Mian Muhammad Baksh (10)
میاں محمد بخش (10)

جنہاں درد عشقی دا ناہیں، کد پھل پان دیداروں؟
جے رب روگ عشق دا لاوے، لوڑ نئیں کوئی داروں
Who dont have the pain of love, how can they attain the fruit of sight
If Allah grants the ailment of love, there is no need for any medication
جی عبدالرحمان۔ اب ہم میاں محمد بخشؒ کے ان دو درد بھری اور حقیقت افروز مصرعوں پر غور کریں، جن میں عشق کے دکھ اور اس کے ثمر کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ اشعار صوفیانہ زبان میں "دردِ عشق" کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ کہ جنہیں عشق کا دکھ نہیں، وہ کبھی دیدار کا پھل نہیں پا سکتے اور اگر اللہ خود دل میں عشق کا زخم ڈال دے، تو پھر کسی اور علاج کی ضرورت نہیں۔ یہی عشق روح کا سب سے بڑا علاج ہے۔
سوچو کہ اب بھلا یہ "دردِ عشق" کیا ہے؟
عبدالرحمان، یہ وہ دکھ ہے جو عام دکھ نہیں۔ یہ وہ تڑپ ہے جو دل کو بے چین رکھتی ہے، آنکھوں کو اشکبار کر دیتی ہے اور انسان کو دنیا کی لذتوں سے کاٹ کر اللہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
دنیا کے دکھ انسان کو بیمار کر دیتے ہیں، لیکن عشق کا دکھ انسان کو زندہ کرتا ہے۔ یہ دکھ کھانے، پینے اور سونے کو کم کر دیتا ہے، مگر روح کو جگا دیتا ہے۔ یہی "دردِ عشق" ہے۔
اب تم سوچ رہے ہو گے کہ "دیدار کا پھل" کس چیز کی علامت ہے؟
عبدالرحمان، شاعر نے "پھل" کی مثال دی۔ جیسے بیج لگانے اور پانی دینے کے بعد صبر سے پھل ملتا ہے، ویسے ہی عشق کے دکھ سہنے کے بعد اللہ کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ یہ دیدار صرف آنکھ سے دیکھنے کا نہیں بلکہ دل کے روشن ہونے کا ہے۔ جب دل صاف ہو جاتا ہے اور عشق کے دکھ سے نرم ہو جاتا ہے، تب اللہ کی قربت ملتی ہے۔ یہی وہ پھل ہے جس کے بغیر زندگی خالی ہے۔
کیا تم جانتے ہو کہ "جنہیں عشق کا دکھ نہیں، وہ کیسے دیدار پائیں گے؟"
عبدالرحمان، یہ سوال ہی اصل نکتہ ہے۔ جو لوگ دنیاوی آسائشوں میں مست ہیں، جو دل کو کبھی عشق کے زخم میں نہیں ڈالتے، وہ اللہ کے دیدار کا ذائقہ کیسے پائیں گے؟
صوفیاء کہتے ہیں کہ قربت بغیر درد کے نہیں ملتی۔ جس دل میں تڑپ نہ ہو، اس کے لیے درِ محبوب بند رہتا ہے۔ اس لیے ہمارے صوفی شاعر کہتے ہیں کہ: بغیر عشق کے درد کے، دیدار ممکن نہیں۔
تم کہو گے کہ "اللہ اگر عشق کی بیماری دے دے"، اس کا کیا مطلب ہے؟
عبدالرحمان، دنیا کی بیماری انسان کو کمزور کرتی ہے، لیکن عشق کی بیماری انسان کو قوی کر دیتی ہے۔ دنیا کی بیماری دوا مانگتی ہے، لیکن عشق کی بیماری دوا سے نہیں بلکہ زیادہ بڑھنے سے بہتر ہوتی ہے۔
یہ بیماری اللہ کا خاص تحفہ ہے۔ جو دل اللہ کی محبت میں جلتا ہے، اس کے لیے کسی اور علاج کی ضرورت نہیں۔ وہ بیماری اصل میں شفا ہے۔
عبدالرحمان، حضرت بایزید بسطامیؒ سے پوچھا گیا: "آپ ہمیشہ روتے کیوں رہتے ہیں؟ کیا یہ کوئی بیماری ہے؟" انہوں نے کہا: "ہاں، یہ بیماری ہے۔ لیکن یہ وہ بیماری ہے جو اللہ نے دی ہے اور یہی میری اصل شفا ہے"۔
یہی وہ کیفیت ہے جسے شاعر بیان کرتا ہے کہ عشق کی بیماری اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
کیا تم جانتے ہو کہ آج کے انسان کے لیے اس شعر کا کیا پیغام ہے؟
عبدالرحمان، میاں محمد بخشؒ کا یہ گہرا اور حکمت سے پُر جملہ آج کے جدید مگر روحانی طور پر مفلس انسان کے حال کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ شاعر فرماتے ہیں کہ آج کے انسان کے پاس ظاہری طور پر سب کچھ موجود ہے، اس کے پاس دولت، آسائشیں، مادی سہولت اور ہر قسم کا آرام دستیاب ہے، لیکن اس کا باطن خالی ہے اور سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ اس کی آنکھوں میں کوئی تڑپ، کوئی سچا جذبہ یا کوئی ابدی آرزو باقی نہیں۔ یہ بے حسی ہی اس کی اصل بیماری ہے اور سکون کے نہ ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔
یہ شعر ہمیں ایک غیر متوقع روحانی راز سے آگاہ کرتا ہے: اصل اور دائمی سکون دنیا کی سہولیات میں نہیں، بلکہ عشق کے درد میں پوشیدہ ہے۔ انسان سکون کو باہر تلاش کر رہا ہے، جبکہ وہ دل کی آگ اور تڑپ میں موجود ہے۔ شاعر کے نزدیک، خوش نصیب وہ نہیں جس کے پاس دنیاوی مال و متاع ہو، بلکہ وہ دل ہے جو اللہ کی محبت اور عشق کی آگ میں جلتا ہے۔ یہ درد، یہ تڑپ اور یہ سوز ہی قلب کی حیات کی علامت ہے اور وصال کا ذریعہ بنتا ہے۔ جو دل اللہ کے عشق سے خالی ہے، وہ لاکھ کوششوں کے باوجود پرسکون نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے باقی سب دوڑ دھوپ، محنت اور جمع تفریق فضول اور بے معنی ہے۔ حقیقی سکون صرف عشق کے درد کو قبول کرنے میں ہے۔
کیا تم جانتے ہو کہ "یہ درد کیسے مانگا جائے؟"
عبدالرحمان، اس کا ایک ہی طریقہ ہے: دعا۔ اللہ سے مانگو: "یا اللہ، میرے دل میں اپنی محبت کا درد ڈال دے"۔ پھر ذکر کرو، قرآن پڑھو اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔ یہ دل کو نرم کرے گا اور عشق کے زخم دے گا۔ یہ زخم دکھ نہیں، یہ سب سے بڑی دولت ہے۔
عبدالرحمان، میاں محمد بخشؒ کا یہ خوبصورت تجزیہ ہمیں عشق کی اصل طاقت اور اس کی فطرت کا موازنہ کرکے سمجھاتا ہے۔ تم نے یقیناً دیکھا ہوگا کہ دنیاوی اور فانی محبت میں بھی عاشق کس طرح بے تاب، بے چین اور بے خود ہو جاتا ہے۔ وہ محبوب کی یاد میں راتوں کو جاگتا ہے، دن کا کھانا پینا تک بھول جاتا ہے اور اس کی آنکھیں مسلسل نم رہتی ہیں۔ اس محبت کا درد اور تڑپ اسے اپنی ذاتی آسائشوں سے دور کرکے صرف محبوب کے قریب لے آنے کی واحد دھن میں لگا دیتا ہے۔ یہ ایک سچی مگر عارضی کیمیا ہے۔
اب ذرا سوچو کہ جب دنیاوی، عارضی اور محدود محبت میں اتنی جذباتی اور جسمانی طاقت ہے کہ وہ انسان کو اپنے حال سے بے حال کر دے، تو اللہ کی لازوال اور ابدی محبت کا درد انسان کو کہاں تک لے جا سکتا ہے! وہ تڑپ، وہ سوز اور وہ بے چینی جو عشقِ حقیقی سے پیدا ہوتی ہے، وہ عاشق کو دنیا کی تمام کمزوریوں سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ درد انسان کو دنیا کی قید سے آزاد کرکے محبوبِ حقیقی کے وصال یعنی جنت اور دیدارِ الٰہی کی معراج تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ روحانی تڑپ ہی اصل خوش نصیبی ہے، کیونکہ یہ ابدی کامیابی کی ضمانت ہے۔
عبدالرحمان، یاد رکھو جس دل میں عشق کا درد نہیں، وہ اللہ کے دیدار کا پھل کیسے پائے گا؟ اور اگر اللہ دل کو عشق کی بیماری دے دے تو پھر کسی دوا کی ضرورت نہیں۔

