Mian Muhammad Baksh (5)
میاں محمد بخش (5)

ڈیر عبدالرحمان۔
سن فریاد پیراں دیا پیرا، دھکّا دئیں نہ مینوں
بے کساں دا والی توں ایں، شرم دتی رب تینوں
Listen to my urging, O guide of guides، please dont push me.
You are a guardian of the weak, God has given you honor.
یہ الفاظ ایک مسافر کی صدا ہیں، جو تھک چکا ہے، جو کمزور ہے، جو اپنے رہبر سے فریاد کرتا ہے۔
عبدالرحمان سوچو "اے رہبروں کے رہبر! میری فریاد سنو"، اس پکار کا کیا مطلب ہے؟
سوچو، انسان اپنی زندگی کے سفر میں کتنا اکیلا محسوس کرتا ہے۔ کبھی امتحان کا دباؤ، کبھی معاش کی فکر، کبھی رشتوں کی پیچیدگی، کبھی اپنی خواہشوں کی آگ، بندہ تھک جاتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے رہنما کو پکارتا ہے۔
یہاں شاعر کس سے خطاب کر رہا ہے؟ حضور اکرم ﷺ سے۔ وہ کہتے ہیں: "یا رسول اللہ ﷺ، آپ تو رہبروں کے رہبر ہیں، آپ کی سنت راہ دکھانے والی ہے، آپ کی سیرت اندھیروں میں روشنی ہے۔ میری فریاد سنو، مجھے اپنے سے دور نہ کرو"۔
عبدالرحمان، یہ حقیقت ہے کہ انسان کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو، اندر سے کمزور رہتا ہے۔ ایک لمحہ کی غفلت، ایک لمحہ کا دباؤ اور راستہ بھٹک جاتا ہے۔ اس وقت یہ فریاد ہی سہارا ہے۔
عبدالرحمان "مجھے دھکا نہ دینا"، ایسا کیوں کہا؟
یہ جملہ بڑا عجیب لگتا ہے۔ رہبر دھکا کیوں دے گا؟ اصل میں یہ دھکا بے رخی کا دھکا ہے، رحمت سے محرومی کا دھکا ہے۔ انسان ڈرتا ہے کہ کہیں میرے گناہوں کی وجہ سے نبی ﷺ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں، کہیں میری غفلت مجھے آپ کی شفقت سے محروم نہ کر دے۔ اسی لیے وہ فریاد کرتا ہے: "یا رسول اللہ، مجھے دھکا نہ دیجیے، مجھے اپنی امت سے جدا نہ کیجیے"۔
عبدالرحمان، آج کے انسان کی حالت یہی ہے۔ دل خود جانتا ہے کہ ہم نے کتنی سنتیں چھوڑ دیں، کتنی نمازیں بھول گئے، کتنی مرتبہ جھوٹ بولا، دوسروں کا دل دکھایا۔ ایسے میں دل کانپتا ہے: کہیں میرے گناہ مجھے نبی ﷺ کے در سے دور نہ کر دیں۔ لیکن ساتھ ساتھ امید بھی ہے کہ وہ ﷺ رحمت کے پیکر ہیں، وہ دھکا نہیں دیں گے، وہ قریب کریں گے۔
عبدالرحمان، "آپ تو کمزوروں کے نگہبان ہیں"، یہ کمزور کون ہیں؟
عبدالرحمان، یہ بڑا اہم سوال ہے۔ کمزور کون ہیں؟
وہ یتیم بچے جن کے سر پر باپ کا سایہ نہیں۔
وہ بیوائیں جو معاشرے میں سہارا تلاش کرتی ہیں۔
وہ مسکین جو دوسروں کے در پر جھکتے ہیں۔
اور وہ گناہگار جو اپنے گناہوں کے بوجھ سے دبے ہیں۔
حضور ﷺ سب کے نگہبان ہیں۔ انہوں نے فرمایا: "میں یتیم کی کفالت کرنے والے کے ساتھ جنت میں ایسے قریب ہوں گا جیسے یہ دو انگلیاں" (اور اپنی انگلیاں ملا دیں)۔
اور دوسری جگہ فرمایا: "میں تمہیں کمزوروں کا حق ادا کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ ان کی بددعا کے درمیان اللہ کی رحمت اور عرش کا فاصلہ نہیں ہوتا"۔
عبدالرحمان، یہ کمزور صرف جسمانی نہیں، بلکہ روحانی بھی ہیں۔ جو دل سے ٹوٹ گئے ہیں، جو اپنی کمزوریوں میں پِس گئے ہیں، حضور ﷺ ان سب کے لیے شفیع ہیں۔
عبدالرحمان، یہ عزت وہ ہے جو نہ کسی بادشاہ کو ملی، نہ کسی حکمران کو۔ یہ عزت صرف رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئی۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: "ورفعنا لک ذکرک"، "اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا"۔
عبدالرحمان، یہ عزت دنیاوی تخت یا کرسی کی نہیں، یہ عزت ہے محبوب بنائے جانے کی۔ جب اذان ہوتی ہے تو اللہ کے نام کے ساتھ نبی ﷺ کا نام بھی بلند ہوتا ہے۔ جب کلمہ پڑھا جاتا ہے تو "لا الہ الا اللہ" کے ساتھ "محمد رسول اللہ" بھی آتا ہے۔ یہ وہ عزت ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی۔
عبدالرحمان، ایک حکایت مشہور ہے۔ ایک گناہگار شخص روضۂ رسول ﷺ پر حاضر ہوا۔ آنسوؤں کے ساتھ کہا: "یا رسول اللہ، میں نے زندگی برباد کر دی، گناہوں کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا، مجھے دھکا نہ دیجیے، مجھے اپنی امت میں شامل رکھیے"۔ روایت ہے کہ اسی رات خواب میں نبی ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میرے امتی، تمہاری فریاد سنی گئی۔ اللہ غفور ہے، تم توبہ کرو، میں شفاعت کروں گا"۔
یہی کیفیت میاں محمد بخشؒ کے اشعار میں ہے، وہ بھی دل کے بوجھ کے ساتھ فریاد کرتے ہیں کہ "مجھے دھکا نہ دینا"۔
اب بھلا آج کے انسان کے لیے اس میں کیا سبق ہے؟
عبدالرحمان، یہ سبق ہے کہ کمزوری کو چھپانا نہیں چاہیے۔ اپنے دل کی کمزوری کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے رکھ دینا چاہیے۔ جیسے شاعر نے کہا: "میری فریاد سنو، مجھے دھکا نہ دینا"۔ یہ ایک سچی دعا ہے۔
آج ہم اپنے گناہوں کی پردہ پوشی دوسروں سے کرتے ہیں، لیکن اللہ اور اس کے نبی ﷺ کے سامنے سچ بن کر کھڑے ہو جائیں۔ یہی سب سے بڑا سہارا ہے اور دوسرا سبق یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ کمزوروں کے نگہبان ہیں تو ہمیں بھی کمزوروں کے سہارا بننا چاہیے۔ یتیم کا ساتھ دینا، مسکین کو کھلانا، بیوہ کی ضرورت پوری کرنا، یہ سب محبتِ رسول ﷺ کی علامت ہیں۔
سوچو کہ موجودہ زمانے میں ہم کیسے اپنی فریاد سنوائیں؟
عبدالرحمان، نبی ﷺ کے در پر فریاد لے جانا صرف مدینہ جانے سے مشروط نہیں۔ تم جہاں بھی ہو، تمہارے دل کی سچی دعا مدینہ تک پہنچتی ہے۔ درود شریف پڑھو، آنکھوں میں آنسو لاؤ اور دل سے کہو: "یا رسول اللہ، میں کمزور ہوں، میرا ہاتھ تھام لیجیے"۔ یہ فریاد رد نہیں کی جاتی۔
عبدالرحمان روشنی سے بھی زیادہ تیز، (FTL) نئی ترین سائنسی اصطلاح ہے۔ آج سائنس کہتی ہے کہ کچھ چیزیں روشنی سے بھی تیز ہیں اور ہم چودہ سو سال سے جانتے ہیں کہ دعائیں اور درود روشنی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم ﷺ تک پہنچتے ہیں"۔
اگلا شعر پڑھتے ہیں۔
جیہناں پیسہ پلّے ناہیں، خالی مڑن بازاروں
نقد نصیب، محمّد بخشا، بن قسمت کیہہ داروں
Who dont carry any money with them, they return empty handed from bazar.
All is in destiny, O Muhammad Bakhsh, what can be the remedy without fate
عبدالرحمان، ذرا سوچو "جو بازار جاتے ہیں اور ان کے پاس پیسہ نہیں، وہ خالی ہاتھ واپس آتے ہیں"۔ یہ تو سادہ سا اصول ہے، ہے نا؟ خریدنے کے لیے سرمایہ چاہیے۔ اگر جیب خالی ہو تو بازار میں لاکھ چیزیں ہوں، تم کچھ بھی نہ خرید سکو گے۔
لیکن شاعر صرف دنیاوی بازار کی بات نہیں کر رہا، بلکہ زندگی کے بازار کی بات کر رہا ہے۔ یہ دنیا ایک بازار ہے۔ یہاں ہر طرف خواہشوں کی دکانیں ہیں، ہر طرف لذتوں کے کھوکھے ہیں، ہر طرف امیدوں کے سامان سجے ہیں۔ لیکن یہ سب پانے کے لیے جس کرنسی کی ضرورت ہے، وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اللہ کے فیصلے میں ہے۔
اب بتاؤ کہ اصل کرنسی کیا ہے؟
عبدالرحمان، اصل کرنسی دو ہیں: ایک دنیاوی کرنسی (یعنی پیسہ) اور ایک روحانی کرنسی (یعنی نصیب اور قسمت)۔ دنیا کے بازار میں پیسہ چلتا ہے، لیکن زندگی کے بازار میں نصیب چلتا ہے۔
تم کتنی ہی محنت کر لو، اگر نصیب نہ ہو تو ہاتھ خالی رہتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو دن رات محنت کرتے ہیں، بڑے خواب دیکھتے ہیں، مگر کامیاب نہیں ہوتے اور کتنے ہیں جو کم محنت کرتے ہیں مگر اللہ نصیب کھول دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر نے کہا: "سب کچھ نصیب میں ہے، اس کے بغیر کیا علاج؟"
اب تم کہو گے کہ کیا محنت بے کار ہے؟ اگر سب کچھ نصیب میں ہے تو پھر محنت کیوں کریں؟ کیا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے؟
عبدالرحمان، نہیں۔ محنت کرنا فرض ہے، لیکن نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھو۔۔ تم بیج ڈالو، کھیت سنبھالو، پانی دو، یہ سب تمہارے ذمہ ہے۔ لیکن بیج میں جان ڈالنا، بارش بھیجنا، دھوپ کو مناسب رکھنا، یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں کھیت سنبھالنے کا حکم ملا ہے، لیکن فصل کا نصیب اللہ کے حکم سے بنتا ہے۔
اسی لیے قرآن میں آیا: "وأن ليس للإنسان إلا ما سعى"، "انسان کو وہی ملتا ہے جس کی کوشش کرتا ہے"۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوشش کا پھل اللہ کی مرضی سے نصیب ہوتا ہے۔
عبدالرحمان، فرض کرو تم بازار گئے۔ جیب میں پیسے بھی تھے، لیکن اچانک وہ چیز جسے خریدنے گئے تھے، اسٹاک میں نہ ملی۔ یا وہ چیز بظاہر ملی لیکن عیب دار نکلی۔ یا تمہارے پیسے اچانک گم ہو گئے۔ اب دیکھو، سب کچھ کرنے کے باوجود تم خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ یہ ہے نصیب۔
اسی طرح کوئی دوسرا شخص بغیر سوچے سمجھے گیا اور اس کے ہاتھ اچھی چیز لگ گئی۔ یہ بھی نصیب۔ یہی وہ راز ہے جو میاں محمد بخشؒ سمجھا رہے ہیں۔
جانتے ہو کہ خالی ہاتھ لوٹنے کا مطلب کیا ہے؟
یہ صرف دنیاوی بازار کا ذکر نہیں، عبدالرحمان۔ اصل میں شاعر آخرت کے بازار کی بات کر رہے ہیں۔ قیامت کا دن ایک بازار کی طرح ہوگا، جہاں نیکیاں کرنسی ہوں گی۔ جس کے پاس نیکیوں کی دولت ہوگی وہ کامیاب ہوگا اور جس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی وہ خالی ہاتھ رہ جائے گا۔
دنیا میں تم لاکھ دولت مند ہو جاؤ، اگر نیکیوں کی کرنسی ساتھ نہ لی تو آخرت میں خالی ہاتھ لوٹو گے۔ یہی اصل بازار ہے جہاں نصیب کی اہمیت سامنے آئے گی۔
عبدالرحمان، یہ سوال بھی اہم ہے۔ اگر سب کچھ نصیب سے ہے تو پھر بندہ کیا کرے؟
بات یہ ہے کہ نصیب بھی محنت اور دعا سے بنتا ہے۔ اللہ نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اچھے راستے کا انتخاب کریں۔ نصیب کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ پہلے ہی طے ہو چکا ہے اور ہماری محنت بیکار ہے۔ نصیب کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حکمت ہر جگہ چلتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس کو کب کیا دینا ہے۔
یاد رکھو، دعا نصیب بدل دیتی ہے۔ ماں کی دعا، استاد کی دعا، اپنی آنکھوں کے آنسو، یہ سب انسان کی تقدیر کے راستے کو نرم کر دیتے ہیں۔
عبدالرحمان، ایک واقعہ سنو۔ ایک مزدور ہر روز محنت کرتا، مگر گھر میں غربت ہی رہتی۔ ایک دن اس نے بادشاہ کے در پر جا کر فریاد کی: "اے بادشاہ! میں محنت کرتا ہوں، پھر بھی نصیب میرا ساتھ نہیں دیتا۔ " بادشاہ نے کہا: "میں تجھے ایک تھیلی دیتا ہوں، لیکن نصیب تجھے عطا کرنے والا اللہ ہے"۔
مزدور نے تھیلی لی تو اس میں سونا تھا۔ لیکن گھر پہنچتے ہی ڈاکوؤں نے چھین لیا۔ مزدور روتا ہوا واپس آیا۔ بادشاہ نے کہا: "دیکھ! میری تھیلی تیرے پاس آئی، مگر نصیب تیرے ساتھ نہ تھا"۔
عبدالرحمان، یہ حکایت سکھاتی ہے کہ محنت اور وسیلہ ضروری ہیں، لیکن نصیب کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
اب بھلا آج کے دور کے لیے اس میں کیا سبق ہے؟
عبدالرحمان، آج کے لوگ اپنی ناکامی پر خود کو کوستے ہیں۔ کہتے ہیں شاید میری محنت کم ہے، شاید میری قسمت خراب ہے۔ لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کی تقسیم میں حکمت ہے۔ ہر انسان کو وہی دیا جاتا ہے جو اس کے لیے بہتر ہے۔ کبھی دیر سے ملتا ہے تاکہ صبر سیکھے، کبھی کم ملتا ہے تاکہ قناعت پیدا ہو، کبھی زیادہ ملتا ہے تاکہ شکر کا امتحان ہو۔
اصل سبق یہ ہے کہ ہم محنت کریں، دعا کریں اور پھر نتیجہ اللہ کے سپرد کر دیں۔ یہ سکون دیتا ہے کہ "جو میرا ہے وہ مجھے ضرور ملے گا اور جو نہیں ہے وہ مجھے چاہ کر بھی نہیں ملے گا"۔
عبدالرحمان، ان دو مصرعوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں ایک بازار ہیں۔ یہاں ہر چیز نصیب اور قسمت کی کرنسی سے ملتی ہے۔ جو خالی جیب آئے وہ خالی ہاتھ لوٹتا ہے۔ اسی لیے انسان کو چاہیے کہ دنیا کے بازار میں صرف پیسے پر نہ بھروسہ کرے بلکہ دعا، نیکی اور نصیب پر بھروسہ کرے اور آخرت کے بازار کے لیے نیکیوں کی کرنسی جمع کرے۔ کیونکہ نصیب کے بغیر نہ دنیا کا سودا بنتا ہے نہ آخرت کا۔ یہی سبق ہے جو میاں محمد بخشؒ نے اپنی سادہ مگر گہری شاعری میں ہمیں دیا۔

