Sunday, 14 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (21)

Mian Muhammad Baksh (21)

میاں محمد بخش (21)

اچّی جائی نیونہہ لَگایا، بنی مُصیبت بھاری
یاراں باہجھ محمد بخشا کَون کرے غمخواری؟

I fell in love with a lofty one and have found myself in deep trouble
Without friends, O Muhammad Baksh, who can console me

جی عبدالرحمان، آج ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو بھرپور درد اور سوز سے بھرے ہوئے مصرعوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ مصرعے عاشق کے دل کی کیفیت بیان کرتے ہیں۔ یہاں شاعر نے عشق کی بلند چوٹی کو بیان کیا ہے، ایسا عشق جو عام نہیں بلکہ عظیم اور بلند ہستی کے ساتھ ہے۔ لیکن اس عشق نے اسے آزمائشوں میں ڈال دیا ہے اور تنہائی نے اس دکھ کو اور بڑھا دیا ہے۔ پھر شاعر سوال کرتا ہے کہ بغیر دوست اور ہمراز کے، آخر اس کے زخموں پر مرہم کون رکھے؟

جانتے ہو کہ "میں نے ایک بلند ہستی سے عشق کیا"، اس کا کیا مطلب ہے؟

عبدالرحمان، "lofty one" یعنی وہ بلند ہستی، یہاں کئی پہلو رکھتی ہے:

محبوبِ حقیقی (اللہ)، سب سے بلند اور عظیم ذات، جس کا عشق انسان کے دل کو کھینچ لیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ، وہ محبوب جن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔

روحانی مرشد یا ولی، جن کی محبت دل کو پاک کرتی ہے۔

یہ عشق عام محبت نہیں، بلکہ وہ بلند عشق ہے جو انسان کو دنیاوی سکون سے ہٹا کر ایک نئے سفر پر ڈال دیتا ہے۔ یہ سفر مشکل ہے کیونکہ اس میں نفس ٹوٹتا ہے، دنیاوی خواہشات جلتی ہیں اور دل مسلسل تڑپتا ہے۔

جانتے ہو کہ "عشق نے مجھے مصیبت میں کیوں ڈال دیا؟"

عبدالرحمان، عشق کی راہ آسان نہیں۔ دنیاوی محبت وقتی سکون دیتی ہے، لیکن اللہ یا کسی بلند ہستی کا عشق انسان کے پورے وجود کو بدل دیتا ہے۔ یہ عشق نفس کے خلاف ہے، دنیا کے خلاف ہے۔ اسی لیے عاشق کو دکھ سہنے پڑتے ہیں۔

صوفیاء کہا کرتے تھے: "عشق وہ آگ ہے جو عاشق کے دل کو جلا کر پاک کر دیتی ہے"۔

یہ آگ تکلیف دیتی ہے، لیکن اسی تکلیف سے عاشق بلند ہوتا ہے۔

جانتے ہو کہ "بغیر دوست کے کون تسلی دے؟"

عبدالرحمان، عشق کا سفر تنہائی کا سفر ہے۔ عام لوگ عاشق کی کیفیت نہیں سمجھ پاتے۔ وہ اس کے درد پر ہنستے ہیں یا اسے پاگل سمجھتے ہیں۔ اس لیے عاشق کہتا ہے: میرے دکھ کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو خود عاشق ہو۔ اگر کوئی ہمراز دوست ساتھ نہ ہو تو یہ بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے صحبتِ نیکاں کو ضروری کہا ہے۔ کیونکہ دوست ہی وہ ہوتا ہے جو دل کی حالت کو سمجھتا ہے اور تسلی دیتا ہے۔

جانتے ہو کہ "یہ تسلی کس سے مل سکتی ہے؟"

عبدالرحمان، یہ تسلی تین جگہ سے مل سکتی ہے:

محبوب سے قربت، جب دل اللہ کی یاد میں جڑتا ہے تو سکون ملتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی محبت، ان کی سنت اور ذکر سے دل کو مرہم ملتا ہے۔

دوست و مرشد کی صحبت، جو دکھ بانٹتا اور تسلی دیتا ہے۔

قرآن کہتا ہے: "ألا بذكر الله تطمئن القلوب" (الرعد: 28)

"یاد رکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں"۔

جانتے ہو کہ "یہ شعر آج کے انسان کو کیا سکھاتا ہے؟"

عبدالرحمان، آج کے انسان کے پاس ہر سہولت ہے لیکن دل خالی ہے۔ وہ محبت کی تلاش میں ہے مگر اصل محبت نہیں پاتا۔ ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: اگر محبت کرنی ہے تو کسی بلند ہستی سے کرو، مگر یاد رکھو کہ یہ راستہ آسان نہیں۔ اس میں دکھ بھی ہیں، تنہائی بھی ہے۔ لیکن اسی محبت میں سکون ہے۔

یہ شعر یہ بھی سکھاتا ہے کہ انسان کو دوست اور ہمراز کی ضرورت ہے جو اس سفر میں سہارا بنے۔ ورنہ تنہائی میں دکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

عبدالرحمان، دنیاوی مثال دیکھو۔ مجنوں نے لیلیٰ سے محبت کی تو لوگ اسے پاگل سمجھنے لگے۔ لیکن اس کی حالت کو صرف وہی سمجھ سکتا تھا جو عشق کی آگ میں جل چکا ہو۔ یہی حال روحانی عشق کا ہے۔ عاشق اپنے دکھ کو بیان کرے تو عام لوگ ہنس دیتے ہیں، لیکن دوسرے عاشق اس کے درد کو سمجھ کر اس کا سہارا بن جاتے ہیں۔

جانتے ہو کہ "عملی زندگی میں اس نصیحت پر کیسے عمل کیا جائے؟"

عبدالرحمان، اس پر عمل کرنے کے لیے:

محبت کو صرف دنیاوی لذت نہ سمجھو بلکہ روحانی سکون تلاش کرو۔

اپنے آپ کو نیک صحبت میں رکھو تاکہ دل کو تسلی ملے۔

دعا کرو کہ اللہ تمہیں ایسا دوست عطا کرے جو تمہارے دکھ کو سمجھے۔

محبت کو صبر اور شکرکے ساتھ گزارو تاکہ یہ آزمائش تمہیں پاکیزہ بنائے

عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے عشق کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک بلند ہستی سے عشق کیا اور اس نے مجھے مشکلات میں ڈال دیا۔ لیکن مشکل کے باوجود دل اسی عشق میں لگا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ بغیر دوست اور ہمراز کے یہ دکھ سہنا مشکل ہے، کیونکہ تسلی صرف وہی دے سکتا ہے جو اس راہ کا مسافر ہو۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ بلند محبت آسان نہیں، لیکن یہی انسان کو اصل سکون دیتی ہے اور انسان کو چاہیے کہ نیک دوست اور ہمراز تلاش کرے جو اس سفر میں ساتھ دے۔

Check Also

Iqra Liaqat Ki Kamyabi Ki Kahani

By Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi