Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Mian Muhammad Baksh (1)

Mian Muhammad Baksh (1)

میاں محمد بخش (1)

ڈیر عبدالرحمان۔

بہت سالوں بعد تمہارا پیغام ملا۔ شاید مجھے کئی سال کا وقفہ لگا۔

بہرحال تم نے لکھا ہے کہ تم اپنے بچے کو پنجابی کے وہ اشعار سنانا اور سمجھانا چاہتے ہو جو میں بچپن میں تمہیں سنایا اور سمجھایا کرتا تھا۔ وہ اشعار پنجابی کے صوفی شاعر میاں محمد بخش کی نظم سیف الملوک کے تھے۔

تمام اشعار ایک ہی نشست میں تو نہیں سمجھائے جا سکتے میں ایک ایک شعر پنجابی میں لکھتا ہوں پھر اس کا مفہوم انگریزی میں اور پھر اردو میں مختصر طور پر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ چلو پہلا شعر پڑھتے ہیں:

اول حمد، ثنا الہی، جو ما لک ہر ہر دا
اس دا نام چتارن والا کسے میدان نہ ہر دا

Firstly all praise to Allah, who is the owner of everything.
Whoever remembers His name is never a loser in any field

عبدالرحمان، میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں: یہ جو زمین ہے جس پر ہم بیٹھے ہیں، یہ جو آسمان ہے جو ہم پر چھایا ہوا ہے، یہ ہوا جو تمہاری سانسوں میں آ جا رہی ہے، یہ سب کس کا ہے؟ تم شاید کہو: بابا، یہ قدرت کی چیزیں ہیں، سب انسانوں کے لیے ہیں۔ لیکن میں تمہیں کہتا ہوں: نہیں عبدالرحمان، یہ سب اصل میں اللہ کی ملکیت ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ یہ مکان ہمارا ہے، یہ کھیت ہمارا ہے، یہ نوکری ہماری ہے، یہ دولت ہماری ہے۔ لیکن عبدالرحمان، سوچو! جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو کیا ساتھ لے جاتا ہے؟ نہ مکان، نہ کھیت، نہ دولت، نہ کرسی۔ سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ اصل مالک تو وہی ہے جس نے یہ سب عطا کیا اور پھر واپس لے لیا۔

میاں محمد بخشؒ نے اسی حقیقت کو پہلے ہی مصرعے میں باندھ دیا: "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو سب کا مالک ہے"۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور انتہا بھی اسی کے اختیار میں۔ جو کچھ ہے اسی کا ہے، ہم تو محض مسافر ہیں اور مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد دنیاوی سامان کو چھوڑ دیتا ہے۔

عبدالرحمان، تم شاید کہو: لیکن بابا، ہم دن رات محنت کرتے ہیں، پڑھائی کرتے ہیں، نوکری کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں۔ اگر سب کچھ اللہ کا ہے تو پھر ہماری محنت کا کیا؟

دیکھو، یہ سوال اچھا ہے۔ لیکن ذرا سوچو، محنت کرنے کی طاقت کس نے دی؟ آنکھیں جن سے پڑھتے ہو، دماغ جس سے سوچتے ہو، ہاتھ پاؤں جن سے کام کرتے ہو، یہ سب کہاں سے آئے؟ اگر یہ طاقت اللہ نہ دیتا تو تم کچھ نہ کر پاتے۔

دنیا میں ایسے لاکھوں لوگ ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں مگر آنکھوں سے محروم ہیں۔ جو کمانا چاہتے ہیں مگر ہاتھ پاؤں سے معذور ہیں۔ جو دوڑنا چاہتے ہیں مگر دماغ یا دل کے مرض میں گرفتار ہیں۔ یہ سب دیکھ کر کیا یہ نہیں لگتا کہ اصل طاقت دینے والا کوئی اور ہے؟ تو ہاں، تمہاری محنت اہم ہے، مگر اس محنت کی بنیاد بھی اللہ نے رکھی ہے۔ اسی لیے اصل تعریف اسی کے لیے ہے۔

اب آؤ دوسرے مصرعے پر۔ میاں صاحب فرماتے ہیں: "جو اللہ کا ذکر کرتا ہے، وہ کبھی ہارتا نہیں"۔ اب یہ جملہ بظاہر عجیب لگتا ہے۔ تم سوچو گے: بابا، دنیا میں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کو یاد کرتے ہیں مگر غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، بیمار ہیں، مشکلات میں ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہیں ہارتے؟

عبدالرحمان، یہ فرق ہے دنیا کے پیمانے اور اللہ کے پیمانے میں۔ دنیا ہار اور جیت کو دولت، شہرت اور طاقت سے تولتی ہے۔ لیکن اللہ کے نزدیک اصل جیت یہ ہے کہ تمہارا دل سکون میں ہو، تمہارا رب سے رشتہ قائم ہو اور آخرت میں تم کامیاب ہو جاؤ۔

دیکھو، اگر کوئی انسان بڑی بڑی دولت کا مالک ہے لیکن رات کو سکون کی نیند نہیں سو پاتا، تو کیا وہ جیتا ہوا ہے؟ اور اگر کوئی غریب ہے، معمولی سا مکان ہے، لیکن اس کے دل میں اطمینان ہے، اس کے ہونٹوں پر اللہ کا ذکر ہے، تو کیا وہ ہارا ہوا ہے؟ نہیں عبدالرحمان، وہ اصل میں جیتا ہے۔

میں تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں۔ پرانے وقتوں میں ایک درویش تھا جو جنگل میں رہتا تھا۔ اس کے پاس نہ کھیت تھے نہ دولت، نہ نوکر تھے نہ نوکری۔ لیکن ہر وقت اللہ کا ذکر کرتا رہتا۔ لوگ اس سے پوچھتے: "بابا جی، آپ کے پاس کچھ نہیں، آپ خوش کیسے ہیں؟" وہ مسکرا کر کہتا: "میرے پاس سب کچھ ہے کیونکہ میرا دل اللہ کے ذکر سے آباد ہے"۔

دوسری طرف ایک بادشاہ تھا جس کے پاس خزانے تھے، فوجیں تھیں، محل تھے۔ لیکن دل میں اتنی بے چینی تھی کہ نیند نہیں آتی تھی۔ ایک دن اس نے اس درویش کو بلایا اور کہا: "تمہارے پاس کچھ نہیں پھر بھی تم ہنستے ہو اور میرے پاس سب کچھ ہے پھر بھی دل غمگین ہے"۔ درویش نے جواب دیا: "بادشاہ سلامت! فرق یہ ہے کہ آپ دنیا کے مالک ہیں اور میں دل کے مالک کے ساتھ جڑا ہوں"۔

عبدالرحمان، یہ قصہ ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ اللہ کے ذکر والے کبھی نہیں ہارتے۔ ان کے پاس سکون ہے، ان کے پاس اطمینان ہے اور یہی اصل جیت ہے۔

اب میں تم سے پوچھوں عبدالرحمان: آج تمہارے دوست، تمہاری کلاس، تمہارے دفتر کے لوگ کس کو کامیاب کہتے ہیں؟ وہی جس کے پاس بڑی گاڑی ہے، فائیو اسٹار ڈنر کرتا ہے، یا بیرونِ ملک سفر کرتا ہے۔ لیکن تم دیکھو گے کہ یہ سب ہونے کے باوجود اکثر دل خالی ہیں، اکثر رشتے ٹوٹے ہوئے ہیں، اکثر ذہن بے سکون ہیں۔

اس کے برعکس وہ شخص جس کے پاس کم ہو لیکن صبح فجر میں اٹھ کر اللہ کو یاد کرتا ہے، قرآن پڑھتا ہے، دوسروں کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اور ہر حال میں شکر ادا کرتا ہے، وہ بظاہر عام سا لگتا ہے، لیکن دراصل جیت اسی کی ہے۔

اسی لیے عبدالرحمان، جب میاں محمد بخشؒ کہتے ہیں"جو اللہ کو یاد کرے وہ کبھی نہیں ہارتا" تو وہ دنیا کی ہار جیت کی بات نہیں کر رہے۔ وہ اصل ہار اور اصل جیت کی بات کر رہے ہیں۔

تو عبدالرحمان، ان دو مصرعوں کا سبق یہ ہے کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کیونکہ وہی اصل مالک ہے۔ باقی سب عارضی ہے، سب ختم ہو جانے والا ہے اور اصل جیت اس شخص کی ہے جس کا دل اللہ کے ذکر سے آباد ہے۔ چاہے دنیا اسے ناکام سمجھے، حقیقت میں وہی کامیاب ہے۔

آؤ اب دوسرے شعر کو پڑھتے ہیں:

رحمت دا مینہہ پا خدایا، باغ سکا کر ہریا
بوٹا آس امید میری دا کر دے میوے بھریا

Pour the rain of mercy, O Allah! turn the shriveled garden green.
Make the plant my hopes and longings full of fruit

یعنی: اے اللہ! اپنی رحمت کی بارش برسا دے، تاکہ میرا سوکھا ہوا باغ پھر سے سرسبز ہو جائے اور میری امیدوں اور خواہشوں کے پودے پھل سے بھر جائیں۔

عبدالرحمان، یہ اشعار دعا کی زبان ہیں، لیکن ان میں ایک گہری روحانی حقیقت چھپی ہے۔ شاعر انسان کی زندگی کو ایک باغ سے تشبیہ دیتا ہے۔ جب دل غفلت اور گناہوں کی وجہ سے خشک ہو جاتا ہے، تو اس کو اللہ کی رحمت چاہیے ہوتی ہے تاکہ وہ پھر سے زندہ ہو۔ اسی طرح انسان کی امیدیں اور تمنائیں اللہ کے فضل سے ہی پوری ہوتی ہیں۔

عبدالرحمان، باغ ہمیشہ سرسبز ہو تو خوشی دیتا ہے، سایہ دیتا ہے، خوشبو اور پھل دیتا ہے۔ لیکن اگر باغ سوکھ جائے، درخت پیلے ہو جائیں اور زمین پھٹ جائے تو وہ ویرانی اور دکھ کی علامت بن جاتا ہے۔

انسان کی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اگر دل میں ایمان اور ذکر ہو تو یہ باغ سرسبز رہتا ہے، خوشی اور سکون دیتا ہے۔ لیکن اگر دل غفلت اور گناہوں سے خالی ہو جائے تو وہ سوکھا باغ بن جاتا ہے۔ شاعر اسی کیفیت کو بیان کرتا ہے کہ اے اللہ! میری زندگی کے سوکھے باغ کو اپنی رحمت سے سرسبز کر دے۔

تم سوال کروگے کہ "رحمت کی بارش سے کیا مراد ہے؟"

عبدالرحمان، رحمت کی بارش سے مراد اللہ کی مغفرت، اس کا فضل اور اس کی برکت ہے۔ جس طرح بارش خشک زمین کو زندہ کر دیتی ہے، اسی طرح اللہ کی رحمت مردہ دلوں کو زندہ کر دیتی ہے۔

قرآن میں ہے: "وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الُغَيُثَ مِن بَعُدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحُمَتَهُ ۚ وَهُوَ الُوَلِيُّ الُحَمِيدُ" (الشوریٰ: 28)

"وہی ہے جو بارش نازل کرتا ہے اس وقت جب لوگ ناامید ہو جاتے ہیں اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے"۔

تم کہو گے کہ "سوکھے باغ کا مطلب انسان کی زندگی میں کیا ہے؟"

عبدالرحمان، سوکھا باغ انسان کی وہ حالت ہے جب دل میں اللہ کی یاد کم ہو جائے، نیک اعمال چھوٹ جائیں اور انسان گناہوں اور غفلت میں ڈوب جائے۔ ایسے دل کو بارش چاہیے اور وہ بارش اللہ کی طرف رجوع اور اس کی رحمت ہے۔

یہ کیفیت ہر انسان کو کبھی نہ کبھی پیش آتی ہے۔ کبھی مایوسی، کبھی پریشانی، کبھی گناہوں کا بوجھ، یہ سب دل کو خشک کر دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ! تو ہی ہے جو میرے دل کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے۔

تمہاری نسل ضرور سوال اٹھاے گی کہ "شاعر نے امیدوں اور تمناؤں کے پودے کے پھل سے بھرنے کی دعا کیوں کی؟"

عبدالرحمان، ہر انسان کے دل میں تمنائیں اور امیدیں ہوتی ہیں۔ لیکن وہ پوری تبھی ہوتی ہیں جب اللہ کی رحمت شامل ہو۔ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ! میری تمنائیں فضول نہ رہیں، ان کو تو اپنی رحمت سے پھل دار کر دے تاکہ میری زندگی بامقصد ہو۔

یہی دعا ہمیں بھی کرنی چاہیے کہ ہماری نیک خواہشیں اور امیدیں اللہ کے فضل سے پوری ہوں، نہ کہ دنیا کی دھوکہ دہی میں برباد ہو جائیں۔

یہ بھی سوچو کہ "یہ نصیحت آج کے انسان کے لیے کیوں ضروری ہے؟"

عبدالرحمان، آج کے دور میں انسان نے اپنی امیدیں دنیا سے وابستہ کر لی ہیں: دولت، شہرت، عیش و آرام۔ لیکن یہ امیدیں اکثر ادھوری رہتی ہیں اور انسان کو مایوس کر دیتی ہیں۔ شاعر یاد دلاتا ہے کہ اصل امید اللہ کی رحمت سے باندھنی چاہیے۔ وہی باغ کو سرسبز کرتا ہے، وہی پودوں کو پھل دار کرتا ہے۔

یہ مثال ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عبادت اور ایمان انسان کے باغ کے درخت ہیں۔ دعا اور ذکر اس کی کھاد ہیں اور اللہ کی رحمت وہ بارش ہے جو اس کو زندہ رکھتی ہے۔ اگر یہ بارش نہ ہو تو ایمان کے درخت بھی سوکھ جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اللہ کی رحمت طلب کرنی چاہیے۔

ایک روایت ہے کہ ایک صوفی بزرگ ہر وقت یہ دعا کرتے تھے: "اے اللہ! میرے دل پر اپنی رحمت کی بارش برسا تاکہ میں کبھی خشک نہ ہو جاؤں"۔ ان کے شاگرد نے پوچھا: "آپ یہ دعا بار بار کیوں کرتے ہیں؟" تو بزرگ نے کہا: "کیونکہ اگر دل سوکھ جائے تو پھر نیکیاں بھی پھل نہیں دیتیں"۔

یہ وہی بات ہے جو شاعر یہاں کہتا ہے۔

سوچو بھلا کہ "عملی زندگی میں اس دعا پر کیسے عمل کریں؟"

اس کے لیے ہمیں:

اللہ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے کہ میرے دل پر اپنی رحمت کی بارش نازل فرما۔

ذکر اور توبہ کو معمول بنا لینا چاہیے تاکہ دل نرم رہے۔

اپنی تمناؤں کو دنیا کے بجائے آخرت اور اللہ کی رضا سے وابستہ کرنا چاہیے۔

اپنی زندگی کو باغ کی طرح سنوارنا چاہیے تاکہ اللہ کی رحمت سے پھل دار ہو۔

تم پوچھو گے کہ "یہ حقیقت دل پر کیا اثر ڈالتی ہے؟"

عبدالرحمان، اس سے دل میں عاجزی اور اللہ پر بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اصل مدد اور اصل رحمت صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ سوچ انسان کو دعا اور امید کی طرف مائل کرتی ہے اور مایوسی کو ختم کرتی ہے۔

ان دو مصرعوں میں میاں محمد بخشؒ نے دعا اور رحمت کی حقیقت کو بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے۔ زندگی کا سوکھا باغ صرف اللہ کی رحمت سے سرسبز ہوتا ہے اور ہماری امیدوں اور تمناؤں کے پودے بھی اسی کی برکت سے پھل دیتے ہیں۔ یہ اشعار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ہمیشہ اللہ سے دعا مانگو، اپنی امیدیں اسی کی رحمت سے وابستہ کرو اور اپنی زندگی کو ایمان اور ذکر سے باغ کی طرح سرسبز رکھو۔

بہت رات ہوگئی ہے باقی باتیں کل لکھوں گا۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari