Mian Muhammad Baksh (7)
میاں محمد بخش (7)

جے لکھ زُہد عبادت کریئے، بن عِشقوں کس کاری؟
جد تک عِشق نہ ساڑے تینوں، تد تک نبھے نہ یاری
عبدالرحمان۔ آؤ آج ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو مصرعوں کو سمجھنے کی کوشش کریں جو عبادت، عشق اور دوستی کی حقیقت کھولتے ہیں۔۔
یہ الفاظ ایک صوفی دل کی گہرائی سے نکلے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ عبادت کے لاکھوں اعمال بھی اگر محبت کے بغیر ہیں تو بے فائدہ ہیں۔ اصل عبادت وہ ہے جس میں محبت ہو، تڑپ ہو، جلنے کی کیفیت ہو اور جب تک عشق کی آگ دل کو نہ جلائے، اللہ سے دوستی مکمل نہیں ہو سکتی۔
تم حیران ہو گے کہ "لاکھوں عبادتیں بھی بے کار کیوں؟"
عبدالرحمان، انسان یہ سوچتا ہے کہ میں نے اتنی نمازیں پڑھیں، اتنے روزے رکھے، اتنی خیرات دی، یہ سب مجھے نجات دیں گے۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ اگر یہ سب محبت کے بغیر ہیں تو یہ محض رسم ہے۔
قرآن میں آیا ہے: "قَدُ أَفُلَحَ الُمُؤُمِنُونَ الَّذِينَ هُمُ فِي صَلَاتِهِمُ خَاشِعُونَ" (المؤمنون: 1-2)
"یقیناً کامیاب ہو گئے وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں خشوع رکھنے والے ہیں"۔
خشوع کا مطلب ہے دل کی محبت اور عاجزی۔ صرف جسم کے رکوع و سجود کا فائدہ نہیں، جب تک دل محبوب کے عشق میں نہ جھکے۔
اب بھلا سوچو "محبت کے بغیر عبادت کیوں بے ذائقہ ہے؟"
عبدالرحمان، عبادت کا مقصد اللہ کی قربت ہے۔ اگر عبادت محبت کے بغیر ہو تو وہ جسمانی حرکت ہے، دل کی زندگی نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی خالی برتن بجا رہا ہو۔ آواز تو آتی ہے مگر اندر کچھ نہیں۔
محبت کے بغیر نماز ایک ورزش ہے۔ محبت کے بغیر روزہ صرف بھوک ہے۔ محبت کے بغیر حج صرف سفر ہے۔ لیکن محبت کے ساتھ یہی سب عبادتیں نور اور روشنی بن جاتی ہیں۔
کیا تم جانتے ہو کہ "محبت جلائے بغیر دوستی کیوں مکمل نہیں؟"
عبدالرحمان، سچی دوستی قربانی مانگتی ہے۔ اگر دوست کے لیے تکلیف نہ سہو تو وہ دوستی ادھوری ہے۔ یہی اصول اللہ کی دوستی میں بھی ہے۔ جب تک دل محبت کی آگ میں نہ جلے، اس دوستی کی حقیقت ظاہر نہیں ہوتی۔
یہ آگ کیا ہے؟ یہ اپنی خواہشات کو مارنا ہے، نفس کو قربان کرنا ہے، راتوں کو جاگ کر رونا ہے اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرنا ہے۔ یہی وہ جلنا ہے جو دوستی کو مکمل کرتا ہے۔
عبدالرحمان، حضرت رابعہ بصریؒ کی عبادت مشہور ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ رات بھر سجدے میں رہتی تھیں۔ ایک بار کسی نے پوچھا: "آپ اتنی عبادت کیوں کرتی ہیں؟" انہوں نے کہا: "یہ عبادت نہیں، یہ میرے محبوب کے ساتھ گفتگو ہے"۔ یہی محبت ہے۔ عبادت محض رسم نہیں، بلکہ عشق کا اظہار ہے۔
تم کہو گے کہ "یہ محبت کیسے حاصل ہو؟"
عبدالرحمان، یہ محبت دعا اور ذکر سے آتی ہے۔ جب بندہ دل کی گہرائی سے اللہ کو یاد کرتا ہے، اپنے گناہوں پر روتا ہے، تو آہستہ آہستہ دل میں محبت کا بیج اگتا ہے۔ پھر یہ بیج بڑھ کر درخت بنتا ہے اور عشق کی آگ میں جلنے لگتا ہے۔ محبت قربانی سے آتی ہے۔ جو اپنی خواہش چھوڑے گا، وہ محبت پائے گا۔ جو اپنی نیند قربان کرے گا، وہ عشق کا ذائقہ پائے گا۔
کیا تم جانتے ہو کہ "آج کے دور میں یہ شعر کیا پیغام دیتا ہے؟"
عبدالرحمان، آج کے لوگ عبادت کو عادت بنا بیٹھے ہیں۔ نماز صرف ایک ذمہ داری ہے، روزہ صرف رسم ہے، ذکر صرف زبان کی عادت ہے۔ دل خالی ہے۔ اسی لیے سکون نہیں ملتا۔
یہ شعر کہتا ہے کہ عبادت کو محبت سے زندہ کرو۔ صرف تعداد نہ دیکھو کہ میں نے کتنا پڑھا۔ دیکھو کہ دل میں کتنی محبت تھی۔ کیونکہ اللہ کو مقدار نہیں، کیفیت چاہیے۔
تم سوچ رہے ہو گے کہ "محبت کے بغیر عبادت بے فائدہ"، کی بھلا کوئی مثال بھی ہے؟
عبدالرحمان، ایک شخص اگر محبوب کے لیے پھول لے کر آئے لیکن دل میں محبت نہ ہو، تو وہ پھول بیکار ہیں۔ اسی طرح، اگر کوئی لاکھوں عبادتیں کرے لیکن دل میں عشق نہ ہو، تو وہ عبادت بیکار ہے۔
اسی لیے شاعر نے کہا کہ اصل دوستی تبھی ہے جب محبت کی آگ دل کو جلائے۔
عبدالرحمان، حضرت بایزید بسطامیؒ سے پوچھا گیا: "آپ کی سب سے بڑی عبادت کیا ہے؟" انہوں نے کہا: "میری سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ میرا دل ہر لمحہ اللہ کی محبت میں جلتا ہے۔ اگر یہ محبت نہ ہو تو میرے رکوع و سجود کا کیا فائدہ؟"
عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے عبادت اور عشق کا فرق بیان کیا ہے۔ لاکھوں عبادتیں بھی اگر محبت کے بغیر ہیں تو بیکار ہیں۔ اصل عبادت وہ ہے جس میں دل کا عشق ہو، جس میں محبت کی آگ جلتی ہو اور دوستی تبھی مکمل ہے جب انسان محبت میں اپنی خواہشات کو جلا کر قربان کرے۔ یہ شعر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ عبادت کو رسم نہ بناؤ بلکہ محبت کے ساتھ ادا کرو، ورنہ وہ خالی رہ جائے گی اور یاد رکھو، محبت کے بغیر ایمان اور عبادت ادھوری ہیں اور محبت کے ساتھ سب کچھ مکمل اور روشنی سے بھرپور۔

