Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Al Saihata (2)

Al Saihata (2)

الصَّيْحَةُ (2)

یہ معجزہ دیکھنے کے بعد سورہ نمل کے مطابق اہلِ حجر دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے ایک وہ جن کے دل اللہ کی طرف مائل ہو گئے لیکن دوسرے وہ جو اس معجزے کے بعد مزید سرکش ہو گئے۔ ان کی اس تقسیم کے بعد صالحؑ نے انہیں ایک بات کہی وہ بات پانچ سورتوں میں ہے اور ان تمام مقامات میں صالحؑ کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ دیکھو یہ اللہ کی اونٹنی ہے اسے چھوڑ دو تاکہ یہ زمین میں کھاتی پھرے۔ اسے کسی طرح کی تکلیف نہ دینا ایک دن پانی پینے کی باری اس کی ہوگی اور ایک دن پانی پینے کی باری تمہارے جانوروں کی ہوگی تم نے اس کی باری کا خیال رکھنا ہے اور اسے کسی طرح کی برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ اس کے بعد تم پر ایک دردناک عذاب ٹوٹ کررہے گا۔

عبدالرحمان۔

2018 میں تین بڑے اداروں کنگ سعود یونیورسٹی، فرانس کے سین آر ایس اور جرمنی کے میکس پلائنگ انسٹیٹیوٹ کے آرکیالوجی ڈپارٹنمنٹ نے مل کر وادی حجر کے قریب کی تھی اور یہ دریافت تھی وادی حجر کی چٹانوں میں تراشے ہوئے لائف سائز اونٹوں کے Reliefs کی۔ آرکیالوجی کی زبان میں چٹانوں میں تراشی شکلوں کو ہم ریلیفز کہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چٹان میں تراشے اونٹوں میں سے کچھ کے پیٹ گول اور ابھرے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ حاملہ ہوں۔ ان ریلیفز کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے اونٹ چٹان سے باہر آ رہے ہیں۔

عبدالرحمان۔

سورہ قمر کے مطابق یہی اونٹنی ان لوگوں کے لیے آزمائش بن گئی اس کا پانی پینا انہیں تکلیف دینے لگا اس کا چلنا پھرنا انہیں غصہ دلانے لگا۔

حجر والوں کے نو سرداروں نے ایک عورت عنیزہ اور اس کی بیٹیوں کے اکسانے پر آپس میں فیصلہ کیا کہ اللہ کی اُونٹنی کو قتل کر دیا جاۓ، ایک نے اُونٹنی پر تیر چلا دیئے لیکن وہ عورتیں اس پر راضی نہیں تھیں، وہ باہر نکل آئیں۔۔ اپنے چہروں کو پیٹنے لگ گئیں۔ چیخنے چلانے لگ گئیں اور ان مردوں کو ابھارنے لگ گئیں کہ اسے قتل کرو اور سورہ قمر کے مطابق فَنَادُوا الصَاحِبَهُم یعنی کہ پھر انہوں نے اپنے ایک بڑے آدمی کو اونچی آواز دی اور اس نے بڑی شدت سے اونٹنی پر تلوار چلا کر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔

[کونچیں دراصل ران کی پچھلی طرف کے عضلات muscles کو کہتے ہیں ]

کونچیں کٹ جانے کے بعد اس اونٹنی نے ایک بہت زوردار چیخ ماری تاکہ اس کا بچہ جہاں کہیں بھی ہو بھاگ جائے۔ اونٹنی کا چھوٹا سا بچہ بھاگتا ہوا ایک پہاڑ پر پہنچا اور چیختا چلاتا غائب ہوگیا۔ ایک تفسیر کے مطابق غائب ہونے سے پہلے اس نے بھی تین مرتبہ چیخ ماری تھی۔

اس پر حضرت صالحؑ نے ان لوگوں کو کہا کہ اب تم صرف تین دن تک اپنے گھروں میں رہ سکو گے۔۔ لیکن جن کے سروں پر ہی کفر اور تکبر چڑھا ہو وہ اپنی نفرت میں اندھے ہو جاتے ہیں لہٰذا سورہ نمل کے مطابق انہوں نے قسم اٹھا لی کہ اب صالح اور ان کے گھر والوں کا بھی قتل کرنا ہے مگر اب انہیں اللہ کے حکم میں آ کر رہنا تھا لہٰذا ان کے چہرے بدلنا شروع ہوئے پہلے دن ان کے چہرے زرد ہوئے دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن ان کی رنگت سیاہ پڑ چکی تھی اور سورج کے نکلتے وقت آسمان سے ایک بہت سخت تیز چیخ آئی جس سے وہ شہر اور اس کے سب مکین دہل گئے اور کھڑے نہ رہ سکے، خوف سے روحیں نکلنے لگیں، حرکات و سکنات ٹھنڈی پڑ گئیں اور سورہ اعراف اور ہود کے مطابق بالاخر وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ گرے پڑے رہ گۓ۔ محض جسم۔۔ جن میں نہ ہی روح باقی تھی اور نہ ہی کوئی حرکت۔ سورہ ہود کے مطابق ایسے کہ جیسے وہ وہاں کبھی آباد ہی نہ تھے۔ سورہ قمر کے مطابق اس چیخ کے بعد وہ ایسے رہ گئے کہ جیسے سوکھی ہوئی گھاس۔ سورہ نجم کے مطابق سوائے ایمان رکھنے والوں کے ان میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا اور سورہ نمل کے مطابق ان کے مکانات اجڑے پڑے ہیں اور جو لوگ علم رکھتے ہیں ان کے لیے ان میں بہت بڑ ی نشانی ہے۔۔

لیکن عبدالرحمان۔

چیخ سے انسان کیسے مر سکتا ہے؟

میں کل پڑھ رہا تھا کہ، جیمز ویب سیٹلائٹ ٹیلی سکوپ کو Ariane5 راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا ہے۔ جانتے ہو کہ Ariane5 راکٹ اپنے لانچ کے وقت، 170 decibelsکی آواز پیدا کرتا ہے۔ یعنی انسان کی طرف سے بنائی گئی، اب تک کی سب سے بلند آواز۔ ایک ہوائی جہاز کے جیٹ انجن کی آواز کو تقریباً 140 ڈیسیبل مانا جاتا ہے، جو تمہارے کانوں کو فوری طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سوچو (بلکہ گوگل کرلو) کہ تمہارا جسم کس شدّت کی آواز کو برداشت کر سکتا ہے؟ انسان 0 dB(سماعت کی حد)اور 130 dB(درد کی حد)کے درمیان کی سطح کی آواز برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ انسان کے سننے کی رینج ہے۔

یوں سمجھو کہ ایک ٹرک انجن کی آواز 80 ڈیسیبل تک ہوتی ہے، اور ایک جیٹ انجن کی 130 ڈیسیبل تک۔ یہ آوازیں برداشت کرنے کے قابل ہوتی ہیں، لیکن جیسے جیسے آواز 150 ڈیسیبل سے اوپر جانا شروع ہوتی ہے، جسم پر اس کا اثر ہوتا محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اب سنو، ایک عام راکٹ لانچ ہوتے وقت 165 ڈیسیبل تک کی آواز پیدا کر سکتا ہے، یہ آواز مار تو نہیں سکتی، لیکن انسان کے کانوں کے پردے پھاڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ SaturnV ایک امریکی سپر ہیوی لفٹ لانچ وہیکل تھی، جسے NASAنے 1967 اور 1973 کے درمیان استعمال کیا تھا۔

تین مراحل پر مشتمل، مائع ایندھن سے چلنے والا یہ راکٹ، SaturnV چاند کی انسانی تلاش کے لیے اپولو پروگرام کے تحت تیار کیا گیا تھا، اور بعد میں اسکائی لیب کو لانچ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ تمہیں یاد ہوگا کہ، اسکائی لیب امریکہ کا پہلا خلائی اسٹیشن تھا۔ SaturnV راکٹ نے 150 decibels کی آواز کو پیدا کیا۔ لانچ کے وقت اس کی آواز سے پیدا ہونے والی توانائی اس قدر زیادہ تھی کہ، لانچ پیڈ پر کنکریٹ پگھل گیا تھا۔ نقصان سے بچنے کے لیے لانچ پیڈ پر تین لاکھ گیلن پانی گرایا گیا تھا، تاکہ وہ راکٹ کی آواز سے پیدا ہونے والی اینرجی کو جذب کر سکے۔

اور سنو! نیلی وہیل، جس کو زمین پر اب تک کا سب سے بڑا جانور جانا جاتا ہے، اس کے بڑے سائز کے ساتھ ساتھ، حیرت میں ڈالنے کے لیے اس کی آواز بھی ہے۔ نیلی وہیل کی آواز 188 ڈیسیبل تک پہنچتی ہے، گرجنے والے جیٹ انجن کے کان چھیدنے والی، 140 ڈیسیبل کی آواز سے بھی زیادہ۔ اس کی آوازیں 1,000 میل (1,600 کلومیٹر) دور تک سنی جا سکتی ہیں۔ وہیلیں بات چیت کرنے، خوراک تلاش کرنے اور ایک دوسرے کو تلاش کرنے کے لیے شور مچاتی ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور سماجی رابطوں کے لیے مختلف قسم کی آوازوں کا استعمال کرتی ہیں۔

وہیل کی طرف سے نکالی جانے والی آوازوں کی تین اہم اقسام ہیں کلکس، سیٹیاں اور پلس۔ اگر انسان اس کے پاس کھڑے ہو کر اس کی آواز سنے، تو جسم میں اس قدر وائیبریشن پیدا ہوگی کہ، انسانی جسم گرم ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایک اور بات سنو، 20 مئی 1883 کو انڈونیشیا میں کراکاٹوا (Krakatau) آتش فشاں پھٹنے کا حادثہ ہوا۔ اس میں کراکاٹوا جزیرے کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ، اور اس کے آس پاس کے جزیرے تباہ ہو گئے۔ یہ حادثہ ریکارڈ شدہ تاریخ کے سب سے مہلک اور تباہ کن آتش فشاں واقعات میں سے ایک تھا، اور دھماکے اتنے پر زوردار تھے کہ ان کی آوازیں 3,110 کلومیٹر (1,930 میل) دوری پرتھیں، مغربی آسٹریلیا اور ماریشس کے قریب روڈریگس میں 4,800 کلومیٹر (3,000 میل) دور سنی گئیں۔

اس آواز کو دنیا بھر میں 50 مختلف مقامات پر سنا جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اور آواز کی لہر نے دنیا میں سات مرتبہ سفر کیا تھا۔ کم از کم 36,417 اموات اس کے پھٹنے اور اس سے پیدا ہونے والی سونامیوں سے منسوب ہیں۔ تقریبا سو میل کے فاصلے پر آواز کی شدّت 172 ڈیسیبل ریکارڈ کی گئی تھی۔ آخر آواز میں ایسا کیا ہے کہ، انسان کو مار ہی ڈالے؟ 200 ڈیسیبل سے اونچی آواز سب سے پہلے انسانی کان کے پردے پھاڑے گی، اور پھر پھیپھڑوں میں Embolism پیدا کر دے گی، یعنی آپ کے پھیپھڑوں میں ہوا کے بڑے بڑے بلبلے بن جائیں گے، اور پھیپھڑوں میں ہوا کا دباؤ اتنا بڑھ جائے گا کہ وہ پھٹ جائیں گے۔ دل اور دیگر اعضا کا بھی لگ بھگ یہی حال ہوگا۔

صرف یہی نہیں کہ نقصان پہنچانے والی آوازوں کا ہمیشہ اونچا ہونا ضروری ہے، بلکہ 20 ہرٹز سے نیچے کی آوازیں جو ہم سن بھی نہیں سکتے (انفراسونک آوازیں) کو اگر انسانی جسم پر فوکس کرکے چھوڑا جائے، تو ہماری آنکھوں کے ڈھیلے تیز رفتاری کے ساتھ لرزنے لگیں گے، ہمیں اُلٹیاں شروع ہو جائیں گی اور جسم میں شدید درد کی تیز لہریں دوڑیں گی۔ سونک اور الٹراسونک ہتھیار، (USW) جو کسی مخالف کو زخمی کرنے یا ناکارہ کرنے کے لیے آواز کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ سونک ہتھیار آواز یا الٹرا ساؤنڈ کی فوکسڈ بیم بناتے ہیں۔ دوسرے آواز کا ایک ایریا فیلڈ تیار کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ ابھی تک فوجی اور پولیس فورس، سونک ہتھیاروں کا صرف محدود استعمال ہی کرتی ہیں۔

سوره ہود کی آیت 65 اور 67 میں صاف لکھا ہے کہ، تین دن کے بعد، صبح کے وقت حجر والوں پر الصَّيْحَةُ کا عذاب آیا۔ اور جب میں الصَّيْحَةُ کا اردو ترجمہ کرتا ہوں تو جواب آتا ہے "چیخ" اور انگریزی میں کرتا ہوں تو جواب آتا ہے "shout"۔ مطلب میں آواز ہی کی بات کر رہا ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس آواز یعنی الصَّيْحَةُ کا نتیجہ کیا ہوا؟

سوره ہود کی آیت 67 کا آخری حصّہ: "اپنے گھروں میں (مُردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئے"۔

Check Also

Safar Sarab

By Rehmat Aziz Khan