Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (8)

Mian Muhammad Baksh (8)

میاں محمد بخش (8)

ہر کوئی جا نے سوڑی سامی، اگے قبر بنیرا
اک اکلی وچ، اُجاڑے دائم ہوسی ڈیرا

Everybody knows about the light spot: in front of us is the darkness of grave۔
Alone, by itself in the wilderness, which will be the abode forever

عبدالرحمان، آج ہم میاں محمد بخشؒ کے کلامِ حکمت سے ایک ایسے اہم، آفاقی اور معرفت سے لبریز شعر کی تشریح کریں گے جو عدلِ الٰہی (Divine Justice) اور رحمتِ الٰہی (Divine Mercy) کے دو بنیادی ستونوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ شعر دراصل انسانی بے بسی اور اللہ کی عظمت کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کی نجات کا واحد ذریعہ صرف اور صرف اللہ کی بے پایاں رحمت ہے۔ شاعر نے ایک ہی شعر میں گناہ گاروں کی امید اور دین داروں کے خوف (خشیت) کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ شاعر فرماتے ہیں کہ اے میرے رب! اگر تُو رحمت فرمائے، تو مجھ جیسے گناہ گاروں کو بھی بخش دیا جائے گا۔ لیکن اگر تُو عدل فرمائے، تو بڑے بڑے شان و شوکت والے لوگ بھی خوف سے کانپ اٹھیں گے!

عبدالرحمان، یہ دو مصرعے بظاہر ایک مناجات (دعا) ہیں، مگر یہ دراصل اسلامی عقیدہ، روحانی فلسفہ اور یومِ حساب کی حقیقت کا خلاصہ ہیں۔ یہ شعر رَجاء (امید) اور خوف (خشیت) کے اسلامی تصور کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ کوئی بھی گناہ گار مایوس نہ ہو اور کوئی بھی نیکوکار غرور نہ کرے۔ یہ ایک مکمل روحانی دستور ہے جو اخلاص، عاجزی اور اللہ کی حاکمیت کا درس دیتا ہے۔ ہم اس شعر میں پوشیدہ علم، حکمت اور قرآنی اصولوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ اس کی تاثیر ہماری روح تک پہنچ سکے۔ یہ مضمون پانچ بنیادی محوروں پر مشتمل ہوگا جو عدل و رحمت کے توازن کو واضح کریں گے۔

جانتے ہو کہ رحمتِ الٰہی پر بھروسہ ہی گناہ گار کی امید ہے؟

شعر کا پہلا حصہ اللہ کی صفتِ رحمت کو پکارتا ہے اور اسے گناہ گار کی نجات کا واحد ذریعہ قرار دیتا ہے: "یارب! جے تُوں رحم کریں، میرے جہے پاپ بخشے جان"۔ یہ اعترافِ گناہ اور عاجزی کا ایک کمال نمونہ ہے، جو اس حقیقت کا عکاس ہے کہ انسان کتنا ہی نیک ہو جائے، وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے بری نہیں ہو سکتا۔

عبدالرحمان، شاعر یہاں صرف رحم نہیں مانگ رہا، بلکہ یہ یقین دلاتا ہے کہ اگر اللہ کی لامحدود رحمت حرکت میں آ جائے، تو بڑے سے بڑا گناہ (پاپ) بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ شاعر خود کو "میرے جہے پاپ" کہہ کر پوری انسانیت کی کمزوری کی نمائندگی کر رہا ہے۔ ہر انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ کو دیکھتا ہے تو صرف اللہ کی وسعتِ رحمت میں ہی پناہ ڈھونڈتا ہے۔ یہ پکار دراصل قرآن کی اس بنیادی تعلیم پر مبنی ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب سے وسیع ہے اور وہ ہر چیز کو ڈھانپنے والی ہے۔

عبدالرحمان، جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے گناہ گار بندوں کو توبہ اور رحمت کی طرف بلایا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے، خواہ گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ یہ آیت اس یقین کی بنیاد ہے کہ رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔

"قُلُ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسُرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمُ لَا تَقُنَطُوا مِن رَّحُمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغُفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الُغَفُورُ الرَّحِيمُ" (سورة الزمر: 53) "کہہ دیجیے کہ اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے، یقیناً وہ ہی بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ "

میاں محمد بخشؒ کا یہ اعتراف کہ "میرے جہے پاپ بخشے جان"، اس بنیادی قرآنی حکم کی پیروی ہے جو بندے کو اپنے گناہوں سے شرمندہ ہونے کے باوجود رحمت پر یقین رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ رجاء (امید) کا وہ مقام ہے جو گناہ گار کو نیکی کی طرف لوٹنے کی ہمت دیتا ہے۔

تم پوچھو گے کہ عدلِ الٰہی کی ہیبت کیا ہے؟

شعر کا دوسرا حصہ اللہ کی صفتِ عدل کو پیش کرتا ہے، جو اس کے جلال اور ہیبت کو ظاہر کرتا ہے: "جے تُوں عدل کری، وڈے پُر شکوہ لوک وی ڈر نال کمبن!" یہ فقرہ نیک لوگوں کو غرور اور خود پسندی سے بچاتا ہے اور انہیں ہمیشہ خشیت کی حالت میں رکھتا ہے۔

عدل (انصاف) دراصل یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے، نہ کوئی زیادتی ہو اور نہ کوئی کمی۔ اگر اللہ تعالیٰ صرف عدل فرمائے، تو کوئی انسان نجات نہیں پا سکتا، کیونکہ انسان کی نیکیاں خواہ کتنی بھی ہوں، وہ اللہ کی نعمتوں (جیسے بینائی، سانس، زندگی) کا حق ادا نہیں کر سکتیں۔ پُر شکوہ لوک (بڑے شان و شوکت والے لوگ) یہاں صرف دنیاوی امیر نہیں، بلکہ وہ نیکوکار یا عباد ہیں جو اپنی نیکیوں پر فخر کرتے ہیں۔

عبدالرحمان، شاعر کا مقصد یہ ہے کہ جب قیامت کے دن عدل کا میزان لگے گا، تو نیکیوں کا پلڑا بھی اس لیے جھکے گا کہ اللہ نے رحمت فرمائی تھی، نہ کہ اس لیے کہ نیکیاں کافی تھیں۔ اگر صرف عدل ہو، تو پُر شکوہ نیک لوگ بھی اپنے اعمال کی خامیوں، نیت کے کھوٹ اور ریاکاری کے ذرات کے خوف سے کانپ اٹھیں گے۔ یہ کانپنا دراصل اس خوف (خشیت) کا نتیجہ ہے کہ اعمال میں کہیں کوئی نقص نہ رہ گیا ہو۔ یہ خشیت مومن کو تکبر اور عجب (Self-Admiration) کی مہلک بیماری سے بچاتی ہے۔

عبدالرحمان، قرآن مجید میں عدل کے دن (یومِ حساب) کو ایک ایسا سنگین دن قرار دیا گیا ہے جہاں خوف کا عالم ہوگا۔ یہ خوف دراصل نیک لوگوں کی تنبیہ کے لیے ہے کہ وہ اپنے خالق کے سامنے ہمیشہ عاجزی اختیار کریں۔

"وَيَقُولُونَ يَا وَيُلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الُكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحُصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظُلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا" (سورة الكهف: 49)

"اور کہیں گے: ہائے افسوس ہم پر! یہ کیسی کتاب ہے کہ چھوٹا اور بڑا کوئی گناہ نہیں چھوڑتی مگر اسے شمار کر رکھا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا، وہ سب موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا"۔

میاں محمد بخشؒ کا شعر اسی چھوٹے اور بڑے گناہوں کے مکمل شمار کے خوف کو بیان کرتا ہے۔ اگر نیک شخص بھی اپنے ہر عمل کو دیکھا تو وہ عدل کے میزان کے سامنے کانپ اٹھے گا۔

جانتے ہو کہ خوف اور امید کا توازن کیسے ہوگا؟

یہ شعر اسلامی روحانیت کے سب سے اہم اخلاقی اصول کو بیان کرتا ہے جسے بین الخوف والرَجاء (خوف اور امید کے درمیان) رہنا کہتے ہیں۔ یہ دراصل اعتدال کا راستہ ہے جو انسان کو دونوں انتہاؤں (مایوسی اور غرور) سے بچاتا ہے۔

عبدالرحمان، اگر انسان صرف رحمت پر امید رکھے (صرف رجاء)، تو وہ گناہوں میں بے باک ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ "اللہ بخش دے گا"۔ یہ مایوسی کی طرح ہلاکت خیز ہے۔ اس کی نفی شعر کا دوسرا حصہ کرتا ہے: "جے تُوں عدل کری۔۔ "۔ اس طرح، یہ شعر مومن کو یہ حکم دیتا ہے کہ:

جب گناہ کرو، تو رحمت کی امید رکھو (رجاء)، تاکہ توبہ کا دروازہ کھلا رہے (پہلا مصرع)۔

جب نیکی کرو، تو عدل سے ڈرو (خوف)، تاکہ نیکی میں اخلاص اور عاجزی برقرار رہے (دوسرا مصرع)۔

عبدالرحمان، یہ شعر اللہ تعالیٰ کی دو بنیادی صفات کا اظہار ہے:

جمال (رحمت): "جے تُوں رحم کریں" اللہ کی جمالی صفات کا اظہار ہے، جو محبت، بخشش اور شفقت کی نمائندگی کرتی ہیں۔

جلال (عدل): "جے تُوں عدل کری" اللہ کی جلالی صفات کا اظہار ہے، جو ہیبت، قدرت اور گرفت کی نمائندگی کرتی ہے۔

سچا عارف وہ ہے جو رحمت کے وعدوں (جمال) پر امید رکھتا ہے، مگر عدل کی ہیبت (جلال) سے کانپتا ہے۔ یہی توازن اسے روحانی طور پر صحت مند اور عملی طور پر فعال رکھتا ہے۔

جانتے ہو کہ عاجزی اور احتساب کا فلسفہ کیا ہے؟

میاں محمد بخشؒ کا یہ شعر ہمیں اپنی عملی زندگی اور روزمرہ کے اعمال میں یہ فلسفہ کیسے نافذ کرنا ہے، اس کا درس دیتا ہے۔

عبدالرحمان، شاعر کا "میرے جہے پاپ" کا فقرہ دراصل تمام انسانوں کو خود کو کمتر اور محتاج سمجھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شخص، خواہ وہ کتنا ہی عالم یا متقی کیوں نہ ہو، اللہ کے سامنے عاجز ہے۔ ہمیں اپنی نیکیوں پر فخر کرنے کے بجائے، ہمیشہ یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے اللہ کی نعمتوں کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ یہ عاجزی ہمیں تکبر اور دوسروں کو حقیر جاننے سے بچاتی ہے۔

عبدالرحمان، لمحہ بہ لمحہ احتساب دیکھو چھوٹی نیکی پر رجاء، چھوٹی غلطی پر خوف

یہ شعر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے ہر عمل کا احتساب کرنا چاہیے۔

جب کوئی نیکی کرو، تو اس کے کامل ہونے پر بھروسہ نہ کرو، بلکہ اللہ کی رحمت کی امید رکھو کہ وہ اسے قبول فرما لے گا۔

جب کوئی غلطی ہو جائے، تو مایوس نہ ہو، بلکہ عدل کے خوف کے ساتھ فوراً توبہ اور استغفار کی طرف رجوع کرو، کیونکہ رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔

اب بھلا نجات کی حقیقت ہے کیا؟

عبدالرحمان، میاں محمد بخشؒ کا یہ شعر انسانی اخلاقیات اور روحانی حکمت کا ایک لازوال اور مکمل دستور ہے۔ یہ ہمیں نجات کی حقیقی بنیاد سے متعارف کراتا ہے۔

نجات کا راز: انسان کی نجات اس کی اپنی نیکیوں کی کثرت میں نہیں، بلکہ اللہ کی رحمت کی وسعت میں ہے۔ اگر انسان اپنی نجات کے لیے صرف اعمال پر بھروسہ کرے، تو وہ ہلاک ہو جائے گا، لیکن اگر وہ رحمت پر یقین رکھے گا تو اس کے لیے نجات کی امید برقرار رہے گی۔

خالق کی عظمت: یہ شعر اللہ کی صفاتِ جمال اور جلال دونوں کا اعتراف ہے اور یہ اللہ کی بے مثل اور حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے۔

کیا ہم اپنی نیکیوں پر فخر کرکے "پُر شکوہ لوکوں" میں شامل ہیں، یا ہم "میرے جہے پاپ" کا اعتراف کرکے ہمیشہ اللہ کی رحمت کے محتاج ہیں؟ یہ شعر ہمیں ہر لمحہ توازن اور عاجزی کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam