Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (4)

Mian Muhammad Baksh (4)

میاں محمد بخش (4)

ڈیر عبدالرحمان۔

چلو، ساتواں اور آٹھواں شعر پڑھتے ہیں:

اوہ محبوب، حبیب ربانا، حامی روز حشر دا
آپ یتیم، یتیماں تائیں ہتھ سرے تے دھردا

He (PBUH) is the beloved of Allah, a helper on the day of judgment.
Himself an orphan, he consoles and protects the orphans.

عبدالرحمان، سب سے پہلے میں تم سے یہ سوال کرتا ہوں: اس کائنات میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ ہم اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں، اپنے والد سے کرتے ہیں، اپنی اولاد سے کرتے ہیں، لیکن اللہ کی محبت کس پر سب سے زیادہ ہے؟

جواب صرف ایک ہے: محمد مصطفیٰ ﷺ۔

میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ اللہ کے محبوب ہیں۔ محبوب وہ ہوتا ہے جس سے صرف الفاظ کی محبت نہ ہو بلکہ دل کی گہرائیوں سے لگاؤ ہو۔ اللہ نے اپنے نبی کو اس قدر محبوب بنایا کہ قرآن میں فرمایا: "ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی"، "اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں"۔ عبدالرحمان، سوچو! یہ شان کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔

عبدالرحمان، یہ سوال تمہارے ذہن میں آ سکتا ہے۔ اگر وہ ﷺ اللہ کے محبوب ہیں تو اس کا ہمیں کیا فائدہ؟

فائدہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب کوئی کسی کا سہارا نہیں ہوگا، جب ماں اپنے بیٹے کو بھول جائے گی اور بھائی بھائی کو چھوڑ دے گا، تب حضور ﷺ اپنی امت کے لیے شفاعت کریں گے۔ وہ اللہ کے محبوب ہیں، ان کی سفارش رد نہیں کی جائے گی۔

عبدالرحمان، قیامت کے دن انسان روئے گا: "نفسی، نفسی!" یعنی میرا حال! میرا حال!

لیکن صرف ایک ہستی ہوگی جو کہے گی: "امتی، امتی!" یعنی میری امت، میری امت!

یہ ہے اللہ کے محبوب کا ہماری طرف جھکاؤ۔

اب اگلا سوال یہ ہے کہ شاعر نے حضور ﷺ کی یتیمی کا ذکر کیوں کیا؟"خود یتیم تھے مگر یتیموں کو سہارا دیتے ہیں"۔

عبدالرحمان، اس میں بڑا راز ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب کو یتیم بنایا تاکہ وہ یتیموں کا درد سمجھیں، ان کی دلجوئی کریں، ان کی حفاظت کریں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: "میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے" اور اپنی دو انگلیاں ملا دیں۔

یعنی جنت میں رسول اللہ ﷺ کے قریب ترین وہ ہوگا جو یتیم کی پرورش کرے گا۔ یہ تعلیم اسی لیے ہے کہ یتیمی کی تکلیف خود نبی ﷺ نے جھیلی، اس لیے دوسروں کے لیے آسانی کا پیغام دیا۔

عبدالرحمان، حضور ﷺ جب پیدا ہوئے تو والد کا سایہ پہلے ہی اٹھ چکا تھا۔ چھ سال کی عمر میں ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ دادا نے پالا مگر وہ بھی جلد ہی وفات پا گئے۔ پھر چچا ابو طالب نے پرورش کی۔ یعنی نبی ﷺ نے یتیمی کے سارے دکھ خود دیکھے۔

لیکن دیکھو عبدالرحمان! انہی دکھوں نے ان کے دل کو نرم کیا۔ اس لیے انہوں نے فرمایا: "یتیم کو سختی سے نہ دھتکارو، ان کے ساتھ شفقت سے پیش آؤ"۔ قرآن میں بھی آیا: "فاما الیتیم فلا تقھر"، "یتیم کو مت جھڑکو"۔

یہ آیت نبی ﷺ کی اپنی زندگی کی عکاسی ہے۔ وہ یتیم تھے مگر دوسروں کے لیے سہارا بنے۔

اب تم پوچھو گے: بابا، یہ سب سن کر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

عبدالرحمان، سبق یہ ہے کہ ہمیں بھی یتیموں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو نبی ﷺ نے کیا۔ آج کے دور میں کتنے یتیم ہیں جنہیں معاشرہ بھول جاتا ہے۔ اسکول میں مذاق اڑایا جاتا ہے، رشتہ دار ان کو کم تر سمجھتے ہیں، لوگ ان کا حق کھا جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم حضور ﷺ کے پیروکار ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھیں، ان کے آنسو پونچھیں، ان کی ضرورت پوری کریں۔ یہی اصل محبتِ رسول ہے۔

عبدالرحمان، آج کے دور میں یتیموں کی کفالت صرف روایتی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں ادارے بنانے ہیں، اسکول بنانے ہیں، یتیم بچوں کو تعلیم دینی ہے، ہنر سکھانے ہیں۔ حضور ﷺ نے ہمیں صرف یہ نہیں کہا کہ کھانا کھلا دو، بلکہ یہ بھی کہا کہ انہیں معاشرے کا مفید فرد بنا دو۔

آج کے جدید انسان کے لیے یہی سب سے بڑا عمل ہے کہ وہ یتیم کے مستقبل کو محفوظ بنائے۔ یہی وہ عمل ہے جو قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کے قریب لے جائے گا۔

عبدالرحمان، ایک ولی اللہ کے پاس ایک یتیم لڑکا آیا۔ اس کے پاس کپڑے نہیں تھے، جوتے نہیں تھے۔ ولی نے اپنا لباس اس کو دے دیا۔ شاگردوں نے کہا: "حضرت! آپ نے اپنا کپڑا دے دیا، آپ کے پاس کچھ نہیں بچا"۔ ولی مسکرائے اور کہا: "عبدالرحمان! یتیم کی دعا وہ خزانہ ہے جو زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہے۔ میں نے کپڑا کھویا نہیں، جنت خریدی ہے"۔

میں انہاں، تے تلکن رستہ، کیوں کر رہے سنبھالا؟
دھکے دیون والے بہتے، توں ہتھ پکڑن والا

I am blind، and the path is slippery, how can I be keep myself steady?
There are many to push, only you to hold my hand.

عبدالرحمان، آؤ آگے سنو۔ تیز ہوا ہے، زمانہ بھی دوڑتا ہوا ہے اور انسان کا دل کبھی کبھی ایسا ہی محسوس کرتا ہے جیسے کسی اندھیری، گیلی ڈھلان پر کھڑا ہو: پاؤں پھسل رہے ہوں، ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور آگے گہری کھائی۔ میاں محمد بخشؒ نے انہی کیفیتوں کو دو سطروں میں سمیٹ دیا: "میں اندھا ہوں اور راستہ پھسلواں ہے، میں کیسے ٹھہر کر چلوں؟ دھکا دینے والے بہت ہیں، ہاتھ پکڑنے والا تو صرف تُو ہے"۔ اب آؤ، سوال اٹھاتے ہیں اور جواب ڈھونڈتے ہیں، سیدھی زبان میں، دل کے قریب بات کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ "میں اندھا ہوں" سے شاعر کیا چاہتا ہے؟

عبدالرحمان، یہاں اندھا پن صرف آنکھوں کا نہیں، یہ دل کی بینائی کا ذکر ہے۔ انسان کے پاس دو آنکھیں ہیں: ایک باہر کی چیزیں دکھاتی ہے، دوسری اندر کی حقیقتوں کا راستہ۔ باہر والی آنکھ سونے کی چمک دکھاتی ہے، اندر والی بتاتی ہے کہ حرص کی آگ میں یہ چمک جل بھی سکتی ہے۔ باہر والی آنکھ اسکرین کا میلہ دکھاتی ہے، اندر والی سمجھاتی ہے کہ مسلسل اسکرول کرنا روح کی تھکن بڑھا دیتا ہے۔ جب اندر والی بینائی، یعنی بصیرت، کمزور ہو جائے تو آدمی "اندھا" ہی ہوتا ہے، چاہے نظر چاروں طرف دور تک جاتی ہو۔ میاں صاحب کا اعتراف یہ ہے کہ میں اپنی تدبیر پر بھروسہ کروں تو غلطی کھاؤں گا، میں خود کو خود سے نہ بچا سکوں گا۔ یہ کمزوری مان لینا شکست نہیں، یہ توحید کی ابتدا ہے: بندہ سمجھے کہ میں خود کفیل نہیں، مجھے سہارا چاہیے۔

عبدالرحمان، میاں صاحب نے "راستہ پھسلواں ہے" کیوں کہا؟

اس لیے کہ زندگی کا راستہ ہموار کاغذ پر کھنچی سیدھی لکیر نہیں۔ کبھی خواہش کی کیچڑ ہے، کبھی غصے کے کنکر، کبھی شہوت کے دھبے، کبھی غرور کی برف، پاؤں رکھو تو سرک جائے۔ تم آج کے زمانے کو دیکھو: مارکیٹ میں ایسے وعدے بیچے جاتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے، سوشل میڈیا ایسی تصویریں دکھاتا ہے جو اصل سے زیادہ چمکیلی ہوتی ہیں، ملازمت کا دباؤ، رشتوں کی گرہیں، ذہنی تھکن، سب مل کر راستہ چکنا کر دیتے ہیں۔ آدمی کہتا ہے "میں مضبوط ہوں" مگر ایک لمحہ بے احتیاطی میں پرانی لت لوٹا لاتی ہے، ایک ناروا جملہ برسوں کے رشتے کو توڑ دیتا ہے، ایک غفلت کی ٹِک اور انسان اپنی حد سے پھسل جاتا ہے۔ میاں صاحب نے ایک لفظ میں پورا منظر کھینچ دیا: "پھسلواں"، یعنی ایسی جگہ جہاں عقل کہتی ہے آہستہ آہستہ، دل کہتا ہے دوڑ لگا دو اور نفس پیچھے سے دھکا دیتا ہے۔

عبدالرحمان، سوال یہ ہے کہ "میں کیسے ٹھہر کر چلوں؟"

یہ بڑا سوال ہے، عبدالرحمان۔ اس کا جواب استقامت ہے، یعنی ثابت قدمی۔ مگر استقامت کوئی جادو نہیں جو راتوں رات اتر آئے۔ یہ تین سہاروں سے وجود میں آتی ہے، ذکر، صحبتِ صالحین اور سنت کی سادگی۔ ذکر دل کو ریت سے پتھر بناتا ہے کہ قدم مضبوطی سے ٹکے رہیں، نیک صحبت راستے کی سائن بورڈ بن جاتی ہے کہ کہاں مڑنا ہے اور کہاں رُکنا، سنت کی سادگی وزن کم رکھتی ہے، جتنا کم غیر ضروری بوجھ، اتنا کم پھسلنا۔ تم اپنی روزمرہ میں دیکھو: جو شخص صبح کی خاموشی میں دو منٹ "یا حی یا قیوم، برحمتک استغیث" کہہ لیتا ہے، اُس کے اندر ایک شفاف ریلہ چلتا ہے، عجیب سا ٹھہراؤ۔ وہی ٹھہراؤ پھر دن بھر کے فیصلوں میں تمہیں بے قابو نہیں ہونے دیتا اور جو انسان اپنی نشست و برخاست، کھانے پینے، خرید و فروخت، بولنے چالنے میں سادگی اختیار کرتا ہے، اس کا دل نرم بھی رہتا ہے اور ہلکا بھی، نرم دل پگھلتا نہیں، ہلکا دل لڑھکتا نہیں، ٹھہرا رہتا ہے۔

اب بھلا یہ "دھکا دینے والے کون ہیں؟ کتنے ہیں؟"

عبدالرحمان! سب سے پہلے نفس، اندر بیٹھا ہوا وہ چھوٹا سا کارندہ جو ہر مشکل لمحے میں آسان مگر غلط راستہ دکھاتا ہے: "آج بس یہ جھوٹ بول لے، کام بن جائے گا" یا "ایک نظر میں کیا حرج ہے؟" پھر شیطان، وہ وسوسہ گر جو تمہارے کمزور وقت میں دلیلیں بھی لا دیتا ہے: "دنیا سب یہی کرتی ہے، تم کیوں پیچھے رہو؟" پھر ماحول، وہ دوست جو تمہیں چھیڑ کر سیدھی دیوار سے بھی دھکا دے دیں، وہ ایپس جو تمہیں لگاتار کھینچتی رہیں، وہ مارکیٹنگ جو تمہارے اندر کی تشنگی پہچان کر نمکین پانی پلاتی ہے کہ پیو تو پیاس بڑھ جائے۔ پھر کبھی وقت خود دھکا بن جاتا ہے، عجلت، آخری تاریخ، جلدی جلدی میں وہ فیصلہ جو بعد میں من کی عدالت میں مجرم قرار پاتا ہے۔ اس لیے شاعر نے کہا "دھکا دینے والے بہت ہیں"، کہ آنکھ کھلی رہے، دھوکا نہ کھاؤ، دھکا کبھی دشمن نہیں، اکثر عادت کی شکل میں دوست بن کر آتا ہے۔

عبدالرحمان، تمہارا سوال یہ ہوگا کہ "ہاتھ پکڑنے والا صرف تُو(رب) ہی کیوں؟ کیا انسان ایک دوسرے کا سہارا نہیں ہوتے؟"

ہوتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ مگر سنو، فرق سمجھو۔ آدمی کا سہارا وسیلہ ہے، اصل سہارا رب ہے۔ لوگ تھامتے ہیں، مگر ان کے ہاتھ بھی لرزتے ہیں، لوگ راستہ بتاتے ہیں، مگر خود کبھی کبھی بھٹک جاتے ہیں۔ اللہ وہ ہے جو نہ سوئے، نہ تھکے، نہ ہاتھ چھوڑے۔ ماں کی محبت بہت بڑی ہے، مگر وہ بھی ایک دن آنکھ بند کر لیتی ہے۔ دوست کاندھا دیتے ہیں، مگر کبھی اُن کے کندھے بھی بوجھ سے دُکھ جاتے ہیں۔ خالق کا کاندھا نہیں ہوتا، کُن کا امر ہوتا ہے: "ہو جا" اور ہو جاتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا: بندہ سب سے مدد مانگ لے، پھر بھی قرار نہ آئے اور کبھی تنہائی کے ایک سجدے میں رب کے سامنے سر رکھ دے، دو آنسو بَہ جائیں اور اندر ایسا سکون بھر جائے کہ جالوں جیسے ڈر، بڑے بڑے پتھروں کی طرح اُکھڑ کر گر جائیں۔ ہاتھ کس نے پکڑا؟ وہ جس کے ہاتھ نظر نہیں آتے مگر ساری ڈوریں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔

ایک حکایت سنو، سہارا کیسے ملتا ہے؟

ایک شاگرد کو مرشد نے برفانی وادی کی لکیر دار ڈھلان دکھائی، بولے: "آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلنا، میری آواز پہ قدم رکھنا"۔ شاگرد لرز گیا: "حضرت! میں اندھا ہو جاؤں گا پٹی سے اور رستہ پھسلواں بھی!" مرشد نے کہا: "یقین کی مشق یہی ہے، آواز پہ چلنا، منظر پہ نہیں"۔ شاگرد نے پٹی باندھی، آواز آئی: "دائیں پاؤں آہستہ، ٹھہرو، اب بائیں آہستہ، بس!" چند قدم بعد دل سنبھل گیا۔ پٹی اُتاری تو دیکھا: دائیں طرف کھائی تھی، بائیں طرف برف کی تہ بہتی تھی، اگر مرشد کی آواز پر کان ڈھیلے پڑتے تو بس ایک پھسلن کافی تھی۔ مرشد نے مسکرا کر کہا: "زندگی میں جب جب اندھیرا اور پھسلن ساتھ آئیں، رب کے کلام کو مرشد بنا لینا، دل کی زبان سے، اِھُدِنَا الصِّرَاطَ الُمُسُتَقِیم کہہ لینا۔ آواز اُسی کی ہو، قدم تمہارے ٹھہر جائیں گے"۔ عبدالرحمان، یہی راز ہے: اندھی آنکھ کو آوازِ ہدایت راستہ دیتی ہے اور وہ آواز ذکر، قرآن، دعا اور سنت کی صورت میں ہر وقت دستیاب ہے۔

اب سوچو کہ عملی طور پر "ہاتھ پکڑانا" کیسا لگتا ہے؟

یوں سمجھ لو: صبح جلدی اُٹھنے کا ارادہ ہے، مگر کمزوری رکھتی ہے، گھڑی بجتی ہے، نفس دھکا دیتا ہے: "پانچ منٹ اور"، وہاں تم کہو: "اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی"، اللہ میری مدد فرما اور بستر سے اٹھ بیٹھو۔ یہ ہاتھ پکڑانا ہے۔ کسی میٹنگ میں سچ بولنا نقصان دے سکتا ہے، نفس دھکا دیتا ہے: "چلو بات موڑ دو، کسی اور پہ ڈال دو"، وہاں تم زیرِ لب "لا حول ولا قوۃ الا باللہ" کہو اور سچ بول دو۔ یہ ہاتھ پکڑانا ہے۔ فون تمہیں رات گئے برے مواد کی طرف لے جا رہا ہے، دھکا دینے والے بہت ہیں، ایپ، عادت، تنہائی، وہاں تم سورۂ اخلاص پڑھ کر فون دور رکھ دو، بس۔ یہ ہاتھ پکڑانا ہے۔ رب کا ہاتھ نظر تو نہیں آتا، مگر فیصلوں کے اندر ایک نرم قوت آ جاتی ہے اور بندہ پھسلنے لگے تو اچانک رک جاتا ہے، جیسے انگلیوں میں کوئی پوشیدہ گرفت لگ گئی ہو۔

عبدالرحمان، اگر پھر بھی گر جاؤں تو؟

سننے والی بات یہ ہے کہ گرنا انجام نہیں، سنبھلنا بھی تقدیر کا حصہ ہو سکتا ہے۔ رب کی شان یہ نہیں کہ وہ صرف کاملوں کا ہاتھ پکڑے، وہ تو ٹوٹے ہوؤں کو چنتا ہے۔ گر پڑو تو اسی وقت "استغفراللہ" کہہ کر دل کی جھاڑ پونچھ کر لو، پانی پی لو، دو رکعت پڑھ لو، دیکھو کیسی چمک لوٹتی ہے۔ شرمندگی کو رکاوٹ مت بناؤ، شرمندگی کو پل بنا لو۔ شیطان کہتا ہے: "تو گِر گیا ہے، اب تیرے لیے کچھ نہیں"، رب کہتا ہے: "تو گِرا ہے، اسی لیے تو میرے زیادہ قریب ہے، آ، میں اُٹھا دوں گا"۔ میاں صاحب کا "ہاتھ پکڑنے والا تو صرف تُو" اسی دروازے پر دستک ہے۔

اب سوال یہ کہ میں اکیلا ہوں، دنیا بہت زور سے دھکے دیتی ہے، اس میں کمی کیسے ہو؟

عبدالرحمان، خود کو تنہاپن کے اندھیرے سے نکالو۔ صحبت بدل لو، دو ایسے لوگ پاس رکھو جن کے سامنے تم اپنے کمزور لمحے بھی رکھ سکو اور وہ تمہیں اللہ کی طرف موڑ دیں۔ ماحول میں چھوٹے فیصلے کرو، اطلاعات کے شور کو کم کرو، رات کو موبائل دور رکھو، خریداری میں ضرورت کو پیمانہ بناؤ۔ جسم کا حق ادا کرو، کمزوری اکثر جسمانی تھکن سے بھی جنم لیتی ہے، سادہ کھانا، چند منٹ کی واک اور وقت پہ نیند دل کو پھسلن سے کمزور نہیں ہونے دیتی۔ یہ سب ظاہری باتیں ہیں، مگر اندرونی ٹھہراؤ کے لیے زینہ ہیں۔ یاد رکھو، اللہ کے سہارے کے ساتھ وسیلوں کی ترتیب بھی اسی کی سنت ہے، ناؤ کو رسی سے باندھنا بندے کا کام، ہوا سازگار کرنا رب کا کام۔

عبدالرحمان، تم کہو گے کہ کیا یہ کیفیت ہمیشہ رہے گی کہ میں اندھا ہوں اور راستہ پھسلواں؟

نہیں، جب بصیرت جاگتی ہے تو اندھاپن کم ہوتا ہے، جب استقامت آتی ہے تو پھسلن کم لگتی ہے۔ مگر یہ دنیا امتحان ہے، برف کہیں نہ کہیں پڑی رہتی ہے۔ صوفی کہتا ہے: "منزل تک پہنچنے والا وہی ہے جس نے پھسلن کو نہ بہانہ بننے دیا، نہ غرور"۔ بہانا بنتا ہے تو بندہ چلنا چھوڑ دیتا ہے، غرور بنتا ہے تو بندہ بھاگ کر گرتا ہے۔ میانہ روی یہی ہے کہ آدمی آہستہ، مگر مسلسل چلتا رہے، رب کے ذکر کی رسی تھامے، نبی کریم ﷺ کی سنت کے نشانوں پر قدم رکھتے ہوئے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ پھسلن بھی سبق بن جاتی ہے اور اندھیری رات بھی راہ کی نشانی، کیونکہ جو کچھ ڈراتا تھا، وہی یادِ خدا کا ذریعہ بن گیا۔

آخری بات، عبدالرحمان، دل کے نام خط

جب کبھی تم اندر سے کہو: "میں اندھا ہوں"، تو اس اعتراف میں شرم مت محسوس کرنا، یہی سچائی رب کو پسند ہے۔ جب کبھی راستہ چکنا لگے، تو قدم ہلکا کر لو، رفتار کم کر لو، زبان پر رب کا نام رکھ لو۔ لوگ دھکا دیں، تو اُن کی نیتوں کا حساب نہ کرنے لگنا، اپنی رسی مضبوط کرنے لگنا اور جب دل بہت گھبرا جائے تو بس اتنا کہہ دینا: "یا رب، میں تیرے سوا کسی کو نہیں جانتا جس کے ہاتھ مضبوط ہوں، مجھے پکڑ لے"۔ دیکھو گے، اندر ایک نادیدہ گرفت سی لگ جائے گی، سانس ہموار ہو جائے گی اور تم پھسلتے ہوئے بھی گرنے سے بچ جاؤ گے۔ یہی تو راز ہے ان دو سطروں کا: بندہ اپنی کمزوری مان لے، دنیا کی پھسلن پہ نظر رکھے، دھکوں کی حقیقت پہ ہوشیار رہے اور پھر سہارے کا واحد سرچشمہ پہچان لے۔ جو ہاتھ وہاں تھام لیا جائے، وہ ہاتھ یہاں نہیں چھوٹتا اور جس دل کو وہاں سے آوازِ ہدایت مل جائے، اس کے لیے اندھیرا بھی راستہ بن جاتا ہے، پھسلواں رستہ بھی پل بن جاتا ہے۔

باقی پھر

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan