Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (14)

Mian Muhammad Baksh (14)

میاں محمد بخش (14)

جس نینگر نوں الفت کرکے آپ کچھڑ چُک چائیے
توڑے بَول کرے وِچ چولی، دھرتی نہ پٹکائیے

The infant which, with affection, we carry on our side.
Even if soils the shirt, we do not strike on the ground.

عبدالرحمان، اب غور سے سنو۔ میاں محمد بخشؒ نے یہاں ایک نہایت سادہ، مگر نہایت گہری حقیقت کو بیان کیا ہے۔ وہ ایک روزمرہ کا منظر دکھاتے ہیں:

یہ منظر ظاہراً ایک بچے اور ماں باپ کے تعلق کا ہے، مگر حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے رشتے کو سمجھانے کے لیے ہے۔ بچہ ماں باپ کی گود میں ہے، وہ شرارت بھی کرے، گندگی بھی کرے، پھر بھی والدین اسے زمین پر نہیں پٹختے بلکہ اور زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے: وہ گناہ کرے، بھٹکے، مگر اللہ اُسے فوراً رد نہیں کرتا، بلکہ ڈھانپ لیتا ہے، موقع دیتا ہے، توبہ کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔

جانتے ہو کہ شاعر نے "بچے کو گود میں اٹھانے" کی مثال کیوں دی؟

عبدالرحمان، یہ مثال سب سمجھ سکتے ہیں۔ بچے کی معصومیت اور والدین کی شفقت سب نے دیکھی ہے۔ بچہ اپنی ماں کے کپڑے خراب کرے تو ماں برا بھلا نہیں کہتی بلکہ مسکرا دیتی ہے اور محبت کے ساتھ صاف کر دیتی ہے۔ یہ منظر ہر کسی کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرتا ہے۔ شاعر اسی نرمی کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اللہ کی محبت اپنی مخلوق کے لیے والدین کی محبت سے بھی بڑھ کر ہے۔

جانتے ہو کہ "شرٹ خراب ہونا" کس چیز کی علامت ہے؟

عبدالرحمان، یہ ہماری کوتاہیوں اور گناہوں کی علامت ہے۔ ہم اپنی جہالت، اپنے نفس کی خواہشات اور دنیا کی لالچ سے بار بار اپنی زندگی کو آلودہ کر لیتے ہیں۔ لیکن جیسے بچہ اپنی ماں کے کپڑے گندے کرے اور ماں غصہ کرنے کے بجائے پیار کرے، ایسے ہی ہمارا رب ہمیں موقع دیتا ہے کہ سنبھل جاؤ، توبہ کرو، پھر سے آؤ۔

جانتے ہو کہ "زمین پر نہیں پٹختے"، یہ کس حقیقت کی طرف اشارہ ہے؟

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ اپنے بندے کو فوراً ہلاک نہیں کرتا۔ اگر وہ چاہے تو گناہ کے بعد ہمیں ختم کر دے، لیکن اس کی رحمت ہمیں وقت دیتی ہے۔ جیسے بچہ اپنی ماں کی گود میں محفوظ ہے، ایسے ہی بندہ اللہ کی رحمت میں محفوظ ہے۔

قرآن میں ہے: "قل يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله" (الزمر: 53)

"اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو"۔

جانتے ہو کہ کیا اللہ کے ساتھ تعلق بھی ایسا ہی ہے؟

جی ہاں عبدالرحمان، یہی تو اصل نکتہ ہے۔ والدین کی محبت بے غرض ہوتی ہے، لیکن اللہ کی محبت تو والدین کی محبت سے بھی ستر گنا زیادہ ہے۔ والدین بھی کبھی تھک جاتے ہیں، لیکن اللہ کبھی نہیں تھکتا۔ ہم بار بار غلطیاں کرتے ہیں، لیکن اللہ بار بار معاف کرتا ہے۔

اب بھلا جانتے ہو کہ آج کے انسان کے لیے اس مثال میں کیا پیغام ہے؟

عبدالرحمان، آج ہم چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر اپنے آپ کو مایوس کر دیتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ شاید اللہ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ لیکن ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ بالکل ایسے ہی ہے جیسے والدین بچے کے ساتھ۔ وہ گناہ پر فوراً زمین پر نہیں پٹختا بلکہ معاف کرنے کے دروازے کھلے رکھتا ہے۔ یہ امید کا پیغام ہے کہ چاہے کتنی بھی خطا ہو جائے، مایوس نہ ہونا، واپس آنا، گود تیار ہے۔

تم جانتے ہو کہ اس کی عملی شکل کیا ہے؟

عبدالرحمان، اس کی عملی شکل یہ ہے کہ جب بھی خطا ہو، فوراً توبہ کرو۔ دل میں شرمندگی لاؤ، اللہ سے معافی مانگو۔ جیسے بچہ ماں کے کپڑے خراب کرکے اس کی طرف لپکتا ہے، ویسے ہی بندہ خطا کے بعد اپنے رب کی طرف لپکے۔ یہی عمل اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ہے۔

عبدالرحمان، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی رحمت ماں کی رحمت سے زیادہ ہے"۔ (مسلم)

ایک ماں کو دیکھ کر نبی ﷺ نے فرمایا: "کیا تم دیکھتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالے گی؟" صحابہؓ نے کہا: "کبھی نہیں!" نبی ﷺ نے فرمایا: "اللہ اپنے بندے پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے"۔

اب بھلا ہم اس سے کیا سیکھیں؟

عبدالرحمان۔

میاں محمد بخشؒ کا یہ روحانی سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی اللہ کی طرف مایوسی اور ناامیدی کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس نے اپنی بے پناہ رحمت کو سمجھانے کے لیے ایک ایسی مثال دی ہے جو ہمارے دلوں کو نرم کر دیتی ہے: جس طرح دنیا کے والدین اپنے بچے کو بار بار گرنے، غلطیاں کرنے اور کپڑے گندے کرنے کے باوجود بار بار سنبھالتے ہیں، اسے زمین پر پٹختے یا دھتکارتے نہیں، بلکہ محبت سے تھام لیتے اور پیار کرتے ہیں، بالکل اسی طرح اللہ ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں بار بار موقع دیتا ہے۔

یہ اشعار اللہ کی بے مثال رحمت کو ایک بچے اور والدین کی بے لوث محبت کی مثال سے بیان کرتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر بچہ نادانی میں اپنے کپڑے گندے کر بھی لے، تب بھی والدین اسے نفرت سے زمین پر نہیں پھینکتے، بلکہ پیار سے تھام لیتے ہیں۔ اسی طرح، جب بندہ خطا اور گناہ کر بیٹھتا ہے، تو اللہ فوراً عذاب نہیں دیتا بلکہ اپنی ستاری (عیب چھپانے کی صفت) کے ذریعے اس پر پردہ ڈال دیتا ہے، اسے سنبھالتا ہے، موقع دیتا ہے اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے۔

ہمیں اپنی زندگی میں بار بار، غرور اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر، اللہ کی وسیع گود میں آ کر عاجزی سے کہنا چاہیے: "یا اللہ، میں خطا کار ہوں، میں نے غلطی کی، مجھے معاف کر دے"۔ یہ اشعار ہمیں یہ عظیم سبق دیتے ہیں کہ اپنے گناہوں کی کثرت سے کبھی مایوس نہ ہو۔ بس اللہ کی طرف لوٹتے رہو اور توبہ کرتے رہو، کیونکہ وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان اور اپنی رحمت میں سب سے بڑھ کر سخی ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz