Mian Muhammad Baksh (16)
میاں محمد بخش (16)

ننگی پیر یں گئے بدیسی، خاک رلے سب مر کے
کہو کی مان محمد بخشا، رہو نمانے ڈر کے
The aliens walked away barefooted, all mixed into the dirt after they died
Say why the arrogance, O Muhammad Baksh? stay humble and afraid
یہ الفاظ قبر کی مٹی، فنا اور انسان کے انجام کی یاد دلاتے ہیں۔ ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: دنیا کے بڑے بڑے لوگ، اجنبی مسافر بن کر آئے، ننگے پاؤں گئے اور مٹی میں مل گئے۔ پھر تجھے کس بات کا غرور ہے؟ عاجزی اختیار کر، ڈر اور اصل حقیقت کو پہچان۔
جانتے ہو کہ "اجنبی ننگے پاؤں چلے گئے"، اس کا کیا مطلب ہے؟
عبدالرحمان، یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔ ہم سب یہاں اجنبی ہیں، چند دن کے لیے آئے ہیں۔ دیکھو، کوئی بھی انسان کچھ لے کر نہیں آیا۔ نہ مال، نہ لباس، نہ طاقت اور جاتے وقت بھی سب کچھ یہیں چھوڑ کر گیا۔ انسان مرتا ہے تو کفن بھی دوسروں کے دیے ہوئے کپڑے کا ہوتا ہے، اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتا۔
یہ حقیقت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر آنے اور جانے میں ہم ننگے پاؤں ہیں تو بیچ کا یہ غرور کیوں؟
نبی ﷺ نے فرمایا: "آدم کا عبدالرحمان کہتا ہے میرا مال، میرا مال، حالانکہ تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھایا اور ختم کیا، یا جو پہنا اور پرانا کیا، یا جو صدقہ دیا اور آگے بھیج دیا۔ باقی سب تیرے بعد دوسروں کے لیے ہے"۔ (مسلم)
جانتے ہو کہ "مٹی میں مل جانا" کس چیز کی طرف اشارہ ہے؟
عبدالرحمان، یہ اشارہ ہے فنا کی طرف۔ بڑے بڑے بادشاہ، امیر، عالم، حکمران، سب کی ہڈیاں آخرکار مٹی بن گئیں۔ جن لوگوں کے محلات آسمان کو چھوتے تھے، آج ان کی ہڈیاں زمین میں مٹی ہو چکی ہیں۔
قرآن کہتا ہے: "منها خلقناكم وفيها نعيدكم ومنها نخرجكم تارة أخرى" (طه: 55)
"ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، اسی میں واپس لوٹائیں گے اور دوبارہ اسی سے نکالیں گے"۔
یہی وہ انجام ہے جسے شاعر نے ایک سادہ منظر میں دکھایا ہے۔
جانتے ہو کہ "پھر غرور کس بات کا؟"
عبدالرحمان، غرور کی بنیاد ہی جہالت ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ میرے پاس دولت ہے، علم ہے، عہدہ ہے۔ لیکن موت ایک لمحے میں سب کچھ ختم کر دیتی ہے۔ قبر میں نہ کوئی وزیر ہے نہ بادشاہ، نہ امیر ہے نہ غریب۔ سب مٹی میں برابر ہو جاتے ہیں۔
شاعر ایک جھنجھوڑنے والا سوال اٹھاتا ہے: اگر سب مٹی میں ملنا ہے تو پھر یہ تکبر کس بات کا ہے؟ یہ غرور بے وقوفی ہے، کیونکہ جس جسم پر تمہیں غرور ہے، کل وہی مٹی میں گل سڑ جائے گا۔
جانتے ہو کہ "عاجزی کیوں ضروری ہے؟"
عبدالرحمان، عاجزی انسان کو حقیقت کے قریب لے جاتی ہے۔ عاجزی انسان کو یاد دلاتی ہے کہ اصل طاقت اللہ کی ہے۔ عاجزی انسان کو دوسروں کی عزت کرنا سکھاتی ہے۔ عاجزی انسان کو ظلم سے روکتی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: "جو اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرے گا، اللہ اسے بلند کرے گا"۔ (مسلم)
یعنی غرور انسان کو گراتا ہے اور عاجزی بلند کرتی ہے۔
جانتے ہو کہ "ڈرنا کیوں ضروری ہے؟"
عبدالرحمان، خوف انسان کو سیدھا رکھتا ہے۔ جو شخص موت اور آخرت سے ڈرتا ہے وہ گناہوں سے بچتا ہے۔ خوف انسان کو غرور سے روکتا ہے۔ خوف ہی وہ دیوار ہے جو ہمیں نافرمانی سے بچاتی ہے۔
صوفیاء کہا کرتے تھے: "جو قبر کو یاد رکھے گا وہ کبھی سر اونچا کرکے غرور نہیں کرے گا"۔
عبدالرحمان، ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا: "مجھے ایسا سبق دو جو ہمیشہ میرے غرور کو توڑ دے"۔ وزیر نے کہا: "اے بادشاہ! روزانہ یہ سوچو کہ ایک دن تیرا تاج زمین پر پڑا ہوگا اور تیرے جسم کو مٹی ڈھانپ رہی ہوگی"۔ بادشاہ یہ سنتا اور رو دیتا۔ یہی حقیقت ہے کہ قبر غرور کو توڑ دیتی ہے۔
جانتے ہو کہ آج کے انسان کے لیے اس شعر کا کیا پیغام ہے؟
عبدالرحمان، آج لوگ دنیا کی دوڑ میں لگے ہیں۔ کوئی دولت پر غرور کرتا ہے، کوئی تعلیم پر، کوئی عہدے پر۔ لیکن یہ شعر ہمیں کہتا ہے: "سب اجنبی ہیں، سب ننگے پاؤں جا رہے ہیں۔ تم بھی جاؤ گے"۔
لہٰذا غرور مت کرو۔ عاجزی اختیار کرو۔ اللہ کو یاد کرو۔ یہی تمہاری اصل عزت ہے۔
جانتے ہو کہ "عملی زندگی میں عاجزی کیسے آئے؟"
عبدالرحمان، عاجزی لانے کے لیے چند باتیں یاد رکھو:
روز قبر کو یاد کرو۔
اپنے سے کمزور کو دیکھو اور اس پر رحم کرو۔
دعا کرو کہ اللہ دل سے غرور نکال دے۔
خدمت کرو، ماں باپ کی، غریبوں کی، مظلوموں کی۔
یہ سوچو کہ کل سب کو مٹی میں مل جانا ہے۔
یہ سوچ انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے اور غرور کو توڑ دیتی ہے۔
عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے موت اور عاجزی کا سبق دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے لوگ اجنبی بن کر آئے، ننگے پاؤں گئے اور مٹی میں مل گئے۔ پھر کس بات کا غرور ہے؟ اصل کامیابی عاجزی میں ہے، غرور کو چھوڑ کر خوف اور محبتِ الٰہی میں جینا ہے۔ یہ اشعار ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ غرور ایک دھوکہ ہے، عاجزی ہی اصل عزت ہے اور قبر ہی اصل منزل ہے۔

