Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (6)

Mian Muhammad Baksh (6)

میاں محمد بخش (6)

ڈیر عبدالرحمان۔

جھل جھل ہار نہ ہاریں ہمّت، اک دن پھرسی پاسہ
بھکھا منگن چڑھے محمّد، اوڈک بھردا کاسه

Repeatedly taking the blows of defeats, dont lose heart, one day tide will turn.
When a hungry man turns to begging, Muhammad, Ultimately he fills the bowl.

یہ الفاظ ان تھکے ہارے دلوں کے لیے ہیں جو شکستوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ شاعر ہمیں تسلی دیتا ہے کہ شکست وقتی ہے، نصیب اور دعا سے کایا پلٹ جاتی ہے۔

عبدالرحمان، سب سے پہلے یہ سمجھو کہ شکست کیا ہے؟ شکست صرف امتحان میں فیل ہونا یا کاروبار میں نقصان اٹھانا نہیں۔ شکست تو ہر اس وقت ہے جب انسان کی کوشش توقع کے مطابق نتیجہ نہ دے۔ کبھی تعلقات میں، کبھی صحت میں، کبھی خوابوں میں، کبھی دل کے سکون میں۔

انسان کو لگتا ہے کہ میں ہار گیا۔ لیکن شاعر کہتا ہے: "بار بار ہار سہنے کے باوجود دل مت ہارو"۔ یعنی اصل شکست دل ہار دینا ہے۔ محنت کا بار بار ناکام ہونا شکست نہیں، ہمت چھوڑ دینا شکست ہے۔

آخر انسان دل کیوں ہارتا ہے؟

عبدالرحمان، دل اس لیے ہارتا ہے کہ انسان اپنی نظر صرف فوری نتیجے پر رکھتا ہے۔ جیسے بچہ بیج زمین میں ڈالتا ہے اور اگلے دن دیکھتا ہے کہ کچھ نہیں اگا۔ وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ حالانکہ بیج کو وقت چاہیے۔ اسی طرح زندگی کے بیج بھی وقت مانگتے ہیں۔ انسان جلدی چاہتا ہے اور جب دیر ہو تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن میاں صاحب سمجھاتے ہیں: "دل ہمت نہ ہارو، ایک دن پلٹا ضرور آئے گا"۔

عبدالرحمان سمجھے۔

"tide will turn" یعنی حالات بدل جائیں گے۔ جس طرح سمندر کی لہر ایک طرف نہیں رہتی، کبھی آگے بڑھتی ہے، کبھی پیچھے ہٹتی ہے۔ حالات بھی ایسے ہیں۔ آج شکست ہے، کل کامیابی ہو سکتی ہے۔ آج بیمار ہو، کل شفا مل سکتی ہے۔ آج خالی جیب ہو، کل روزی کے در کھل سکتے ہیں۔ یہ یقین رکھنا کہ حالات بدلتے ہیں ہی اصل طاقت ہے۔

اب دوسرے مصرعے پر غور کرو۔ شاعر مثال دیتا ہے: "جب بھوکا مانگتا ہے تو آخرکار پیالہ بھر ہی جاتا ہے"۔ یعنی دعا کرنے والا خالی ہاتھ نہیں رہتا۔ اللہ بھوکے کو بھوکا نہیں چھوڑتا۔ یہاں بھوک صرف جسمانی نہیں، روحانی بھی ہے۔ جو دل علم کا بھوکا ہے، اللہ اسے علم دیتا ہے۔ جو دل سکون کا بھوکا ہے، اللہ اسے سکون دیتا ہے۔ جو دل محبت کا بھوکا ہے، اللہ اسے محبت عطا کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ مانگے۔

عبدالرحمان تم یہی سوچ رہے ہو کہ اگر مانگنے پر بھی نہ ملے تو؟ انسان دعا کرتا ہے، مانگتا ہے، لیکن دیر ہو جاتی ہے۔ تب دل کہتا ہے شاید اللہ سن نہیں رہا۔

عبدالرحمان، سنو۔ اللہ ہمیشہ سنتا ہے، لیکن کبھی وہ فوراً نہیں دیتا کیونکہ وقت درست نہیں ہوتا۔ کبھی بہتر چیز دیتا ہے، جو ہماری نظر میں چھپی ہوتی ہے۔ یا کبھی آخرت کے لیے سنبھال لیتا ہے۔

جیسے ماں بچے کو ہر وقت میٹھا نہیں دیتی۔ کبھی روکتی ہے کہ ابھی کھانے کا وقت نہیں، کبھی کہتی ہے کہ دانت خراب نہ ہوں۔ ماں انکار نہیں کرتی، بلکہ بہتر کے لیے انتظار کرواتی ہے۔ اللہ بھی اپنے بندے کے لیے ایسے ہی کرتا ہے۔

سنو عبدالرحمان۔۔ ایک مزدور تھا۔ اس نے دن رات محنت کی مگر گھر میں فاقہ رہا۔ وہ مسجد میں گیا اور روتے ہوئے دعا کی: "یا اللہ، میرے بچوں کے لیے کھانا دے"۔ اس دن کوئی انتظام نہ ہوا۔ دوسرے دن بھی نہ ہوا۔ تیسرے دن ایک امیر شخص مسجد آیا، اس نے مزدور کو دیکھا اور اس کے گھر کا خرچ برسوں کے لیے پورا کر دیا۔

مزدور نے خواب میں سنا: "اگر میں پہلے دن دیتا تو ایک دن کا کھانا ہوتا، تیسرے دن دیا تو برسوں کا انتظام کر دیا"۔ عبدالرحمان، یہی بات شاعر نے کہی: "آخرکار پیالہ بھر ہی جاتا ہے"۔

عبدالرحمان، آج کے انسان کو شکست زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کے پاس صبر کم ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ فوری ملے۔ ڈگری لیتے ہی نوکری، کاروبار شروع کرتے ہی منافع، دعا کرتے ہی نتیجہ۔ لیکن یہ دنیا ایسے نہیں چلتی۔ یہاں بیج کو جڑ پکڑنے میں وقت لگتا ہے۔ شاعر ہمیں سکھاتے ہیں کہ شکست کے وار سہہ لو، مگر دل نہ توڑو۔ دعا مانگتے رہو، ایک دن اللہ تمہارا پیالہ بھر دے گا۔

عبدالرحمان، دعا نصیب کو کھولتی ہے۔ شاعر نے "بھیک مانگنے" کی مثال دی تاکہ سمجھا سکے کہ دعا اصل میں بندگی ہے۔ بندہ مانگنے والا ہے اور اللہ دینے والا۔ جب تک بندہ مانگتا رہے، اللہ کبھی خالی نہیں لوٹاتا۔

درد منداں دے سخن محمّد دیہن گواہی حالوں
جس پلّے پھل بدھے ہوون، آوے باس رومالوں

The talk of the sad ones، Muhammad, bears witness to their condition.
Whoever has wrapped flowers, his handkerchief emits fragrance.

یہ الفاظ انسان کے اندرونی حال اور اس کی زبان پر آنے والے اظہار کو سمجھاتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ غمزدہ انسان کے دل کا حال اس کی باتوں میں جھلک ہی جاتا ہے، جیسے پھول لپیٹے جائیں تو رومال میں خوشبو خود بخود آ جاتی ہے۔

آخر غمزدہ کی باتوں میں اس کا حال کیوں جھلکتا ہے؟

عبدالرحمان، جب دل بھرا ہوتا ہے تو زبان پر اس کا اثر لازمی آتا ہے۔ غم کو چھپانا آسان نہیں۔ کوئی کہے کہ میں ٹھیک ہوں، لیکن اس کی آواز کا لرزنا، اس کی آنکھوں کا نم ہونا، اس کے الفاظ کی کمزوری خود گواہی دے دیتے ہیں کہ وہ اندر سے ٹوٹا ہوا ہے۔ یہی مطلب شاعر نے نکالا: "غمزدہ انسان کی باتیں اس کے حال کی گواہی دیتی ہیں"۔ چاہے وہ اپنے دکھ چھپانے کی کتنی ہی کوشش کرے، لیکن لفظوں کے بیچ کہیں نہ کہیں دل کی چیخ سنائی دیتی ہے۔

عبدالرحمان، یہ صرف غم پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔ یہ اصول خوشی پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دل خوش ہو تو زبان پر روشنی آ جاتی ہے۔ آواز میں مٹھاس آتی ہے، باتوں میں امید آتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چہرے پر مسکراہٹ اندر کی کیفیت بتا دیتی ہے۔ میاں صاحب نے یہاں غمزدہ کا ذکر کیا تاکہ انسان کو یہ یاد رہے کہ دکھ چھپائے نہیں جاتے اور دوسروں کے دکھ سن کر انہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

عبدالرحمان: "جس نے پھول لپیٹے، اس کا رومال خوشبو دار ہوگیا"، اس مثال کا کیا مطلب ہے؟

عبدالرحمان، شاعر نے بڑی حسین مثال دی۔ اگر کوئی رومال میں پھول لپیٹ دے تو چاہے وہ پھول بعد میں ہٹا بھی دے، پھر بھی رومال خوشبو دیتا رہتا ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جس کے دل میں دکھ لپٹے ہیں، اس کی باتوں میں دکھ کی خوشبو آتی ہے۔ جس کے دل میں محبت لپٹی ہے، اس کی باتوں سے محبت جھلکتی ہے۔ جس کے دل میں نفرت ہے، وہ بھی لفظوں کے درمیان جھلک ہی جاتی ہے۔ یعنی انسان کی گفتگو اس کے اندر کی کیفیت کی خوشبو یا بو لے کر چلتی ہے۔

اب سوچو اس مثال کو روزمرہ میں کیسے دیکھتے ہیں؟

عبدالرحمان، آج بھی تم دیکھتے ہو۔ کوئی استاد جس کے دل میں علم بھرا ہے، اس کی باتوں سے علم کی خوشبو آتی ہے۔ کوئی تاجر جو صرف دنیا کے لالچ میں ڈوبا ہے، اس کی باتوں میں دولت کا ذکر ہی رہتا ہے اور وہ صوفی جس کے دل میں اللہ کی یاد لپٹی ہے، اس کی زبان سے نکلنے والے ہر جملے سے ذکرِ الٰہی کی خوشبو آتی ہے۔ یہی وہ "پھول" ہیں جو انسان نے لپیٹے ہیں اور یہی "خوشبو" ہے جو دوسروں تک پہنچتی ہے۔

عبدالرحمان، شاعر کہتا ہے: "غمزدہ کی بات خود اس کے حال کی گواہی ہے"۔ اس لیے ہمیں دوسروں کی باتوں کو دھیان سے سننا چاہیے۔ اکثر لوگ صرف الفاظ پر توجہ دیتے ہیں، لیکن دل کے حال کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے "میں ٹھیک ہوں" تو ضروری نہیں کہ وہ واقعی ٹھیک ہو۔ کبھی اس کے لہجے میں چھپا دکھ سننا چاہیے۔ کبھی اس کی خاموشی بھی سننی چاہیے۔ کیونکہ دکھ انسان کو توڑ دیتا ہے اور اگر کوئی اس کا حال سن لے تو وہ آدھا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔

عبدالرحمان، اب بھلا اس میں آج کے دور کے لیے کیا سبق ہے؟

عبدالرحمان، آج کے انسان کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ وہ اپنے دکھ چھپاتا ہے اور دوسروں کے دکھ سنتا نہیں۔ ہر کوئی مسکراتا ہوا ماسک پہنے پھرتا ہے، لیکن دل کے اندر طوفان چھپائے رکھتا ہے۔ میاں صاحب کا یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ الفاظ کے پیچھے دل کی کیفیت کو سنو اور اپنی گفتگو ایسی بناؤ کہ اس سے خوشبو آئے، کانٹوں کی چبھن نہ آئے۔ اگر دل میں اللہ کی یاد اور محبت لپیٹی ہو تو تمہاری باتوں سے بھی سکون پھیلے گا، جیسے رومال میں لپٹے پھول سے خوشبو پھیلتی ہے۔

عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں ایک ہی وقت میں دو باتیں کہی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ غمزدہ کی گفتگو اس کے حال کی سچی گواہی ہے، اس لیے کسی کی باتوں کو نظر انداز نہ کرو بلکہ دل سے سنو اور دوسری یہ کہ انسان کی باتوں سے ہمیشہ وہی خوشبو آتی ہے جو اس نے اپنے دل میں لپیٹی ہوئی ہے۔ اگر دل میں غم ہے تو غم کی جھلک، اگر دل میں محبت ہے تو محبت کی خوشبو اور اگر دل میں ذکرِ الٰہی ہے تو اس کی روشنی۔ اس لیے اپنی باتوں کو سنوارنے کے لیے پہلے دل کو سنوارو۔ کیونکہ زبان سے وہی نکلتا ہے جو دل کے اندر لپٹا ہوتا ہے اور پھر وہ خوشبو یا بدبو دوسروں تک پہنچتی ہے۔ یہی میاں محمد بخشؒ کا سبق ہے، دل کو پھول بناؤ تاکہ الفاظ سے ہمیشہ خوشبو آئے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari