Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (12)

Mian Muhammad Baksh (12)

میاں محمد بخش (12)

حکمے باہجھ نہ نکلن ہوندا، جے سو کرے تیاری
پنچھی تنگ پیا وچ پنجرے، کیوں کر کرے اُڈاری؟

Without the command it cannot escape if it makes a hundred preparations.
The bird is feeling restricted in the cage, but how can it fly

عبدالرحمان، آؤ ذرا پاس بیٹھو۔ ہوا میں ایک ٹھہراؤ ہے، مگر اندر انسان کے کتنے طوفان دبا رہتے ہیں۔ میاں محمد بخشؒ نے انہی کیفیتوں کو دو سطروں میں یوں باندھا ہے:

یہ دو مصرعے انسان کے اختیار، تقدیر اور دل کی آزادی کے راز کو کھول دیتے ہیں۔ میں بوڑھے باپ کی طرح پوچھتا بھی چلوں گا اور سمجھاتا بھی، تاکہ بات دماغ سے ہوتی ہوئی دل کے اندر تک اتر جائے۔

بھلا تم جانتے ہو کہ یہاں "حکم" سے کیا مراد ہے؟

عبدالرحمان، "حکم" سے مراد اللہ کا اذن، اس کی اجازت، اس کی گھڑی ہوئی گھڑی ہے، وہ لمحہ جب بند دروازہ اچانک کھل جاتا ہے، وہ "ہو جا" جس سے ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ انسان سو تدبیریں کرے، درخواستیں دے، منصوبے بنائے، رشتے جوڑے، قرض اُتارے، سفر کرے، مگر اگر اذنِ رب نہ ہو تو بس دروازہ کھٹکھٹاتا رہتا ہے۔ یہ آیتِ کائنات کا اصول ہے: اسباب اپنی جگہ لازم، اذن سے بندھا۔ جیسے کنجی کے دانت مکمل ہوں تو بھی تالا تبھی کھلتا ہے جب زباںِ قفل "ہاں" کہہ دے، وہ "ہاں" ہی حکمِ الٰہی ہے۔

بھلا تم جانتے ہو کہ تو کیا انسان کی تیاری بیکار ہے؟

نہیں عبدالرحمان، ہرگز نہیں۔ تدبیر فرض ہے، توکل فرض ہے۔ اونٹ باندھنا تمہارا کام، حفاظت دینا رب کا۔ بیج بونا تمہارا کام، جان ڈالنا رب کا۔ دوا کھانا تمہارا کام، شفا دینا رب کا۔ سو تیاری کرو، مگر دل میں یہ ادب رکھو کہ "تیرے ہاتھ میں ہے مولا!"۔ تیاری کے بغیر دعا دعویٰ بن جاتی ہے اور تیاری کے ساتھ دعا آہِ سحر بن کر عرش پر دستک دیتی ہے۔ یوں سمجھ لو: کشتی ہم کھیتی ہیں، لہریں وہ اُٹھاتا ہے، بادبان ہم تانتے ہیں، ہوا وہ بھیجتا ہے۔

بھلا تم جانتے ہو کہ "پنجرہ" کس چیز کی علامت ہے؟

یہ پنجرہ کئی پرتوں کا ہے۔ کبھی یہ جسم ہے، بیماری، کمزوری، تھکن، کبھی حالات، غربت، پابندیاں، ذمہ داریاں، کبھی نظام، ویزہ، ملازمت، امتحان، مقدمہ اور اکثر اوقات یہ نفس ہے، عادتیں، لتیں، تعصب، ڈر، ٹل مٹول۔ بندہ کہتا ہے: "دل اڑنا چاہتا ہے مگر پر رُکے ہیں!" تو جان لو، پنجرے کی ایک سلاخ باہر کی ہوتی ہے، نو سلاخیں اندر کی۔ اندر کی سلاخیں ٹوٹنے لگیں تو باہر کی سلاخیں خود کمزور دکھنے لگتی ہیں۔

بھلا تم جانتے ہو کہ پرندہ اڑنا چاہتا ہے، اڑان کیسے ملتی ہے؟

اڑان دو چیزوں سے بنتی ہے: پَر اور ہوا۔ پَر تمہارا کردار، محنت، علم، استقامت اور ہوا اللہ کا حکم۔ پَر کمزور ہوں تو ہوا بھی دھکیل نہیں پاتی اور پَر مضبوط ہوں تب بھی ہوا کے بغیر پرواز نہیں بنتی۔ اس لیے دن میں کردار کے پَر مضبوط کرو، علم، ہنر، نظم، حلال کوشش اور رات میں ہوا مانگو، "یا رب، میرا وقت کھول دے، میرا حُکم لکھ دے!"۔ جب اذن آتا ہے تو وہی راہیں کھلتی ہیں جن پر تم نے خاموشی سے اینٹ پر اینٹ رکھی ہوتی ہے۔

بھلا تم جانتے ہو کہ پھر بعض اوقات حکم تاخیر سے کیوں آتا ہے؟

تاخیر عذاب نہیں، تربیت ہے۔ دیر سے دو فائدے ہوتے ہیں: (1) اندر کے پنجرے کی سلاخیں، غرور، جلد بازی، خام خیالی، آہستہ آہستہ گھلتی ہیں، (2) جو ملتا ہے اس کی قدر قائم رہتی ہے۔ جلدی ملا ہوا پھل اکثر جلدی سڑ جاتا ہے، صبر سے ملا ہوا پھل بیج بن کر نئی فصلیں دیتا ہے۔ رب دیر سے دیتا ہے تاکہ تم پہلے بن جاؤ، پھر پاؤ، پہلے ظرف، پھر رزق۔

بھلا تم جانتے ہو کہ اگر حکم نہ آئے تو کیا بس ہار مان لی جائے؟

نہیں، یہیں سے اصل سلوک شروع ہوتا ہے۔ پنجرہ کبھی مکمل قید نہیں، اسے مدرسہ بنا لو۔ بیماری کو شکر کی مشق، تنگی کو قناعت کی ریاضت، تاخیر کو ذکر کی گھاس، تنہائی کو دعا کا آنگن بنا لو۔ باہر کی قفل کھلنے میں وقت لگے گا، پر اندر کے قفل، غصہ، خوف، حسد، آج کھل سکتے ہیں۔ یاد رکھو: جو اندر آزاد ہوگیا، اسے باہر کے تالے زیادہ دیر قید نہیں رکھ پاتے۔

جانتے ہو کہ تقدیر اور اختیار کا جوڑ کیسے سمجھیں؟

اختیار دستک ہے، تقدیر دروازہ۔ دستک دینا تم پر فرض، کھولنا اس پر لازم نہیں، مگر وہ کریم ہے، مسلسل دستکیں آخر کار "اذن" میں ڈھلتی ہیں۔ دستک کا ادب چار ہیں: حلال اسباب، مسلسل کوشش، مسلسل دعا، مسلسل محاسبہ۔ ان چاروں سے تمہاری دستک "میں" سے "تو" تک کا سفر کرتی ہے اور جہاں "تو" دکھا، حکم قریب ہے۔

جانتے ہو، حکم کیا ہوتا ہے؟

ایک قیدی برسوں دیوار کُوٹتا رہا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ دیوار کے پیچھے دروازہ ہے مگر کنجی اندر سے لگتی ہے۔ جاگا تو دل پر چوٹ لگی، "میں نے بیرونی اینٹیں توڑیں، باطنی کنجی گھمائی ہی نہیں!" صبح سے اس نے باطن کی کنجی، توبہ، حق الناس کی ادائی، اذکارِ صبح، والدین کی دعا، گھمانا شروع کی۔ کچھ ماہ میں مقدمہ پلٹا، شہادتیں سامنے آئیں، رہائی ہوگئی۔ وہ کہتا تھا: "دیوار باہر گری جب قفل اندر کھلا"۔ حکم ایسا ہی اُترتا ہے، باہر ظہور، اندر سرگوشی۔

جانتے ہو کہ پنجرہ کبھی انسان خود کیوں پہنتا ہے؟

نفس آرام کا عادی ہے، اسے "محنت" پنجرہ لگتی ہے، "نظم" رسّی، "اصرار" زنجیر۔ یوں الٹا ہوتا ہے، جو پر ہیں انہیں قید سمجھ لیتے ہیں اور جو قید ہے اسے آزادی۔ رات کو سکرول، صبح کو ٹال مٹول، دوپہر کو شکوہ، یہی وہ نازک تار ہیں جن سے ہم اپنی قید خود بُنتے ہیں۔ اس جال کو کاٹنے کے ہتھیار سادہ مگر کڑوے ہیں: کم، مگر روز، پانچ چیزیں روز: دو رکعت تنہائی، دس منٹ مطالعہ، دس منٹ جسمانی حرکت، ایک چھوٹا نیکی کا کام اور اپنے نفس کا ایک اعتراف۔ یہ روز کے "قینچی" وار ہیں، دھاگے کمزور پڑتے جاتے ہیں۔

جانتے ہو کہ "سو تدبیریں" کرنے کے باوجود کیوں کچھ لوگ نہیں نکل پاتے؟

کیونکہ تدبیریں اکثر مقصد بدل دیتی ہیں، نکلنے کی تدبیر بہانے سے زندہ رہنے کی تدبیر بن جاتی ہے۔ مثال؟ نوکری کی تلاش، سی وی سو جگہ، مگر علم و ہنر میں اضافہ؟ صفر۔ صحت کی جستجو، ڈاکٹر دس، مگر نیند و خوراک؟ بکھری ہوئی۔ تعلق کی اصلاح، گفتگو سو بار، مگر اپنے لہجے کی تربیت؟ نایاب۔ تدبیر جب خود کی مرمت سے کٹ جائے تو وہ شور بن جاتی ہے، راستہ نہیں۔ حکم اسی کو میسر آتا ہے جس کی تدبیر اپنے آپ سے شروع ہو۔

جانتے ہو کہ "حکم" مانگنے کا ادب کیا ہے؟

ادب یہ کہ زبان سے دعا، ہاتھ سے کوشش، دل سے اعتراف اور عمل سے شکر۔ تہجد کی تھوڑی سی نمی، دو چار منٹ بھی سہی، دل کی خاک کو بیٹھا دیتی ہے اور ناممکن کے اوپر ممکن کی ہلکی سی اوس گرنے لگتی ہے۔ ساتھ میں حق الناس کی ادائی، جس کا دل توڑا، جس کا حق دبایا، اس کا در کھٹکھٹا لو۔ حقوق بند ہیں تو آسمانی در کھلتے کھلتے رُک بھی جاتے ہیں۔

سوچو کہ پرندہ کب اڑتا ہے؟

جب پنجرہ کھلے اور پر تیار ہوں۔ کچھ لوگ پنجرہ کھلنے پر بھی نہیں اڑ پاتے، کیوں؟ پر کمزور۔ موقع آتا ہے تو خوف اور عادتیں انجن بند کر دیتی ہیں۔ اس لیے انتظار کے دن ضائع نہیں، تیاری کے دن ہیں: ہنر بڑھاؤ، مطالعہ گہرا کرو، نیٹ ورک سچا بناؤ، دعا پختہ کرو، نفس پتلا کرو۔ حکم آتے ہی اڑان طے ہے۔

جانتے ہو کہ اگر قید "لازوال" لگے، بیماری، معذوری، داغ؟

تب ایک اور دروازہ کھلتا ہے: حریتِ باطن۔ جسم محدود مگر روح آزاد۔ وہ آزادی کیا ہے؟ معنی کا مل جانا۔ جب دکھ عبادت بنے، صبر شکر میں بدلے، کمزوری دعا میں پگھلے، تو پنجرہ "مسجد" ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ دیکھے ہیں میں نے، چارپائی پر مقید، مگر ان کے الفاظ میں صبح کی ہوا بہتی ہے، وہ اپنے گرد کے پنچروں کے تالے بھی ڈھیلے کر دیتے ہیں۔

جانتے ہو کہ یہ شعر میری زندگی میں کیسے پورا اترتا ہے؟

نوکری نہیں مل رہی، ہر صبح ایک نئی مہارت کی ایک نئی اینٹ، ہر شام پانچ حقیقی درخواستیں، ہر رات دو رکعت امید اور دن میں ایک بے لوث مدد کسی کے لیے۔ یہ "پر" ہیں، ہوا جب آئے گی تو اسی جھنڈے کو پھڑپھڑائے گی۔

ویزہ/مقدمہ، ثبوت کی درستی، اہل مشیر، ٹائم لائن، زبان کے ادب، ساتھ میں صلح جوئی، استغفار، صدقہ۔ حکم کے لیے راستہ ہموار۔

تعلقات، خاموشی، سننا، ذمہ داری لینا، چھوٹے مہربان کام اور دل میں یہ دعا: "یا مُقَلِّبَ القلوب، قلبي اور اس کے دل، کو سیدھا کر دے"۔

عادت/لت، چھوٹے ترک، درجہ وار کمی، احتسابی ساتھی اور روز کا "ری سیٹ"۔ پنجرہ اندر کا ہے، کنجی بھی۔

جانتے ہو کہ کیا کبھی پرندہ پنجرے میں رہ کر بھی "اڑ" سکتا ہے؟

ہاں، جب نگاہ بدل جائے۔ بیرونی قید کے ساتھ اندر کے افق آسمان ہو جائیں تو انسان کا کام ٹھہراؤ سے اثر پیدا کرنا ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی دعائیں موسم بنا دیتی ہیں، وہ خود شاید نہ نکلیں، مگر ان کے ہاتھ سے دوسروں کے تالے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی حکم ہی کی ایک صورت ہے، رب تمہیں چابی والا بنا دے۔

جانتے ہو کہ آخری نصیحت، مختصر مگر کاٹ دار؟

دو باتیں دل میں گاڑ لو: (1) تدبیر چھوڑنا بزدلی ہے، own کرنا شرکِ خفی، (2) پنجرہ توڑنے سے پہلے پر بناؤ۔ حکم جب اترے گا تو فرصت کم ہوگی، اچانک در کھلے گا، اُس وقت کے لیے اپنا رن وے صاف رکھنا اور ہاں، کسی کے لیے خود پنجرہ مت بننا، تمہیں معلوم ہو یا نہ ہو، دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا بھی حکم کے نزول کی ایک کلید ہے۔

عبدالرحمان، ان دو مصرعوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کا کھیل اسباب اور اذن کے بیچ بندھا ہے: ہم سو تدبیریں کرتے ہیں، مگر در تب کھلتا ہے جب "حکم" آتا ہے، پرندہ پنجرے میں بے چین رہتا ہے، مگر اڑان اسی کو ملتی ہے جس کے پَر پہلے سے مضبوط ہوں اور جو رات کی خلوت میں ہوا مانگتا رہا ہو۔ اس لیے اپنی قید کو مدرسہ بنا لو، اندر کی سلاخیں توڑو، حلال اسباب جوڑو، دعا کو مسلسل رکھو، حق الناس ادا کرو اور اپنے پَر روز تھوڑے تھوڑے مضبوط کرتے رہو، پھر جب رب کی نظرِ اذن اترے گی تو در بھی کھلے گا، ہوا بھی آئے گی اور تم اسی آسمان پر سیدھی پرواز میں چلے جاؤ گے جہاں تک صرف حکم والوں کی رسائی ہوتی ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari