Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Kitab Ul Muneer (2)

Kitab Ul Muneer (2)

کتاب المنیر (2)

عبدالرحمن، تم نے کبھی نہ کبھی نمرود کا نام ضرو ر سنا ہوگا۔ یہ بین النہرین کا ایک بادشاہ تھا۔ نمرود وہ بادشاہ تھا کہ جسے اس کی ستارہ شناسی اور اس کے نجومیوں نے ستاروں کو پڑھنے کے بعد یہ بتایا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہوگا جو ہمارے مذہب کے خلاف کھڑا ہوگا اور اسی لیے نمرود نے نومولود بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور یہی وہ وجہ تھی کہ ابراہیمؑ کی والدہ نے انہیں ایک الگ مقام پر جنم دیا تھا یہی وہ بادشاہ تھا جس کے متعلق کتاب المقال یعنی بک آف سکرولز میں لکھا ہوا ہے کہ اس نے تین سال تک ستاروں کا علم اس شخص سے سیکھا جو کشتی پر پیدا ہوا تھا۔

آج بھی تم کو 1286 کے اسپین میں پرانی ہسپانوی زبان میں لکھا ایک قصہ اکثر سننے کو ملتا ہوگا کہ جب بادشاہ نے ستاروں کی طرف دیکھا تو اسے پتا چلا کہ ہمارے والد ابراہیم کی پیدائش ہونے والی ہے۔ ان لوگوں کے ستاروں کے علم کے متعلق دو دریاؤں کے درمیان سے جو تختیاں ملیں ہیں ان میں لکھا ہے کہ ایک آشوری بادشاہ آشور بنیپال Ashurbanipal نے نینوہ میں پوری ایک لائبریری بنوائی تھی جس میں ستاروں کا علم، مایتھولوجی اور سائنس کے متعلق تختیاں موجود تھیں۔ اس بادشاہ نے ستاروں کے علم میں دو ماہر لوگ رکھے ہوئے تھے۔ یہ دو لوگ اپنے ستاروں کے علم میں اس قدر ماہر ہو چکے تھے کہ ہر کچھ دن بعد وہ بادشاہ کو ستاروں کی چالوں کے مطلب پر ایک رپورٹ بنا کر دیتے تھے جسے دیکھ کر بادشاہ اپنے فیصلے کیا کرتا تھا۔

جب نینوہ پر ایرانیوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے اس لائبریری کو تباہ کر دیا البتہ آج بھی ان کی تختیوں کی ایک پوری سیریز موجود ہے جو ساری کی ساری ستاروں کے علم سے متعلق ہے۔

لیکن عبدالرحمن۔

آخر ستاروں کے علم کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی یہ علم کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟

میں تم کو بخاری کی حدیث نمبر 7 سناتا ہوں۔ یہ تب کی بات ہے جب آپ ﷺ اور قریش کے درمیان ایک عارضی معاہدہ ہوا تھا۔ ابوسفیان اور قریش کے کچھ اور تاجر تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے۔ جب یہ لوگ ایلیا پہنچے جہاں بادشاہ ہریکیلیس یعنی کہ ہرکل کا راج تھا۔ اس کا در بار لگاتھا اور وہاں روم کے بڑے بڑے لوگ یعنی اشرافیہ اور روم کے بیوروکریٹس بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے اپنے ایک ترجمان کو بلوایا اور ان لوگوں سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص اس کے سب سے زیادہ قریب ہے جس نے عرب میں دعویٰ رسالت کیا ہے؟

ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں ان کا سب سے قریبی رشتہ دار ہوں۔ ہیریکیولس نے ابوسفیان کو آگے اور قریش کے باقی لوگوں کو ابوسفیان کے پیچھے بیٹھنے کا کہا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ انہیں بتاؤ میں ابوسفیان سے کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بولے تو پیچھے بیٹھے ہوئے تم لوگوں نے مجھے فوراً بتانا ہے۔ اس کے بعد ہریکیولس نے ابوسُفیان سے آٹھ سوال پوچھے تھے جن کے جواب سننے کے بعد اس نے کہا کہ اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب محمد اس جگہ کے مالک ہو جائیں گے جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں۔

مجھے یہ تو پتہ تھا کہ وہ پیغمبر آنے والا ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا اور اس کے بعد ہرکل آپ ﷺ کا وہ خط اونچی آواز میں پڑھنے لگا جو آپ ﷺ نے حاکم بصری کو بھیجا تھا اور پھر حاکم بصری نے وہ خط ہریکیولیس کو بھیج دیا تھا اور ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب وہ خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اِردگرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھنے لگیں اور ہمیں ان لوگوں نے باہر نکال دیا تو میں نے اپنے ساتھ والوں سے کہا کہ اب مسلمانوں کے نبی کریم محمد ﷺ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔ دیکھو تو ان سے تو روم کا بادشاہ بھی ڈرنے لگے اور مجھے اس وقت اس بات کا دل سے یقین ہوگیا تھا کہ محمد الرسول اللہ ﷺ عنقریب غالب آکر رہیں گے۔

یہ واقعہ اس لئے اہم ہے کیونکہ یہی وہ بادشاہ ہرکل تھا جو ستاروں کے علم میں پوری مہارت رکھتا تھا۔ یہی وہ بادشاہ تھا جس کا ایک مصاحب اور اس کا پادری کہتا ہے کہ ہرکل ایک دن شدید پریشان تھا اور جب ہم نے اسے پوچھا تو اس نے بتایا کہ آج رات میں نے ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ عرب والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے اور پھر اس بات کو مزید پکا کرنے کے لیے ہرکل نے اپنے دوست کو خط بھی لکھا اور وہ دوست بھی ستاروں کے علم میں ماہر تھا اور اس نے بھی یہی جواب دیا کہ واقعی ایسا ہی ہونے والا ہے اور پھر اس کے بعد ہرکل نے اپنے درباریوں کو بلا کر اپنے محل کا دروازہ بند کیا اور ایک میٹنگ کی جس کے اندر اس نے رومن رہنماؤں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہمیں محمد ﷺ کی بات سننی چاہیے لیکن وہ لوگ نہیں مانے اور بالاخر مایوس ہو کر ہرکل خود بھی کفر پر ہی رہا۔ تم نے اس واقعے میں دیکھا کہ ستاروں سے لیے گئے علم کو وہ لوگ کس قدر سنجیدہ لیتے تھے۔

انہوں نے آسمان اور ستاروں کو خداوں کے ناموں کے مطابق گروپز میں تقسیم کیا ہوا تھا مثلا ان کے خدا یا ان کے معبود انلل کا گروپ، ایہا کا گروپ، انو کا گروپ جو کہ ان کے دیوی دیوتاؤں کے علمی نام تھے۔ پھر وہ یہ دیکھتے کہ کوئی خاص ستارہ کس خدا کے گروپ میں سے طلوع ہوا ہے اور اس طرح ہر ستارے کے نکلنے کے وقت جگہ اور راستے کو دیکھ کر وہ ہونے والے واقعات کا اندازہ لگایا کرتے تھے۔

سورہ الصافات کی اس آیت کا مطلب تو تم پر اچھی طرح سے واضح ہوگیا ہوگا کہ حضرت ابراہیمؑ نے جھوٹ کہا کہ میں بیمار ہوں کیونکہ دو دریاؤں کے درمیان اس سرزمین میں ستاروں کا علم اور اس علم پر بھروسہ کرکے روز مرہ کی زندگی گزارنا، اپنے چھوٹے بڑے فیصلوں کو ستاروں کے علم کے تحت کرنا ان کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ابراہیمؑ کو یہ جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب تم کو سورہ انبیاء میں ملے گا کہ جب تم پیٹھ پھیر کر چل دوگے تو میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا اور وہ کیا چال تھی جو ان لوگوں کے جانے کے بعد ابراہیمؑ نے بتوں کے ساتھ چلی۔

ابراہیمؑ ان بتوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ تم کھاتے کیوں نہیں؟ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم جواب بھی نہیں دیتے اور پھر وہ واقعہ پیش آیا ہے کہ ابراہیمؑ نے ان بتوں کو کلہاڑے سے توڑا اور پھر اس کلہاڑے کو سب سے بڑےبت کے اوپر رکھ دیا۔ اور جب وہ لوگ واپس آئے تو پوچھا کہ ابراہیم یہ تو نے کیا کیا ہے؟ اور جب ابراہیمؑ نے کہا کہ یہ اس بڑے بت نے کیا ہے تو تم اس سے سوال کرو؟

عبدالرحمن، وہ شرمندہ تو ہوگئے لیکن پھر بھی انہوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکنے کافیصلہ کیا اب اس دوران وہ لوگ کہاں گئے ہوئے تھے کہ ان کی غیر موجودی میں ابراہیمؑ نے ان سارے بتوں کو توڑا؟

تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ ان کی کوئی عید تھی یا کوئی میلہ تھا جہاں وہ جایا کرتے تھے اور ابراہیمؑ نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا۔ دراصل تہواروں کے حوالے سے سب سے پرانی تہذیبوں میں دو دریاؤں کے رہنے والوں کے تہوار ملتے ہیں۔ ان کا پورا سال ہی مختلف تہواروں سے سجا ہوتا تھا۔

رہی بات آگ اور اس جگہ کی جہاں وہ آگ تیار کی گئی تھی تو ایک بات ذہن میں رکھیں کہ بین النہرین کا یہ علاقہ زیادہ مقدار میں لکڑی پیدا نہیں کرتا اس لیے یہ لوگ اپنی زیادہ تر عمارتوں میں مٹی کے تنور نما حصّہ بنوایا کرتے تھے جہاں آگ جلا کر رکھی جاتی تھی۔ ایسا گھروں کے علاوہ ان کی عبادت گاہوں میں بھی ہوتا تھا۔ شاید وہ کوئی ایسا ہی بڑا تنور تھا جس میں انہوں نے ابراہیمؑ کو پھینکا۔

جب انہوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا تو اس وقت ان کی زبان پر لا الہ الا انت سبحانک۔ والی دعا تھی اور اللہ نے اس غضبناک آگ سے ابراہیمؑ کو محفوظ کر لیا تھا جیسا کہ سورہ انبیاء میں ہے کہ ہم نے کہہ دیا کہ اے آگ تو ٹھنڈی ہو جائے اور ابراہیم کے لیے سلامتی کی چیز بن جائے۔ حضرت علیؑ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت آگ کو سلامتی کے ساتھ ٹھنڈے ہونے کا حکم نہ دیا جاتا تو وہ آگ اتنی ٹھنڈی ہو جاتی کہ ابراہیمؑ کو پھر اس کی ٹھنڈک سے نقصان پہنںچنے کا اندیشہ تھا۔ [عبدالرحمن، یہاں مجھے ہمیشہ سے حکم کے صاف اور کامل ہونے کا احساس ہوتا ہے جو ہم ان دنوں menagement کے اصولوں میں پڑھا کرتے ہیں ]۔

حضرت ابراہیمؑ کے آگ کے ساتھ سلامتی سے باہر نکلانے کے بعد قرآن پاک میں ایک اور واقعہ کا ذکر ہے جو ابراہیمؑ کے آگ سے نکلنے کے بعد ہوا تھا یہ واقعہ ہے ابراہیمؑ اور ایک بے نام بادشاہ کا مکامہ اور یہ مکالمہ سور بقرہ کی آیت 258 میں ہے کہ کیا تم نے اسے نہیں دیکھا جو بادشاہ ابراہیمؑ سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے وہ کہنے لگا کہ میں بھی زندگی اور موت دیتا ہوں تو ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا۔

ایک اور بادشاہ ہے جس کے ساتھ ابراہیمؑ کا ایک اور مکالمہ ہوا تھا اور جس کے ساتھ ابراہیمؑ نے اپنا تیسرا اور آخری جھوٹ بولا کہ سارا ان کی بیوی نہیں بلکہ بہن ہے۔

ابو ہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ ابراہیم اپنی بیوی کے ساتھ سفر پر جا رہے تھے کہ ایک بستی کے پاس سے گزرے جہاں کسی ظالم بادشاہ کی حکومت تھی۔ کسی نے ظالم بادشاہ سے کہا کہ اس شخص (یعنی ابراہیم) کے ساتھ ایک نہایت دلکش عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیمؑ کو بلوا بھیجا اور ان سے پوچھا۔ "یہ عورت کون ہے؟" ابراہیم نے کہا، "یہ میری بہن ہے"۔

پھر ابراہیم نے سارہ کے پاس جا کر کہا، "اے سارہ! روئے زمین پر تمہارے اور میرے سوا کوئی مومن نہیں ہے، اس شخص نے مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے کہا کہ تم میری بہن ہو، لہٰذا میرے قول کی مخالفت نہ کرو"۔

 

Check Also

Melay Ki Kahani

By Rauf Klasra