پاتا ہے جب اس کے دل میں اللہ کی یاد کا نور بھرتا ہے۔
عبدالرحمان، مولانا رومیؒ نے کہا: "بشنو از نی چون حکایت میکند، از جداییها شکایت میکند"
یعنی "بانسری کی آواز سنو، وہ جدائی کی کہانی سناتی ہے"۔
رومیؒ کہتے ہیں کہ ہر انسان کی زندگی بھی ایک بانسری ہے۔ جو شخص اللہ کو یاد کرتا ہے، وہ اپنی جدائی کو پہچانتا ہے اور جو غافل ہے، وہ اپنی اصل کو بھول جاتا ہے اور صرف دنیا کی شور میں الجھا رہتا ہے۔
عبدالرحمان، کچھ جانتے ہو کہ آج کے انسان کے لیے اس شعر کا کیا پیغام ہے؟
آج کے انسان کے پاس سب کچھ ہے: ٹیکنالوجی، دولت، علم۔ لیکن پھر بھی دل خالی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی اصل کو بھول گیا ہے۔ اس شعر کا پیغام یہ ہے کہ دل کی اس تڑپ کو پہچانو۔ یہ تڑپ اللہ کی تلاش ہے۔ دنیا کی چیزیں یہ خلا نہیں بھر سکتیں، صرف اللہ کی قربت بھر سکتی ہے۔
جانتے ہو کہ "عملی زندگی میں اس نصیحت پر کیسے عمل کیا جائے؟"
عبدالرحمان، اس پر عمل کے لیے چند راستے ہیں:
روزانہ کچھ وقت اللہ کی یاد میں گزارو۔
قرآن کو سمجھ کر پڑھو، یہ تمہاری اصل سے جڑنے کا ذریعہ ہے۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔
دنیا کی خواہشات کو کم کرو تاکہ دل کو سکون ملے۔
اپنی کمزوریوں کو پہچانو اور اللہ سے معافی مانگو۔
یہ سب اس بانسری کے نغمے کو سمجھنے کے راستے ہیں۔
عبدالرحمان، میاں محمد بخشؒ نے ان دو مصرعوں میں انسان کی اصل دردناک کہانی یعنی جدائی (Seperation) کو جس خوبصورت فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے، وہ سن کر آپ دنیا کی تمام عارضی لَو اسٹوریز کو بھول جائیں گے۔ ذرا غور فرمائیں، یہ جو بانسری کی دلگداز آواز آپ کو رلا دیتی ہے، یہ محض سُر نہیں ہیں، یہ دراصل درخت سے جبری جدائی کا ایک ہسٹاریکل نوحہ ہے! بانسری کاٹنے کے بعد وہ مسلسل گواہی دیتی رہتی ہے کہ میں اپنے اصل گھر، اپنی جڑوں اور اپنی پچھلی زندگی سے کٹ کر یہاں آئی ہوں، اسی لیے یہ ہمیشہ غم اور اداسی کے گیت گاتی ہے۔
عبدالرحمان تم سمجھے کہ بالکل اسی طرح، ہماری انسانی روح بھی ہر وقت ایک باطنی بیوگی کی حالت میں ہے جو اپنے رب سے دائمی جدائی کا نوحہ سناتی ہے۔ ہم دنیا میں خوشیوں اور چکا چوند کے پیچھے بھاگتے ہیں، لیکن دل میں ایک ایسا خالی پن ہے جو کسی مہنگی چیز یا دنیاوی رشتے سے کبھی پُر نہیں ہوتا۔ یہ روحانی خالی پن ہی ہمیں مسلسل یاد دلاتا ہے کہ تم یہاں کے اصلی رہائشی نہیں ہو، بلکہ تم اپنے خالق کی قربت سے دور بھٹک رہے ہو۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حال صرف ہم انسانوں کا ہی نہیں، بلکہ ہر مخلوق کا ہے جو اپنے اصل منبع اور اصل گھر کو شدت سے یاد کر رہی ہے۔ مچھلی پانی کی، پرندہ آسمان کی اور عاشق اپنے محبوب کی جدائی میں ہے۔ یہ کائنات کی سب سے پرانی اور سب سے سچی لَو اسٹوری ہے۔
عبدالرحمان، یہ بات پکی ہے کہ اصل سکون دنیا کی رنگین مگر عارضی چیزوں میں نہیں مل سکتا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے پیاسا شخص ریت میں پانی تلاش کرے۔ حقیقی اور دائمی سکون صرف اور صرف اللہ کی قربت میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قربت کا ہاٹ لائن نمبر کیا ہے؟ شاعر کہتے ہیں کہ اپنے دل کو اس ابدّی وصل کے لیے تیار کرو اور اس کی تیاری عاجزی اور ذکرکے ساتھ اپنے رب کی طرف سنجیدگی سے پلٹنے میں ہے۔
یہ کوئی فینسی راستہ نہیں ہے، بلکہ توبہ اور ندامت کی سڑک ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جو روح کی جدائی کا نوحہ ہمیشہ کے لیے ختم کرے گا اور تمہیں اصل ابدی سکون عطا کرے گا۔ تو بس، بانسری کے نوحے کو سنو، مگر اس سے سبق حاصل کرو کہ تمہاری منزل پھر سے درخت بن جانا ہے، نہ کہ صرف غمگین دھنیں بجاتے رہنا۔ اپنی انا کی آواز کو کم کرو اور روح کی اصل آواز کو زیادہ سناؤ!

