Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (18)

Mian Muhammad Baksh (18)

میاں محمد بخش (18)

لکھے لیکھ اَزل دِے کہڑا کر تدبیر مٹاے؟
کئی امیر، وزیر، سیانے اس تقدیر کلاے

The writing of fate, who can erase with scheming?
Many rulers, ministers wise this fate has destroyed

عبدالرحمان، آؤ اب میاں محمد بخشؒ کے ان دو نہایت گہرے اور حقیقت کو بے نقاب کر دینے والے مصرعوں پر غور کرتے ہیں۔

یہ اشعار تقدیر اور انسان کی بے بسی کو سمجھاتے ہیں۔ ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ تقدیر کا لکھا کوئی چالاکی یا تدبیر مٹا نہیں سکتی۔ بڑے بڑے بادشاہ، وزراء اور عقل مند اپنی طاقت اور حکمت کے باوجود اسی تقدیر کے ہاتھوں خاک ہو گئے۔

جانتے ہو کہ "تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے؟"

عبدالرحمان، تقدیر وہ فیصلہ ہے جو اللہ نے ازل میں لکھ دیا۔ قرآن کہتا ہے: "ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها" (الحدید: 22)

"زمین اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ سب ایک کتاب میں لکھی جا چکی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں"۔

یعنی تقدیر کے فیصلے اللہ نے پہلے ہی لکھ دیے ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان، خواہ کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو، اس لکھے کو بدل نہیں سکتا۔

جانتے ہو کہ "پھر انسان کی محنت اور تدبیر کہاں گئی؟"

عبدالرحمان، محنت اور تدبیر کرنا ہمارا فرض ہے۔ لیکن اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تم بیج بوتے ہو، پانی دیتے ہو، مگر بارش نہ آئے تو فصل نہیں اگتی۔ یہاں تمہاری کوشش تقدیر سے ٹکرا گئی۔

یعنی کوشش تمہاری، فیصلہ اللہ کا۔ یہی توحید کی اصل ہے۔ بندہ اپنے حصے کا کرتا ہے لیکن دل سے یہ مانتا ہے کہ انجام اللہ کی تقدیر سے جڑا ہے۔

جانتے ہو کہ "بادشاہ اور وزیر بھی تقدیر کے سامنے بے بس ہیں"، یہ کیوں کہا گیا؟

عبدالرحمان، ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ دنیا کے بڑے بڑے حکمران، جنہیں دنیا طاقتور سمجھتی تھی، تقدیر کے ہاتھوں گرے۔ ان کے محلات، ان کی سلطنتیں، ان کے لشکر، سب مٹی ہو گئے۔

سوچو، فرعون دریائے نیل میں ڈوب گیا۔ نمرود کو ایک مچھر نے مار ڈالا۔ قارون اپنی دولت سمیت زمین میں دفن ہوگیا۔ یہ سب بڑے بڑے وزیر و مشیر اپنی چالاکیوں پر فخر کرتے تھے، لیکن تقدیر کے ایک فیصلے نے ان کو ختم کر دیا۔

جانتے ہو کہ "انسان تقدیر کے بارے میں کیا سوچے؟"

عبدالرحمان، تقدیر کو ماننا ایمان ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے لیکن ساتھ یہ ماننا ہے کہ انجام اللہ کی مرضی سے ہوگا۔

یہی توازن اصل ایمان ہے: کوشش اور قناعت۔ کوشش کرکے انسان سکون سے کہتا ہے: "جو ہوا وہ بہتر تھا، کیونکہ اللہ نے ویسا چاہا"۔

جانتے ہو کہ "کیا تقدیر بدل سکتی ہے؟"

عبدالرحمان، تقدیر کے دو حصے ہیں: قطعی تقدیر، جو اللہ نے لازماً طے کر دی ہے، جیسے موت کا وقت۔ یہ نہیں بدلتی۔

معلق تقدیر، جو دعا اور عمل سے بدل سکتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے"۔ (ترمذی)

یعنی کچھ فیصلے دعا اور نیکی سے آسان ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی اللہ کے علم میں پہلے سے ہوتا ہے کہ بندہ دعا کرے گا اور فیصلہ آسان ہو جائے گا۔

جانتے ہو کہ "آج کے انسان کے لیے یہ شعر کیوں اہم ہے؟"

عبدالرحمان، آج انسان سمجھتا ہے کہ علم اور ٹیکنالوجی سے سب پر قابو پا لے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرونا جیسی وبا آتی ہے تو دنیا کی سپر پاورز بھی مفلوج ہو جاتی ہیں۔ یہ تقدیر کی جھلک ہے۔

شاعر یاد دلاتا ہے کہ غرور نہ کرو، اللہ پر بھروسہ کرو۔ کوشش کرو، لیکن انجام اللہ کے سپرد کرو۔

عبدالرحمان، سکندر اعظم دنیا کو فتح کرتا گیا۔ مگر جب وہ مرنے لگا تو وصیت کی: "میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکال دینا تاکہ دنیا دیکھے کہ سکندر بھی خالی ہاتھ گیا"۔ یہ تقدیر کا سبق ہے کہ بادشاہ ہو یا فقیر، سب ایک دن خاک میں مل جاتے ہیں۔

جانتے ہو کہ "عملی زندگی میں اس نصیحت پر کیسے عمل کیا جائے؟"

عبدالرحمان، اس پر عمل کرنے کے لیے:

ہمیشہ حلال محنت کرو، لیکن انجام اللہ پر چھوڑ دو۔

مشکلات میں شکوہ نہ کرو، بلکہ صبر اور دعا کرو۔

غرور نہ کرو، کیونکہ تقدیر بڑے بڑے بادشاہوں کو توڑ دیتی ہے۔

اللہ کے فیصلوں پر راضی رہو، یہی دل کو سکون دیتا ہے۔

عبدالرحمان، یاں محمد بخشؒ نے ان دو سادہ مگر نہایت وزنی مصرعوں میں تقدیر کی اٹل حقیقت کو بیان کیا ہے، جو ہمیں انسانی اختیار اور قدرتِ الٰہی کے درمیان کا فرق سمجھاتی ہے۔ وہ اس ابدی سچائی کا اعلان کرتے ہیں کہ تقدیر کا لکھا ہوا کوئی بھی نہیں مٹا سکتا، کیونکہ مشیّتِ ایزدی کے سامنے تمام انسانی کوششیں اور تدبیریں بے بس ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ اور وزراء، جو اپنی طاقت، عقل اور دنیاوی وسائل پر نازاں تھے، بالآخر اسی طاقتور تقدیر کے ہاتھوں بے بس ہو کر خاک میں مل گئے اور ان کی تمام شان و شوکت عبرت کا نشان بن گئی۔ یہ ایک واضح درس ہے کہ انسان کو کبھی بھی اپنی محدود طاقت اور عارضی کامیابیوں پر غرور نہیں کرنا چاہیے۔

بلکہ، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داری پوری کریں، پوری ایمانداری اور محنت کے ساتھ کوششیں جاری رکھیں، مگر حتمی نتیجہ ہمیشہ اللہ کے سپرد کر دیں۔ تقدیر پر ایمان محض ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ایک عملی روحانی ہتھیار ہے جو دل کو سکون اور اطمینان دیتا ہے، عاجزی سکھاتا ہے اور انسان کو نفسانی خواہشات کی بے چینی سے آزاد کرکے اپنے خالق کے بہت قریب کر دیتا ہے۔ جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ میری کوشش میرا فریضہ ہے اور نتیجہ اللہ کی مرضی ہے، تو وہ نہ کامیابی پر پھولتا ہے اور نہ ناکامی پر ہمت ہارتا ہے۔ یہی وہ قلبی سکون اور عاجزی ہے جو انسان کو دنیا کی بے یقینیوں اور خوف سے نجات دلا کر حقیقی بندگی کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan