Mian Muhammad Baksh (15)
میاں محمد بخش (15)

ہتھاں نُوں تھرکا لَگا، جُھولا تدے بنایا
ایهہ جُھولا او جُھلیا کیندا کِہندا چھڈ دے مال پرایا
The hands are trembling terribly, you turned them into a swing
This swing, O naive one, asks you to let go off others belongings
ہاں عبدالرحمان، آج آؤ ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو مصرعوں پر غور کریں جو انسان کے لالچ، چوری اور دوسروں کے مال پر ہاتھ ڈالنے کی خرابی کو نہایت سادہ اور درد بھرے انداز میں بیان کرتے ہیں۔
یہ الفاظ دراصل ایک آئینہ ہیں۔ ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ انسان کے ہاتھ جو اللہ نے عزت اور محنت کے لیے بنائے، وہ لالچ اور حرام میں کانپنے لگے ہیں اور جب یہ ہاتھ دوسروں کے مال پر بڑھتے ہیں تو یہ جھولا بن جاتے ہیں، جھولے کی طرح بے کار اور بے قابو۔ شاعر ایک سادہ سی نصیحت دیتا ہے: اے نادان! دوسروں کے مال کی طرف مت بڑھ، اس سے اپنے ہاتھ ہٹا لے، ورنہ یہ ہاتھ عزت کا سہارا نہیں رہیں گے، ذلت کا جھولا بن جائیں گے۔
جانتے ہو کہ "ہاتھ کانپتے کیوں ہیں؟"
عبدالرحمان، ہاتھ تب کانپتے ہیں جب وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتے ہیں۔ اللہ نے ہاتھ محنت کے لیے، خدمت کے لیے، دعا کے لیے اور نیک کام کے لیے دیے ہیں۔ لیکن جب انسان دوسروں کے مال کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو دل کے اندر ڈر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈر اللہ کی طرف سے ایک اشارہ ہے: "یہ راستہ غلط ہے!"
دیکھو، جو بندہ حلال کماتا ہے، اس کا ہاتھ مضبوط اور مطمئن رہتا ہے۔ لیکن جو حرام کی طرف جاتا ہے، اس کا ہاتھ لرزنے لگتا ہے۔ یہ لرزش اس کے ضمیر کی گواہی ہے۔
عبدالرحمان جانتے ہو کہ "ہاتھ جھولا بننے" کا کیا مطلب ہے؟
جھولا ایک بچے کے کھیل کی چیز ہے۔ اوپر نیچے جھولتا ہے مگر کہیں پہنچتا نہیں۔ یہی حال اس ہاتھ کا ہے جو دوسروں کے مال پر بڑھتا ہے۔ وہ وقتی مزہ تو دیتا ہے لیکن منزل نہیں دیتا۔ ایسا ہاتھ ہمیشہ جھولتا رہتا ہے، نہ عزت ملتی ہے، نہ سکون، نہ برکت۔
یعنی دوسروں کا مال پکڑنے والا ہمیشہ ڈگمگاتا ہے۔ اس کے پاس دولت ہو بھی تو دل خالی رہتا ہے۔
تم جانتے ہو کہ "اے نادان! دوسروں کا مال چھوڑ دے"، یہ نصیحت کیوں؟
عبدالرحمان، اس نصیحت میں بہت درد ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ دوسروں کے مال سے مجھے فائدہ ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کے مال سے ملنے والا فائدہ زہر ہے۔ یہ مال کبھی خوشی نہیں دیتا، کبھی برکت نہیں لاتا۔
قرآن میں ہے: "ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل" (البقرہ: 188)
"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ"۔
یعنی دوسروں کے مال پر ہاتھ ڈالنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے۔
عبدالرحمان کچھ جانتے ہو کہ آج کے انسان کے لیے یہ شعر کیوں اہم ہے؟
عبدالرحمان، آج کے زمانے میں چوری صرف ہاتھ سے نہیں ہوتی۔ کوئی رشوت لیتا ہے، کوئی ملاوٹ کرتا ہے، کوئی جھوٹا سودا بیچتا ہے، کوئی ٹیکس بچاتا ہے۔ یہ سب دوسروں کے مال پر ہاتھ ڈالنے کے طریقے ہیں۔ ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: اے نادان! یہ سب چھوڑ دے۔ ورنہ تیرے ہاتھ عزت کے بجائے ذلت کا جھولا بن جائیں گے۔
جانتے ہو کہ ہاتھ کو مضبوط کیسے کیا جائے؟ عبدالرحمان، ہاتھ کو مضبوط بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے: حلال محنت۔ چاہے مزدوری ہو، چھوٹا کاروبار ہو، پڑھائی کے ذریعے علم کمانا ہو، جو بھی ہو مگر محنت اپنی ہونی چاہیے۔ جو ہاتھ حلال محنت سے روزی کماتے ہیں وہ کبھی جھولے کی طرح کانپتے نہیں، بلکہ مضبوطی سے دوسروں کو سہارا دیتے ہیں۔
اب سوچو بھلا کہ کیا دوسروں کا مال چھوڑ دینا آسان ہے؟
نہیں عبدالرحمان، یہ آسان نہیں، لیکن ممکن ہے۔ لالچ بہت طاقتور ہے۔ لیکن جو انسان اپنے دل کو قابو میں رکھے، اللہ پر بھروسہ کرے اور یاد رکھے کہ رزق دینے والا اللہ ہے، وہ دوسروں کے مال پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔
نبی ﷺ نے فرمایا: "جو شخص حرام چھوڑ دیتا ہے، اللہ اسے حلال میں بہتر دیتا ہے"۔
جانتے ہو کہ آخر یہاں عملی نصیحت کیا ہے؟
عبدالرحمان۔
میاں محمد بخشؒ نے ان دو مصرعوں میں ایک عظیم اخلاقی اور روحانی نصیحت دی ہے، جس میں انہوں نے حلال کی محنت اور حرام کی ہوس کے فرق کو نہایت خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے یہ ہاتھ عزت کی کمائی اور محنت کے لیے بنائے ہیں، تاکہ ہم خود انحصار رہیں۔ لیکن اگر یہی ہاتھ دوسروں کے مال اور حق کی طرف بڑھیں تو یہ اپنی اصل طاقت اور برکت کھو کر لرزنے لگتے ہیں اور جھولے کی طرح بے کار اور بے قیمت ہو جاتے ہیں، جو صرف وقت ضائع کرتا ہے۔
اگر کبھی تمہارا دل دوسروں کے مال کی چمک کی طرف کھنچ جائے تو فوراً یہ روحانی محاسبہ کرو: پہلی بات، یہ دنیاوی مال وقتی ہے، عارضی طور پر دل کو خوش کر سکتا ہے، لیکن اس حرام کمائی کا بوجھ قبر تک ساتھ جائے گا اور آخرت میں سخت حساب دینا پڑے گا۔ دوسری بات، یاد رکھو کہ اگر آج تم نے کسی کا حق غصب کیا تو یہ ایک کارمائی سائیکل ہے، کل تمہارا حق بھی کوئی اور لے گا یا تمہاری نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ تیسری اور اہم بات، جو حلال رزق تمہارے نصیب میں ہے، صرف وہی تمہیں حقیقی اور دائمی خوشی دے گا، حرام کی کثرت نہیں۔ یہ سوچ ہی دل کو طاقت سے سنبھالتی ہے اور ہمارے ہاتھ کو حرام کی کشش سے بچا کر حلال کی محنت کی طرف موڑ دیتی ہے۔
شاعر ہمیں ایک زوردار جھنجھوڑ کر کہتے ہیں: اے نادان! دوسروں کے مال پر ہاتھ مت ڈال، ورنہ تیرے یہی ہاتھ عزت اور خودداری کے بجائے دنیا و آخرت میں ذلت کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اصل سکون، برکت اور عزت صرف حلال کی محنت اور قناعت میں ہے۔

