Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (3)

Mian Muhammad Baksh (3)

میاں محمد بخش (3)

ڈیر عبدالرحمان۔

چلو، پانچواں اور چھٹا شعر پڑھتے ہیں:

جو جو رزق کسے دا کیتوس، لکھیا کدے نہ ٹالے
لکھ کروڑ تکے برائیاں، فیر وی اوویں پالے

Whoever provisions He has decided for anybody, that written He never cancels.
Even seeing tens of millions of faults, He nourishes as before

عبدالرحمان، سب سے پہلے یہ سوال سمجھو۔ یہ کھانا جو تمہارے دسترخوان پر ہے، یہ کپڑے جو تم پہنے ہوئے ہو، یہ مکان جس میں بیٹھے ہو، یہ سب کہاں سے آیا؟ تم کہو گے: بابا، ہم نے کمایا ہے، نوکری کی ہے، کاروبار کیا ہے۔ لیکن میں تمہیں کہتا ہوں: یہ سب ظاہری وسیلے ہیں، اصل رزق دینے والا اللہ ہے۔

میاں صاحب فرماتے ہیں: "جس کے لیے اللہ نے رزق لکھ دیا ہے، وہ کبھی منسوخ نہیں ہوتا"۔ یعنی جو کچھ تمہیں ملنا ہے، وہ تم تک ضرور پہنچے گا۔ کوئی اسے چھین نہیں سکتا، کوئی تمہیں روک نہیں سکتا۔ تمہارے لیے جو لکھا گیا ہے وہ تمہیں مل کر رہے گا۔

عبدالرحمان، جب ایک بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو کیا وہ اپنی محنت سے رزق کماتا ہے؟ نہیں۔ پھر بھی اللہ اسے ماں کے خون سے غذا دیتا ہے اور جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ اس کے رزق کا انتظام ماں کے دودھ کی صورت میں کر دیتا ہے۔ یہ کون سا کاروبار ہے؟ یہ کون سی نوکری ہے؟ یہ اللہ کا رزق ہے جو اس نے اپنے بندے کے لیے لکھ دیا ہے۔

اسی طرح جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو اللہ اس کے لیے کبھی نوکری کا دروازہ کھول دیتا ہے، کبھی کسی کا دل نرم کر دیتا ہے، کبھی کاروبار میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ رزق اللہ کی طرف سے ہے۔

اب تم کہو گے: بابا، اگر سب رزق لکھا ہوا ہے تو پھر محنت کیوں کریں؟ ہم کیوں صبح سویرے اٹھیں، کیوں پسینہ بہائیں، کیوں دن رات کام کریں؟

عبدالرحمان، یہ سوال بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ رزق تو لکھا ہوا ہے، لیکن اسے پانے کے لیے اللہ نے کچھ وسیلے بھی مقرر کیے ہیں۔ جیسے کھیت کے لیے بارش لکھ دی گئی ہے لیکن بیج تو کاشتکار کو ڈالنا ہوگا۔ اسی طرح انسان کو بھی محنت کرنی ہے، دروازے کھٹکھٹانے ہیں، کوشش کرنی ہے۔ لیکن یہ سب کوششیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب اللہ کا لکھا ہوا شامل ہو۔

یاد رکھو: کوشش تمہاری ہے، لیکن نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اب کوئی کہے گا: اگر ہم برے کام کریں، گناہ کریں، نماز نہ پڑھیں، تو کیا اللہ ہمارا رزق چھین لے گا؟

میاں صاحب نے اس کا جواب دوسرے مصرعے میں دیا ہے: "لاکھوں کروڑوں خطاؤں کے باوجود وہ بندے کو رزق دیتا رہتا ہے"۔

عبدالرحمان، یہ سنو اور حیران ہو جاؤ۔ انسان گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے، اللہ کو بھول گیا ہے، لیکن اللہ پھر بھی اسے کھلاتا ہے، پلاتا ہے، لباس دیتا ہے۔ یہ اللہ کی شانِ رحمت ہے۔ اگر اللہ انسان کی خطاؤں کی وجہ سے رزق روک دیتا تو زمین پر کوئی نہ بچتا۔ لیکن وہ تو رحیم ہے، کریم ہے، خطاؤں پر بھی رزق دیتا رہتا ہے۔

ایک قصہ سنو۔ ایک شخص تھا جو گناہوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ شراب پیتا، ظلم کرتا، دوسروں کا حق مارتا۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے۔ لیکن پھر بھی اس کے گھر میں کھانا پکتا تھا، اس کے بچے زندہ رہتے تھے۔ کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا: "یا شیخ! یہ کیسے ہے کہ اتنا گناہگار ہے مگر اللہ اسے رزق دے رہا ہے؟"

بزرگ نے کہا: "یہ اللہ کی رحمت ہے۔ اللہ رزق دینا اپنی رحمت سے کرتا ہے، گناہ دیکھ کر نہیں۔ اگر وہ گناہ دیکھ کر رزق روک دیتا تو زمین و آسمان کے درمیان کوئی زندہ نہ رہتا"۔

یہاں یہ سوال بھی آ سکتا ہے۔ اگر اللہ خطاؤں پر بھی رزق دیتا ہے تو پھر عبادت کی کیا ضرورت؟

عبدالرحمان، عبادت رزق کے لیے نہیں ہے، عبادت اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ رزق تو اللہ نے گناہگار کو بھی دینا ہے اور نیک کو بھی۔ لیکن عبادت سے دل کا رزق ملتا ہے، سکون ملتا ہے، معرفت ملتی ہے۔ کھانا تو سب کو ملتا ہے، لیکن دل کی خوشبو صرف ذکرِ الٰہی سے آتی ہے۔

آج کے دور میں لوگ رزق کے پیچھے پاگل ہیں۔ صبح سے شام تک دوڑتے ہیں، کئی نوکریاں کرتے ہیں، رات کو نیند بھول جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی دل میں بے سکونی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ رزق ہماری محنت کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر یہ مان لیں کہ رزق اللہ کی طرف سے ہے تو دل کا بوجھ کم ہو جائے۔ کوشش اپنی جگہ لیکن یقین ہو کہ "جو میرا ہے، وہ مجھے ملے گا"۔

عبدالرحمان، ایک پرندے کو دیکھو۔ صبح خالی پیٹ گھونسلے سے نکلتا ہے، پورا دن ادھر ادھر اڑتا ہے، بیج تلاش کرتا ہے، پھر شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے۔ کیا اس نے پہلے سے کوئی گودام بنا رکھا ہے؟ کیا اس کے پاس تنخواہ یا کاروبار ہے؟ نہیں۔ لیکن اللہ نے اس کا رزق لکھ دیا ہے، وہ بھوکا واپس نہیں لوٹتا۔

اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے پرندہ کرتا ہے تو اللہ تمہیں بھی رزق دے گا جیسے پرندے کو دیتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو بھر کر آتا ہے"۔

اب ایک اور سوال آتا ہے کہ دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ بہت امیر ہیں اور کچھ غریب۔ کیا یہ انصاف ہے؟

عبدالرحمان، یہ سوال مشکل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ہر ایک کا رزق الگ الگ لکھا ہے۔ لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ امیر اپنے مال میں سے دوسروں کو دے گا یا نہیں اور غریب شکر کرے گا یا نہیں۔ رزق کی مقدار اللہ کی حکمت ہے، لیکن دل کی حالت انسان کی ذمہ داری ہے۔

عبدالرحمان، غور کرو۔ میاں صاحب فرماتے ہیں کہ "اللہ لاکھوں کروڑوں خطاؤں کے باوجود بندے کو پالتا رہتا ہے"۔ یہ اس کی ربوبیت ہے۔ وہ بندے کو پیدا کرتا ہے، اسے بڑھاتا ہے، اسے پالتا ہے، چاہے وہ نیک ہو یا گناہگار۔ کوئی ماں بھی ایسی نہیں جو بچے کی خطاؤں پر اسے دودھ دینا بند کر دے۔ اللہ تو سب سے بڑھ کر مہربان ہے۔ وہ خطاؤں کے باوجود رزق دیتا ہے، تاکہ شاید بندہ شرمندہ ہو کر پلٹ آئے۔

عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے ہمیں یقین کا سبق دیا۔ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، جو لکھ دیا گیا ہے وہ کبھی منسوخ نہیں ہوتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں فکر کرنی ہے تو صرف اس بات کی کہ ہم شکر گزار ہیں یا نہیں۔ کیونکہ رزق تو ملنا ہی ہے، لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اس رزق کو کس طرح استعمال کرتے ہیں، ناشکری میں یا شکرکے ساتھ اور سنو صرف کھانا پینا رہنا بسنا ہی رزق نہیں بلکہ دل کا سکون بھی تو رزق ہے۔

واہ کریم امت دا والی، مہر شفاعت کردا
جبرایل جیہے جس چاکر، نبیوں دا سردردا

What a kind guardian (PBUH) of the Muslim Umma, he loves and intercedes.
The likes of Gabriel are in whose service, the leader of the Prophet

عبدالرحمان، تم سے پوچھتا ہوں: آج کے دور میں لوگ سہارا کہاں ڈھونڈتے ہیں؟ کوئی دولت میں، کوئی طاقت میں، کوئی عہدے میں۔ لیکن اصل سہارا کون ہے؟ میاں محمد بخشؒ جواب دیتے ہیں: وہ ہستی ﷺ جسے اللہ نے پوری امت کا نگہبان اور شفیع بنایا۔

رسولِ اکرم ﷺ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی امت کو اتنا چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن جب سب اپنے اپنے حال میں ہوں گے، وہ امت کی بخشش کے لیے اللہ کے حضور سجدے میں ہوں گے۔ سوچو عبدالرحمان! وہ نبی ﷺ جن پر امت کی لاکھوں کروڑوں خطائیں ظاہر ہوں گی، پھر بھی اپنی امت کے لیے سفارش کریں گے۔

ایک سوال دل کو چھو لیتا ہے۔ ہم گناہوں میں ڈوبے ہیں، سنتوں کو بھلا دیا ہے، نمازیں چھوڑ دیتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ ﷺ ہمیں چاہتے ہیں۔ کیوں؟

عبدالرحمان، یہ ان کی رحمت ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا: "وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين"، "ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔

رحمت یہ نہیں دیکھتی کہ کون گناہگار ہے، رحمت سب پر چھا جاتی ہے۔ جیسے بارش زمین کے اچھے اور برے حصے پر ایک جیسی برستی ہے، ویسے ہی نبی ﷺ کی شفقت سب کے لیے ہے۔

عبدالرحمان، ایک بار ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہا: "یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کہاں ہوں گے تاکہ میں آپ کو ڈھونڈ سکوں؟"

آپ ﷺ نے فرمایا: "میں حوضِ کوثر پر ہوں گا، اپنی امت کے پیاسے لوگوں کو پانی پلا رہا ہوں گا"۔

عبدالرحمان، سوچو! یہ کتنا بڑا سہارا ہے کہ قیامت جیسے خوفناک دن میں جہاں کوئی کسی کو نہ پہچانتا ہوگا، وہاں حضور ﷺ اپنی امت کو یاد رکھیں گے، ان کے لیے کھڑے ہوں گے، ان کو پکاریں گے۔ یہ ہے وہ نگہبان جو ہماری فکر میں ہیں۔

اب اگلے مصرعے کی طرف آؤ۔ میاں صاحب فرماتے ہیں: "وہ ﷺ جن کی خدمت میں جبرائیلؑ جیسے فرشتے ہیں، وہ تمام نبیوں کے سردار ہیں"۔

عبدالرحمان، یہ سوال اہم ہے: ایک طرف نبی ﷺ امت کے لیے اتنے نرم دل ہیں اور دوسری طرف ان کی شان یہ ہے کہ جبرائیلؑ جیسے مقرب فرشتے ان کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں۔

فرشتے نورانی مخلوق ہیں، جنہیں اللہ نے خطا سے پاک بنایا۔ جبرائیلؑ وہ فرشتہ ہیں جو اللہ کا کلام لے کر نبیوں کے پاس آتے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ وہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وحی لے کر آئے، حکم لے کر آئے اور بارہا عرض کیا: "یا رسول اللہ، اللہ نے آپ کو سلام بھیجا ہے"۔

عبدالرحمان، ایک سوال یہ بھی ہے۔ اگر محمد ﷺ سب نبیوں کے سردار ہیں تو باقی انبیاء کا کیا مقام ہے؟

یاد رکھو، ہر نبی اپنی امت کے لیے رہنما تھے، لیکن محمد مصطفیٰ ﷺ پوری انسانیت کے لیے نبی ہیں۔ ہر نبی اپنی قوم کے لیے آئے، لیکن حضور ﷺ سب جہانوں کے لیے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں"سید المرسلین" کہا جاتا ہے۔

عبدالرحمان، معراج کی رات کا واقعہ سنو۔ جب حضور ﷺ سات آسمانوں پر گئے تو ہر آسمان پر ایک نبی نے ان کا استقبال کیا۔ حضرت موسیٰؑ نے کہا: "امت کا خیال رکھنا، وہ مشکل میں پڑے گی"۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا: "یہ وہ بیٹا ہے جس کی بشارت میں نے دی تھی" اور جبرائیلؑ نے کہا: "یا رسول اللہ، یہاں سے آگے میں نہیں جا سکتا۔ صرف آپ جا سکتے ہیں"۔

یہی وہ شان ہے جو میاں محمد بخشؒ کے اشعار میں جھلکتی ہے، وہ نبی ﷺ جو سردار الانبیاء ہیں اور جن کی خدمت میں فرشتے بھی ادب سے کھڑے رہتے ہیں۔

اب عبدالرحمان، شاید تم کہو: یہ سب تو بہت بڑی باتیں ہیں، لیکن اس کا ہماری روزمرہ زندگی سے کیا تعلق؟

عبدالرحمان، تعلق یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ امت کے شفیع ہیں، اگر وہ ہماری خطاؤں پر بھی دعا کرتے ہیں، تو ہمیں بھی ان کی سنت پر چلنا چاہیے۔ اگر وہ ہماری فکر کرتے ہیں تو ہمیں بھی اپنی زندگی کو ان کی محبت اور اطاعت سے سنوارنا چاہیے۔

یاد رکھو: محبت کا حق یہ ہے کہ ہم ان کی بات مانیں۔ اگر ہم ان کی محبت کے دعوے دار ہیں مگر ان کی سنت کو چھوڑ دیں تو یہ محبت ادھوری ہے۔

عبدالرحمان، آج کے مسلمان مشکلات میں ہیں، پریشانیوں میں ہیں، دنیا میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات چھوڑ دی ہیں۔ ہم نے ان کی سنت کو فراموش کر دیا ہے۔ لیکن اگر ہم پھر سے ان کی طرف لوٹ آئیں، ان کی سیرت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، تو یہی شفاعت، یہی محبت ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنے گی۔

باقی آئندہ

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan