Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Aik Sacha Khwab

Aik Sacha Khwab

ایک سچا خواب

"مسافرتھا۔۔ مہمان تھا۔۔ دور دیس سے آیا تھا۔۔"صرف اپنے حصے کا رزق لینے۔۔ نوکری کرنے۔۔ کیا مہمان کے ساتھ یہ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ " وہ قید خانے کے ٹھنڈے فرش پر بے سدھ پڑا تھا۔۔ باہر کھڑے سپاہی کو لگا وہ سو رہا ہے۔۔ لیکن وہ جاں کنی کی سی کیفیت میں تھا۔ اسے یاد تھا کہ کیسے پولیس نے اسے سری لنکن منیجر کے قتل کے الزام میں اسے پکڑا تھا۔ وہ سینہ چوڑا کئے پولیس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اور بھی بہت لوگ گرفتار ہوئے تھے۔

اسے تھانے کے لاک اپ میں بند کر دیا گیا تھا۔ وہ لاک اپ کے فرش پر ہاتھ کا تکیہ بنا کر لیٹ گیا۔ نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خود کو ایک ایسی جگہ پایا جو اس نے دنیا میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ تخت بچھے تھے۔۔ کچھ نورانی ہستیاں ان تختوں پر براجمان تھیں۔۔ ایک بڑے تحت کے برابر میں پریتھا کمار بھی کھڑا تھا۔۔ اس نے خود کو زنجیروں سے جکڑا ہوا پایا۔۔ خود کو آزاد کرانے کی کوشش کی مگر زنجیریں بہت مضبوط تھیں۔۔

وہ تو سمجھتا تھا کہ اسے تمغہ سے نوازہ جائے گا مگر یہاں تو ہر کوئی اسے غضب ناک نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ یہ لاک اپ تو نہیں ہے؟ اس نے چاروں طرف دیکھا۔۔ نہ جانے میں کہاں ہوں؟ ایک عدالت سی لگی تھی۔۔ سامنے نور نور ہی نور تھا۔۔ کوئی بہت خوب صورت جگہ تھی۔۔ اس کی آنکھیں چندھیا سی رہی تھیں کسی کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا۔۔ مگر اسے پرنتھا کمار صاف نظر آرہا تھا۔۔

اسے دیکھ کر غصے کی لہر سی اٹھ رہی تھی۔۔ اسے تو جہنم میں ہونا چاہئے تھا۔۔ یہ اتنےاچھے لوگوں کے ساتھ اتنی خوبصورت جگہ کیا کر رہا ہے؟ ایک بار تو اس نے بڑھ کر پرنتھا کمار پر حملہ کرنا چاہا مگر وہ حرکت نہیں کر پا رہاتھا۔۔ کوشش کے باوجود بھی آگے نہیں بڑھ پارہا تھا۔ جناب اس سے پوچھیں اس نے اتنی بے دردی سے مجھے کیوں مارا؟ پرنتھا کا جلا ہوا ہاتھ اس کی طرف کو اٹھاتھا۔

"یہ ایک گستاخ رسول ہے اور اس کو میں نے جہنم واصل کیا ہے۔" وہ فخر سے بولا۔۔ "گستاخ رسول؟ "۔۔۔ بڑی گرج دار آواز تھی۔۔ اس کی ٹانگیں لرزنے لگیں تھیں، تم نے دل کھول کر دیکھا تھا اس کا؟ اس کی نیت تھی گستاخی کی؟ جانتے ہو کیا کیا ہے تم نے؟

ایک پوری قوم کو اور ایک پوری نسل کو اسلام سے متنفر کردیا۔۔ نہ جانے کتنے سر لنکن اپنے دل میں اسلام کے لئے احترام رکھتے ہوں گے۔۔ تم نے ان سب کے دل سے اسلام کا احترام ختم کردیا۔۔ پرنتھا کمار کے بیٹوں کو دیکھا ہے تم نے؟ وہ اپنی اولاد کو اسلام کے بارے میں کیا بتائیں گے؟ یہ کہ اسلام جاہل جنونیوں کا مذہب ہے؟ کبھی سوچا سری لنکا میں جو مسلمان رہ رہے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ کیا سری لنکن قوم انھیں معاف کر دے گی؟ تمہاری جہالت کا خمیازہ اب وہ وہاں بھگتیں گے۔۔" پر نور شخصیت پر جلا ل بھی تھی۔

وہ لب بستہ کھڑا رہ گیا۔۔ یہ سب کب سوچا تھا اس نے؟ وہ بہت کوشش کر رہا تھا کہ چہرہ دیکھ سکے۔۔ مگر نہ جانے اس کی نگاہ اندھی سی کیوں ہو گئی تھی۔۔ "نہیں نہیں۔۔ میں جا ہل نہیں ہوں۔۔" اس نے صفائی پیش کی۔ اسکول جاتا تھا۔۔ قرآن بھی پڑھا ہے میں نے۔"

"کلمہ سناؤ۔" نورانی شخصیت نے اچانک حکم دیا۔

اس کا گلہ خشک ہو گیا۔۔ "وہ۔۔ میں۔۔ مجھے کلمہ ٹھیک سے نہیں آتا۔۔ بھول گیا ہوں۔۔"

"پرنتھا کمارا کو بھی عربی پڑھنی نہیں آتی تھی۔۔ وہ تو غیر مسلم تھا۔۔ تم تو مسلمان ہو۔۔ عربی سیکھی تم نے؟ " نورانی شخصیت نے پوچھا۔

عربی۔۔ نہیں عربی تو بس سپارے میں پڑھی تھی۔۔"وہ خود کو گھرا ہوا محسوس کر رہاتھا۔

"تم نے اس بے گناہ کو محض اس لئے مار ڈالا کہ یہ عربی نہیں جانتا تھا۔۔ وہ کہتا رہ گیا کہ مجھے نہیں معلوم اس پر کیا لکھا ہے۔۔ مگر تم نے اس کو جلا ڈالا۔۔ جب کہ خود تم بھی عربی نہیں جانتے۔۔ تو کہو اب تمہیں کیا سزا دی جائے؟ " وہ سخت بے چینی کا شکار تھا۔۔ شدید گرمی کا احساس تھا۔۔ پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ پرنتھا اپنے جلے ہوئے جسم کے ساتھ بھی کافی مطمئن نظر آرہا تھا۔

"تم نے آخری بار قرآن کب کھولا تھا؟ " وہ پھر پھنس گیا۔۔ ہاتھ اٹھا کر ماتھے پر رکھا۔۔ مگر کچھ یاد نہ آیا۔

"وہ دراصل اوپر رکھا ہوا ہے سنبھال کر۔۔ بچپن میں امی نے مار مار کر پڑھوا دیا تھا۔۔ بس پھر۔۔ جب سے مچان پر ہی رکھا ہوا ہے۔۔ ضرورت ہی نہیں پڑی۔۔ اماں ابا کا جنازہ مولوی نے پڑھا دیا تھا۔۔ ایصال ثواب بھی مولوی کو پیسے دے کر کروا لیتا ہوں۔"

"اذان کے الفاظ کا مطلب کیا ہے۔" نجانے کتنے سوال تھے نورانی شخصیت کے پاس۔۔ ایک کے بعد ایک سوال۔۔

"کک۔۔ کیا۔۔ مطلب۔۔ کیا؟ وہ سوال بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا جواب کیا دیتا۔

"ہر نماز کی رکعتیں بتاؤ۔" اگلا سوال تو گولی کی طرح لگا تھا اسے۔۔ بڑی دیر تک یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ آخری نماز کب پڑھی تھی۔۔ "شائد عید پر۔۔" کچھ یاد نہ آیا۔ بلاآخر اس نے ہتھیار ڈال دیئے "مجھے نہیں پتہ کہ کس نماز میں کتنی رکعتیں ہوتی ہیں۔۔ نہیں مجھے نہیں پتہ کہ اذان کے الفاظ کا مطلب کیا ہے۔۔" وہ سخت شرمندہ تھا۔۔

تپش بڑھتی جا رہی تھی۔۔ اس کے جسم کی کھال جھلس رہی تھی۔۔ آخری مرتبہ مسجد کب گئے تھے؟ نورانی شخصیات بالکل بھی رعایت کرنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔ "کچھ سال پہلے ایک پاگل غلطی سے مسجد میں آ گیا تھا اور مسجدکی ادبی کی تھی۔۔ جب میں مسجد میں گیا تھا اور اس گستاخ کو بہت مارا تھا۔۔" اب اس کا دل ذرا ٹہرا اور اس نے فخر سے جواب دیا۔

" جس کو اللہ نے حساب کتاب سے بری کردیا اسکو تو کون ہوتا ہے سزا دینے والا۔۔" چاروں طرف سے آگ کی لپٹیں سی آ رہی تھیں۔۔ زمین جل رہی تھی۔۔ وہ بار بار پیر بدل رہا تھا۔ جبکہ پرنتھا مسکرارہا تھا لگتا تھا جیسے فریادی کی فریاد سن لی گئی ہے۔ نورانی ہستی کی جانب سے پرنتھا کو نرمی سی بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا تھا۔

" لیکن بے ادبی تو بے ادبی ہی ہے کوئی جان کر کرے یا بھولے سے ہو جائے۔۔" اس نے خود کو بچانے کی کوشش کی لیکن خود اس کو احساس تھا کہ اس نے بودی سی دلیل دی ہے۔ "یہ تمہا را موبائل ہے؟ " اس کا موبائل ہوا میں اس کی آنکھوں کے سامنے تیرنے لگا۔

"ہاں یہ۔۔ یہ میرا ہے۔۔ مگر میں نے تو اس پر لاک لگایا تھا۔۔ یہ یہ کس نے کھولا؟ " اس نے رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔۔

"اس میں یہ غلیظ ویڈیوز تم دیکھتے تھے؟ " نورانی ہستی کا غیظ و غضب اس کو جھلسا رہا تھا۔۔ " میں۔۔ میں۔۔"اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔

"کیا انھوں ساری ہسٹری چیک کی ہو گی؟ " یہ سوال ایک عفریت بن کر اس کا کھا رہا تھا۔ تپش اس کی ناک میں گھسی جا رہی تھی۔۔ "بچا لو۔۔ خدا کے لئے مجھے بچا لو۔۔"وہ چیخنے لگا۔

"کیوں۔۔ کیوں بچایا جائے تمہیں۔۔ تمہارے نزدیک تو غلطی کی سزا موت ہے۔۔ اور تم نے تو گناہ کئے ہیں۔ تمہیں بھی جلایا جائے گا۔" نورانی ہستی نے سختی سی جواب دیا۔

"مگر۔۔ مگر میں تو مسلمان ہوں۔۔ مجھے کیوں؟ اپنے ہی گوشت جلنے کی عجیب سی بدبو اس کی ناک میں گھسی جا رہی تھی۔۔ "کیا مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہیں لوگوں کی جان لینے کا اختیار مل گیا ہے؟ تم سے کس نے کہا کہ تم بلا تحقیق کسی کی جان لے سکتے ہو؟ اس سے سوال کیا گیا۔۔

"وہ۔۔ ایک ویڈیو میں ایک مولانا کہہ رہے تھے کہ ہم سب پر فرض ہے کہ ہم گستاخ کو سزا دیں۔۔" اس نے الزام مولانا پر ڈالنا چاہا۔ "پھر تم نے تحقیق کی؟ کتابیں پڑھیں؟ صحابہ کی زندگی سے مثال ڈھونڈی؟

کوئی جواب نہ تھا۔۔ وہ جواب دینے کی پوزیشن میں تھا بھی نہیں۔۔ اس کا گوشت جل رہا تھا۔۔ چربی پگھل رہی تھی۔۔ پرنتھا کمار خوش تھا۔۔ اور لاک اپ کے باہر بیٹھا سپاہی اس کو سویا ہوا دیکھ رہا تھا۔

Check Also

Shirini Khori Aur Khuda Fehmi

By Mojahid Mirza