Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (2)

Mian Muhammad Baksh (2)

میاں محمد بخش (2)

ڈیر عبدالرحمان۔

آگئے چلتے ہیں، تیسرا اور چوتھا شعر پڑھتے ہیں:

ایس عجائب باغے اندر آدم دا رکھ لایا
معرفت دا میوہ دے کے واہ پھلدار بنایا

In this wonderful garden He planted the plant of Adam.
With the fruits of His recognition, adorned it with wonderful fruits

عبدالرحمان، میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں: کبھی تم نے ایک خشک کھیت دیکھا ہے؟ جب کئی مہینوں تک بارش نہ ہو، جب نہر کا پانی بند ہو جائے، جب سورج اپنی تپش سے زمین کو جلائے، تو کھیت کس حال میں آتا ہے؟ گھاس سوکھ جاتی ہے، پتے زرد ہو جاتے ہیں، زمین پھٹ کر دراڑوں سے بھر جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کھیت مر چکا ہو۔ لیکن پھر ایک دن بارش برستی ہے۔ پانی کے قطرے اس کھیت پر گرتے ہیں اور اچانک سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو جاتے ہیں، گھاس اگ آتی ہے، خوشبو پھیل جاتی ہے۔

یہی مثال انسان کے دل کی ہے۔ جب دل پر گناہوں کی گرد جم جائے، جب پریشانیوں کا بوجھ اسے توڑ دے، جب دنیا کی دوڑ اسے تھکا دے، تو دل خشک کھیت کی طرح ہو جاتا ہے۔ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں، خواہشیں مرجھا جاتی ہیں، زندگی بے ذائقہ لگنے لگتی ہے۔ ایسے وقت میں صرف اللہ کی رحمت ہے جو دل کو پھر سے زندہ کرتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دل کیوں سوکھ جاتا ہے؟

عبدالرحمان، تم کہو گے کہ دل تو ایک جسمانی عضو ہے، یہ کیسے سوکھتا ہے؟ میں تمہیں بتاؤں، دل کا سوکھنا یہ ہے کہ انسان کے اندر سے محبت ختم ہو جائے، صبر ختم ہو جائے، دوسروں کے لیے خیرخواہی ختم ہو جائے۔ جب انسان صرف دنیا کی لذتوں کے پیچھے بھاگتا ہے اور رب کو بھول جاتا ہے تو اس کا دل سوکھ جاتا ہے۔

سوچو، آج کتنے لوگ ہیں جو بڑی بڑی گاڑیاں چلاتے ہیں، بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں، مگر ان کے دلوں میں سکون نہیں۔ وہ رات کو نیند کی گولی کھا کر سوتے ہیں، وہ دن کو ڈپریشن کی دوا لیتے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ دل اللہ کی یاد سے خالی ہے۔ یہی خالی پن سوکھا پن ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دل کے اس سوکھے پن کو کیسے دور کیا جائے؟ میاں صاحب دعا کرتے ہیں: "اے اللہ! اپنی رحمت کی بارش برسا دے، تاکہ میرا باغ ہرا ہو جائے"۔  یہ رحمت کی بارش کیا ہے؟ یہ اللہ کی طرف سے نرمی ہے، یہ اس کا فضل ہے جو بندے کو یاد دلاتا ہے کہ تم اکیلے نہیں ہو، تمہارا رب تمہارے ساتھ ہے۔

رحمت کی بارش کبھی ایک دعا کی قبولیت میں آتی ہے، کبھی ایک نیک دوست کے مشورے میں، کبھی ایک قرآن کی آیت پڑھنے میں، کبھی ایک آنسو بہانے میں۔ یہ بارش کبھی مسجد کے سجدے میں ملتی ہے اور کبھی ماں کی دعا میں۔ جب یہ بارش دل پر برستی ہے تو وہ دل زندہ ہو جاتا ہے۔

عبدالرحمان، دیکھو میاں صاحب آگے فرماتے ہیں: "میرے دل کی خواہشوں کے پودے کو پھل دار بنا دے"۔  اب تم سوچو گے کہ خواہشوں کا پودا کیا ہے؟ ہر انسان کے دل میں کچھ خواب ہوتے ہیں۔ کسی کا خواب ہے کامیاب ہونا، کسی کا خواب ہے عزت پانا، کسی کا خواب ہے سکون کی زندگی۔ یہ سب پودے کی طرح ہیں جو دل کی زمین میں لگائے گئے ہیں۔ لیکن یہ پودے اس وقت تک بے کار ہیں جب تک اللہ کی رحمت ان پر نہ برسے۔ کیونکہ کبھی خواب پورے ہو جاتے ہیں مگر برکت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص بہت دولت کما لیتا ہے لیکن سکون نہیں ملتا۔ کوئی بڑا عہدہ پا لیتا ہے لیکن اندر سے خالی رہتا ہے۔ تو اصل پھل وہ ہے جو اللہ کی رحمت سے لگے۔ جب خواہشات اللہ کی رضا کے ساتھ مل جائیں تو وہ پھل بن جاتی ہیں۔

عبدالرحمان، آج کل کے لوگ دل کے سکون کے لیے عجیب عجیب چیزوں کا سہارا لیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سکون یوگا میں ہے، کوئی کہتا ہے کہ سکون مہنگے سفر میں ہے، کوئی کہتا ہے کہ سکون دوائیوں میں ہے۔ لیکن یہ سب وقتی ہیں۔ سکون تب آتا ہے جب دل اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ یہی وہ بارش ہے جسے میاں صاحب نے "رحمت کی بارش" کہا۔

ذرا سوچو، ایک شخص جو سارا دن بھاگ دوڑ کرتا ہے، رات کو سجدے میں گر کر کہتا ہے: "اے اللہ! میرا دل تھک گیا ہے، مجھے اپنی رحمت دے دے"۔ اس کے دل پر جو سکون اترتا ہے، وہ کسی بھی علاج، کسی بھی دنیاوی عیش میں نہیں مل سکتا۔

میں تمہیں ایک پرانی حکایت سناتا ہوں۔ ایک کسان تھا جس کے کھیت کئی برس سے خشک تھے۔ اس نے بار بار بیج ڈالا لیکن کچھ نہیں اگا۔ وہ تھک کر اللہ سے دعا کرنے لگا: "یا اللہ! بارش برسا دے"۔ ایک دن بادل چھائے، بارش برسی اور کھیت ہرا ہوگیا۔ وہ کسان خوش ہوگیا۔ لیکن ایک صوفی بزرگ جو قریب ہی رہتے تھے، انہوں نے کہا: "اے کسان! یہ تو تیرے کھیت کی بارش ہے، اصل بارش تو دل پر برسنی چاہیے"۔ کسان نے حیران ہو کر پوچھا: "دل پر بارش کیسے برستی ہے؟" بزرگ نے کہا: "جب آنکھ سے آنسو نکلیں اور رب کو یاد کیا جائے، وہی بارش ہے جو دل کو سرسبز کرتی ہے"۔

یہی وہ حکایت ہے جو میاں صاحب کے اشعار کو سمجھاتی ہے۔ دنیا کے کھیت کو بارش ہرا کرتی ہے اور دل کے کھیت کو اللہ کی رحمت۔

تو عبدالرحمان، ان دو مصرعوں کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل کی اصل زندگی اللہ کی رحمت میں ہے۔ جب رحمت برستی ہے تو دل کا باغ ہرا ہو جاتا ہے۔ خواب حقیقت کا روپ دھارتے ہیں اور زندگی میں برکت آتی ہے۔ لیکن اگر رحمت نہ ہو تو دل چاہے دنیا کی سب چیزیں پا لے، پھر بھی سوکھا اور بے ذائقہ رہتا ہے۔

اگلا شعر پڑھتے ہیں

آپ مکانوں خالی، اس تھیں کوئی مکان نہ خالی
ہر ویلے، ہر چیز محمّد رکھدا نت سنبھالی

Free of any dwelling Himself, no dwelling is free of Him.
All the time، all the things, Muhammad, He keeps in good order

عبدالرحمان، تم سے ایک سوال کرتا ہوں: خدا کہاں ہے؟

لوگ مختلف جواب دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے آسمان پر ہے، کوئی کہتا ہے دل میں ہے، کوئی کہتا ہے مسجد میں ہے، کوئی کہتا ہے خانقاہ میں ہے۔ لیکن میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں کہ اللہ کسی ایک مکان میں بند نہیں، مگر کوئی مکان اس سے خالی بھی نہیں۔

یہ کیسا جملہ ہے عبدالرحمان! بظاہر تو متضاد لگتا ہے۔ کوئی کہے گا: اگر وہ مکانوں سے پاک ہے تو پھر ہر مکان میں کیسے ہے؟ لیکن یہی تو اللہ کی شان ہے کہ وہ کسی ایک جگہ کا محتاج نہیں، مگر ہر جگہ اس کی قدرت اور موجودگی کا جلوہ ہے۔

میں تمہیں ایک مثال دیتا ہوں۔ کیا تم نے ہوا کو کبھی دیکھا ہے؟ نہیں۔ لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہوا نہیں ہے؟ نہیں عبدالرحمان، کیونکہ ہر لمحے تم اس کی موجودگی کو محسوس کرتے ہو۔ سانس اندر لو تو ہوا ہے، باہر نکالو تو بھی ہوا ہے۔ تمہیں نظر نہیں آتی مگر ہر طرف پھیلی ہے۔

اسی طرح خوشبو ہے۔ تم پھول کو ہاتھ میں لو تو خوشبو نظر نہیں آتی، لیکن تمہاری ناک اسے فوراً پہچان لیتی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ خوشبو نہیں؟ نہیں، کیونکہ اس کا اثر موجود ہے۔

یہی حال اللہ کی ذات کا ہے۔ وہ نظر نہیں آتا، کسی ایک جگہ میں محدود نہیں، لیکن اس کے آثار، اس کی قدرت کے نشان ہر طرف ہیں۔ ہر ذرے میں، ہر شے میں۔

عبدالرحمان، اب یہ سوال آتا ہے: اگر اللہ ہر جگہ ہے تو پھر ہم مسجد کیوں جاتے ہیں؟ کعبہ کا طواف کیوں کرتے ہیں؟ خانقاہوں میں ذکر کیوں ہوتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تو ہر جگہ ہے، لیکن انسان کا دل غافل ہے۔ عبادت گاہیں، مساجد اور مخصوص مقامات ہمیں یاد دلاتے ہیں، ہماری توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ جیسے سورج کی روشنی ہر طرف ہے، لیکن اگر تم اسے عدسے سے گزارو تو ایک نقطے پر اتنی شدت پیدا ہوتی ہے کہ آگ لگا دیتی ہے۔ اسی طرح اللہ ہر جگہ ہے لیکن جب ہم مسجد میں جاتے ہیں، سجدے میں جاتے ہیں تو ہماری توجہ ایک نقطے پر مرکوز ہوتی ہے اور دل روشن ہو جاتا ہے۔

میاں صاحب فرماتے ہیں: "اللہ خود مکان سے پاک ہے"۔ یعنی اسے کسی جگہ کی ضرورت نہیں۔ وہ کسی قید کا محتاج نہیں۔ ہم انسان مکان کے محتاج ہیں، وقت کے محتاج ہیں، چیزوں کے محتاج ہیں۔ لیکن اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ سب سے بے نیاز ہے۔ نہ اسے نیند کی ضرورت ہے، نہ کھانے کی، نہ آرام کی، نہ کسی مکان کی۔

عبدالرحمان، سوچو! تمہاری زندگی مکانوں میں گزرتی ہے: گھر، اسکول، دفتر، ہسپتال، مسجد۔ اگر مکان نہ ہو تو تم زندگی گزار نہیں سکتے۔ لیکن اللہ مکان کا محتاج نہیں۔ وہ مکان بنانے والا ہے، اس میں رہنے والا نہیں۔

یہاں ایک نکتہ اور ہے۔ تم شاید سوچو: اگر اللہ ہر جگہ ہے تو کیا وہ برائی کی جگہ پر بھی ہے؟ جیسے شراب خانہ، جوا خانہ، یا ظلم کا منظر؟

عبدالرحمان، یہ فرق سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ کی ذات پاک ہے، برائی سے دور ہے۔ لیکن اس کی قدرت اور علم ہر جگہ ہے۔ وہ سب دیکھتا ہے، سب جانتا ہے۔ جیسے سورج کی روشنی ہر کمرے میں پڑتی ہے، چاہے وہ کمرہ صاف ہو یا گندا۔ روشنی کا قصور نہیں، کمرے کا حال مختلف ہے۔ اسی طرح اللہ کی موجودگی ہر جگہ ہے لیکن گناہ اور نیکی کے فرق کا تعلق انسان کے عمل سے ہے۔

اب دوسرا مصرعہ دیکھو: "ہر وقت، ہر چیز محمد ﷺ کے صدقے سے اللہ نے ترتیب دی ہے"۔

عبدالرحمان، یہ کتنا عظیم نکتہ ہے۔ اس کائنات کا نظام ایسے ہی نہیں چل رہا۔ سورج وقت پر نکلتا ہے، چاند اپنی گردش میں ہے، دن رات کا نظام ہے، بارش برستی ہے، پھل لگتے ہیں، بچے پیدا ہوتے ہیں، بزرگ دنیا سے جاتے ہیں، یہ سب اتفاق نہیں۔ یہ ایک ترتیب ہے، ایک نظام ہے اور یہ نظام اللہ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کے صدقے سے قائم رکھا ہے۔

تم پوچھو گے: بابا، نبی ﷺ تو چودہ سو برس پہلے دنیا میں آئے، کائنات تو اس سے پہلے بھی تھی۔ پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ ان کے صدقے سے ہے؟

عبدالرحمان، یہ راز ہے جو صرف اہلِ دل سمجھتے ہیں۔ نبی ﷺ اللہ کی سب سے پہلی مخلوق کے نور سے پیدا ہوئے۔ یعنی سب کچھ ان کے وسیلے سے ہے۔ قرآن میں بھی ہے کہ "اگر میں اپنے محبوب کو پیدا نہ کرتا تو کائنات کو پیدا نہ کرتا"۔ اس لیے یہ نظام محمد ﷺ کے صدقے سے قائم ہے۔

ایک بار ایک درویش سے پوچھا گیا: "یہ سورج کیوں نکلتا ہے؟" اس نے کہا: "محمد ﷺ کے صدقے میں"۔

پوچھا گیا: "یہ بارش کیوں برستی ہے؟" کہا: "محمد ﷺ کے صدقے میں"۔

پوچھا گیا: "یہ پھول کیوں کھلتے ہیں؟" کہا: "محمد ﷺ کے صدقے میں"۔

لوگ حیران ہوئے۔ درویش نے کہا: "اگر محبوب نہ ہوتے تو خالق کو یہ نظام بنانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ جب خالق نے محبوب کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو پوری کائنات کو ان کے لیے بچھا دیا"۔

اب تم کہو گے: ٹھیک ہے بابا، یہ تو بڑے بڑے صوفیانہ راز ہیں، لیکن اس کا ہماری زندگی سے کیا لینا دینا؟

عبدالرحمان، اس کا تعلق یہ ہے کہ اگر یہ کائنات نبی ﷺ کے صدقے سے قائم ہے تو پھر ہماری اصل کامیابی بھی ان کی پیروی میں ہے۔ جس طرح یہ زمین و آسمان ان کے وسیلے سے قائم ہیں، ویسے ہی ہماری نجات ان کے وسیلے سے ہے۔ جو ان کے نقشِ قدم پر چلے گا، وہ بھی زندگی کے نظام میں درست ہو جائے گا اور جو ان سے منہ موڑ لے گا، وہ بکھر جائے گا، جیسے بغیر مرکز کے تسبیح کے دانے بکھر جاتے ہیں۔

عبدالرحمان، آج کے انسان نے خدا کو نظرانداز کر دیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سائنس ہی سب کچھ ہے، ٹیکنالوجی ہی سب کچھ ہے۔ لیکن جب بیماری آتی ہے اور دوائیں کام نہیں کرتیں، جب زلزلہ آتا ہے اور عمارتیں گر جاتی ہیں، جب سیلاب آتا ہے اور ٹیکنالوجی بہا لے جاتا ہے، تب یاد آتا ہے کہ اصل مالک تو کوئی اور ہے۔

اسی طرح جب انسان اپنی خواہشوں کے پیچھے بھاگتا ہے مگر سکون نہیں ملتا، تب سمجھ آتا ہے کہ اصل سکون اللہ کی معرفت اور نبی ﷺ کی پیروی میں ہے۔ یہی سبق میاں محمد بخشؒ نے دیا۔

عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں ایک عظیم راز کھولا گیا ہے۔ اللہ مکانوں سے پاک ہے، مگر کوئی مکان اس سے خالی نہیں۔ اس کی قدرت ہر جگہ ہے، اس کا علم ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات کا نظام محمد ﷺ کے صدقے سے قائم ہے۔ اس لیے اگر تمہیں سکون، کامیابی اور اصل جیت چاہیے تو تمہیں اللہ کو ہر جگہ دیکھنا ہوگا اور اپنے نبی ﷺ کی پیروی کرنی ہوگی۔ یہی تمہاری دنیا کی کامیابی ہے اور یہی آخرت کی نجات۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan