Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (11)

Mian Muhammad Baksh (11)

میاں محمد بخش (11)

ہر کوئی جا نے سوڑی سامی، اگے قبر بنیرا
اک اکلی وچ، اُجاڑے دائم ہوسی ڈیرا

Everybody knows about the light spot: in front of us is the darkness of grave.
Alone, by itself in the wilderness, which will be the abode forever

جی عبدالرحمان۔ آؤ آج ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو درد بھری حقیقت افروز مصرعوں پر غور کریں، جو قبر اور آخرت کی یاد کو دل میں بٹھاتے ہیں۔

یہ اشعار ہمیں جھنجھوڑتے ہیں کہ دنیا کی چمک دمک عارضی ہے۔ اصل حقیقت وہ اندھیری قبر ہے جو ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ قبر ہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں تنہا جانا ہے، جہاں نہ ماں ہوگی، نہ باپ، نہ دوست نہ دنیاوی آسائش۔

اب بھلا "سب کو روشنی کا علم ہے"، اس سے مراد کیا ہے؟

عبدالرحمان، یہ دنیا ایک چمکدار اور مصنوعی روشنی کی طرح ہے اور ہر شخص اپنی آنکھوں سے اسی دھوکے کی چمک کو دیکھ رہا ہے اور اسی میں مگن اور محو ہے۔ یہ روشنی مال و دولت کی چکا چوند ہے، شہرت اور اقتدار کا فریب ہے، عارضی جوانی کا غرور ہے اور زندگی کی تمام سطحی رونقوں کا مجموعہ ہے۔ لوگ اس فوری اور ظاہری روشنی سے اس قدر متاثر اور مشغول ہو جاتے ہیں کہ ان کی تمام تر توجہ اور توانائی صرف اسی کو پانے پر صرف ہو جاتی ہے۔

لیکن شاعر ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ہر ایک شخص کو یہ چمکدار دنیا کی روشنی تو نظر آتی ہے، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس روشنی کے فوراً آگے قبر کی تاریکی ہے۔ یہ تاریکی ایک اٹل حقیقت اور زندگی کا حتمی انجام ہے۔ دنیا کی یہ روشنی دراصل ایک دھوکہ اور فریب ہے، جو ہمیں وقتی طور پر حقیقت سے غافل کر دیتی ہے۔ اصل اور دائمی حقیقت اس روشنی کے پیچھے چھپی ہوئی اندھیری قبر ہے، جس کی تیاری کے بغیر ہم اپنی ساری زندگی فانی رنگینیوں میں گنوا دیتے ہیں۔ لہٰذا، عقل مندی اسی میں ہے کہ اس عارضی روشنی پر بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ اصل حقیقت (آخرت اور قبر) کی روشنی کے لیے نیک اعمال کا سامان تیار کیا جائے۔

سوچو کہ "قبر کی تاریکی" کیا ہے؟

عبدالرحمان، قبر کی تاریکی سے مراد وہ اکیلا پن، وہ وحشت ہے جو موت کے بعد آتی ہے۔ دنیا کے سب چراغ بجھ جاتے ہیں۔ وہ دولت، وہ طاقت، وہ رشتے سب ختم ہو جاتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ اگر یہ آسان ہوگئی تو آگے سب آسان ہے اور اگر یہ مشکل ہوئی تو آگے سب مشکل ہے"۔ (ترمذی)

کیا تم جانتے ہو کہ "اکیلا پن" کس چیز کی طرف اشارہ ہے؟

عبدالرحمان، ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: "اکیلا، تنہا، بیابان میں"۔ یعنی قبر میں انسان اکیلا جائے گا۔ کوئی ساتھی ساتھ نہیں ہوگا۔ ماں باپ، بہن بھائی، دوست سب چھوڑ جائیں گے۔ صرف اعمال ساتھ ہوں گے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے لوگ بھول جاتے ہیں۔ لیکن شاعر یاد دلاتا ہے کہ اصل تنہائی قبر کی ہے۔

تم کہو گے کہ "قبر ہمیشہ کا گھر ہے"، کیا واقعی ہمیشہ کا ہے؟

عبدالرحمان، ہاں۔ قبر ہی وہ پہلا اور ابدی گھر ہے جس میں انسان کو قیامت تک رہنا ہے۔ اس کے مقابلے میں، دنیا کے وہ تمام عالی شان اور پر شکوہ گھر جنہیں ہم دائمی ٹھکانہ سمجھتے ہیں، وہ صرف چند سال کے عارضی قیام کی جگہ ہیں۔ قبر کا یہ گھر وقت کی تمام قید سے آزاد ہے اور ابدی رہائش کا آغاز ہے۔ اسی لیے، اولیاء اللہ اور حقیقی دانشور ہمیشہ یہ نصیحت کرتے آئے ہیں کہ اپنی پوری زندگی کو قبر کی تیاری بنا لو، کیونکہ اس ابدی گھر کی ضروریات دنیاوی ضروریات سے بالکل مختلف ہیں۔

جو شخص اس قبر میں روشنی اور سکون چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ یہاں دنیا میں رہ کر نیکیاں کرے، اخلاص کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرے اور ندامت و توبہ کے آنسو بہائے۔ یہی اعمال اور آنسو وہ روشن ایندھن ہیں جو قبر کی تاریکی کو جنت کے نور میں بدل دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کوئی شخص اپنی زندگی غفلت، دنیا کی محبت اور فسق و فجور میں گزار دیتا ہے، تو اس کی قبر یقیناً اندھیری اور پریشان کن ہوگی۔ یہ پیغام ہمیں اپنی اولین ترجیحات کو درست کرنے کی تلقین کرتا ہے: فانی گھروں کی تعمیر پر ابدی گھر کو قربان نہ کرو۔

تم کہو گے کہ بھلا آج کے انسان کے لیے اس شعر کا کیا پیغام ہے؟

عبدالرحمان، آج کے انسان کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ قبر کو بھول گیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا ہی سب کچھ ہے۔ وہ روشنیوں میں مگن ہے، لیکن اصل اندھیرا اس کے آگے ہے۔ اصل گھر قبر ہے۔ اس کے لیے تیاری کرو۔ یہ تیاری دولت سے نہیں، بلکہ ایمان، محبت اور نیک عمل سے ہے۔

کیا تم جانتے ہو کہ اس تیاری کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

عبدالرحمان، اس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:

ذکرِ الٰہی، دل کو اللہ کی یاد سے زندہ رکھو۔

نیک عمل، دوسروں کے حق ادا کرو، خدمت کرو، صدقہ کرو۔

آنسو، قبر کی وحشت کو یاد کرکے رونا سیکھو۔ یہ آنسو قبر کی تاریکی کو روشنی میں بدل دیتے ہیں۔

عبدالرحمان، حضرت عثمانؓ قبر کے پاس کھڑے ہو کر اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی۔ لوگوں نے پوچھا: "آپ جنت اور دوزخ کو یاد کرکے اتنا نہیں روتے جتنا قبر کو یاد کرکے روتے ہیں؟" فرمایا: "قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ اگر یہ اچھی ہوگئی تو آگے سب اچھا ہے، اگر یہ بری ہوگئی تو آگے سب برا ہے"۔

عبدالرحمان، ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے ہمیں اصل حقیقت یاد دلائی ہے۔ دنیا کی روشنی سب کو نظر آتی ہے، لیکن آگے قبر کی تاریکی ہے۔ قبر میں انسان اکیلا ہوگا اور یہی اس کا اصل گھر ہے جو قیامت تک رہے گا۔ یہ شعر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی رونقوں میں نہ بھولو، اصل تیاری قبر کی ہے۔ نیک عمل کرو، اللہ کو یاد کرو، عاجزی اختیار کرو۔ یہی اعمال قبر کو روشنی سے بھر دیں گے اور یہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam