Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Traveler

Traveler

ٹریولر

سفر کو دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کہا جاتا ہے آپ ایک ٹریولر کی باڈی لینگویج سے اس کی ذہنی وسعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں آج کے اس کالم میں آپ کی ملاقات کراچی کے مشہور بزنس مین محمد بابر علی سے کرواتے ہیں بابر علی نے زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے کے بعد چار سال صرف ٹریولنگ کرنے میں گزارے اور دنیا کے پچیس سے زائد ممالک دیکھ ڈالے۔

پاکستان کا بھی کونا کونا دیکھ رکھا ہے۔ ملاقات کے دوران کہنے لگے کہ ثاقب بھائی پاکستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں میرے دوست موجود ہیں۔

کھلا ڈلا انداز، چہرے پر مسکراہٹ، خوش خوراک، آنکھوں میں بڑے خوابوں کی جھلک اور ٹریولر ہونے کی وجہ سے گفتگو میں گہرائی بابر صاحب کے ساتھ پچھلے ہفتے ناشتے پر ہونے والی ملاقات پانچ گھنٹے طویل ہوگئی۔

زندگی کو برتنے کا سلیقہ جانتے ہیں ان کی شخصیت کو دیکھ کر منیر نیازی یاد آگئے۔۔

اک دن رہیں بسنت میں
اک دن جئیں بہار میں

اک دن پھریں بے انت میں
اک دن چلیں خمار میں

دو دن رکیں گرہست میں
اک دن کسی دیار میں

اک دن رہیں بہار میں

کہتے ہیں انسان کی شخصیت کی بنیادی اینٹیں اس کے بچپن میں ہی لگ جاتی ہیں میں صبح آفس جانے کے لیے کراچی میں رب میڈیکل کے سگنل پر رکتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ لوگ موٹر سائیکل پر اپنے بچوں کو سکول لے کر جا رہے ہوتے ہیں اور اکثریت سگنل کو توڑ کر جلدی پہنچنے کی فکر میں ہوتے ہیں گویا وہ اپنے بچوں کے دماغ میں بچپن سے ہی قانون توڑنے کی پروگرامنگ کر دیتے ہیں۔

بابر علی کے والد صاحب پی آئی اے میں کام کرتے تھے ایماندار اور اصولوں کے پابند یہی چیز انہوں نے اپنے والد صاحب سے سیکھی جو بزنس میں ان کی کامیابی کا باعث بنی۔

کہنے لگے میرے والد صاحب آفس سے پی آئی اے کی کوسٹر پر گھر کی طرف سفر کرتے ہوئے اپنے کولیگز کو کھانے کی دعوت دے دیتے تھے گھر فون کرتے ہیں اور اپنی وائف (بابر صاحب کی والدہ) کو کہتے کہ میں آٹھ، دس بندوں کے ساتھ آ رہا ہوں۔ آپ کھانا تیار رکھو اور وہ اللہ کی بندی ماتھے پر کوئی جنبش لائے بغیر کھانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتیں۔

ہم یہاں ستر اور اسی کی دہائی کی بات کر رہے ہیں بابر صاحب کہتے ہیں کہ تندور سے روٹی لانے کا کوئی تصور نہیں تھا روٹیاں اور سالن سب کچھ گھر میں تیار ہوتا والدین سے سیکھی ہوئی مہمان نوازی ان کی شخصیت کا خاصہ ہے اور اس کی اینٹیں ان کے بچپن میں ہی لگ گئی تھیں۔

بابر علی سترہ سال کی عمر میں ملائیشیا چلے گئے تھے وہاں تعلیم حاصل کی اور پھر کنسٹرکشن اور ہوٹلنگ کا بزنس کیا ان کا مین کام کنسٹرکشن کا تھا بحیثیت ورکر ملائیشیا میں ایک کمپنی میں کام شروع کیا دن رات کی محنت کے بعد اس کمپنی میں پارٹنر بن گئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کامیابی کے پرنسپلز پر بات کرتے ہوئے ایکشن لینے کی اہمیت پر زور دیا کہ خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر عملی قدم اٹھایا جائے۔

مولانا رومی بیان کرتے ہیں جہاز میں اسباب بھرو اور روانہ ہو جاؤ کیونکہ اس بات کا کسی کو علم نہیں ہوتا کہ جہاز بیچ سمندر ڈوبے گا یا ساحل پر جاپہنچے گا۔ باخبر لوگ کہتے ہیں: "ہم اس وقت تک کچھ نہیں کریں گے جب تک ہمیں یقین نہ ہو جائے لیکن اس بات کو تاجر اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ کچھ نہیں کریں گے تو نقصان اٹھا ئیں گے لہذا ان تاجروں میں اپنا شمار مت کرو جو سمندر کے خطرات کا خدشہ نہیں مول لیتے۔

اپنی کامیابی میں فوکس سے کام کرنے کی بات کی اپنے والد صاحب کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ہمیں سائن بورڈز پڑھنے کی عملی ترغیب دی اس پریکٹس کی وجہ سے انہیں راستے یاد رہتے تھے ہر وقت ایکٹو رہ کر سفر کرتے تھے یہی عادت ملائشیا میں ان کے کام آئی ہر روڈ پر سائن بورڈ پڑھنے کی وجہ سے راستے یاد رہتے تھے۔

اپنے سکول کے دنوں کے بارے میں بتایا کہ انگریزی زبان سیکھنے کا شوق تھا اور بولنے کی یہ مہارت ہر قدم پر ان کی کامیابی میں ہم رکاب رہی۔

ہم نے ایکشن لینے کی اہمیت پر بات کی بابر صاحب نویں جماعت میں تھے اس وقت بھی اتوار بازار میں سٹال لگاتے تھے۔ ملائشیا میں سترہ، اٹھارہ سال کی عمر میں سنڈے کے دن کام کرتے گھروں میں کیاریاں بناتے اور ڈور ٹو ڈور جا کر کپڑے بیچتے۔

جیسے پہلے بیان کیا کہ ورکر کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا اور پھر اسی کمپنی میں پارٹنر بنے۔ ملائشیا کی مقامی زبان وہاں کے لوکل لوگوں کی طرح روانی سے بولتے ہیں کہ کوئی شخص تمیز نہیں کر سکتا کہ یہ شخص فارنر ہے۔

آپ لوگ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سکل کو ڈیویلپ کرنے میں کتنی محنت لگی ہوگی۔ ان کی زندگی ہمہ جہت ہے اسلام آباد میں رہے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ بحیثیت پروڈیوسر کام کیا۔ ان کا اسلام آباد میں موجود گھر دوستوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا۔

پوری دنیا سے گورے بھی بڑی تعداد میں ان کے پاس آتے اور ہفتوں ان کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ انہی میں ویت نام کا مشہور رائٹر ہوئی بھی شامل تھا ہوئی نے پاکستان کے بارے میں لکھے ہوئے ناول کو بابر صاحب کے نام سے موسوم کیا۔ ہوئی نے پاکستانی لوگوں کی محبت کے بارے میں بتایا اپنے لاہور میں قیام کے دوران وہ ڈائیوو کے بس سٹینڈ پر موجود ہوتے ہیں۔

اور ایک مقامی شخص کو بتاتے ہیں کہ میں اب ایک اور شہر جانا چاہتا ہوں شہر کا نام بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس کا ٹکٹ کون سے کاؤنٹر سے ملے گا وہ پاکستانی شخص انہیں کرسی پر بیٹھنے کا کہتا ہے کاؤنٹر پر جا کر اپنی جیب سے ٹکٹ لے کر مسٹر ہوئی کے حوالے کرتا ہے اور ہوئی کو خوشگوار حیرت میں مبتلا چھوڑ کر وہاں سے چلا جاتا ہے۔

پاکستان کے سابق سفیر حسن حبیب صاحب کا سنایا ہوا یہ واقعہ یاد آگیا، کہتے ہیں یہ پرویز مشرف کے دور کی بات ہے دہشت گردی کا ناسور پاکستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا۔ سوات کے نیشنل میوزیم کا عملہ دن میں اپنا کام ختم کرکے گھر واپسی کی تیاری کر رہا تھا کہ دہشت گردوں کا ایک مسلح گروہ میوزیم کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میوزیم میں موجود قیمتی اور نایاب نوادرات، جن میں سے بیشتر کا تعلق گندھارا کی بدھا تہذیب سے تھا کو تباہ کیا جائے۔ میوزیم کا عملہ ان سے درخواست کرتا ہے کہ آپ یہ کام نہ کریں۔ دہشت گردوں کی آنکھوں میں خون سوار ہوتا ہے اور وہ سختی سے عملے کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ گفتگو جاری رہتی ہے، جدید آٹومیٹک اسلحہ نکالا جاتا ہے اور یہاں پر ایک حیران کن واقعہ پیش آتا ہے۔ میوزیم کا عملہ ان دہشت گردوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ اگر آپ میوزیم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام ہماری زندگیوں میں نہیں ہو سکتا آپ پہلے ہم سب کو قتل کر دیں اور اس کے بعد اپنا کام کریں۔

دہشت گردوں کی عقل حیران تھی کہ میوزیم کا عملہ جس کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی بدھا کے نوادرات کو بچانے کے لیے اپنی جان کیوں دینا چاہ رہا ہے؟ وہ عملے کو دھمکاتے ہیں ان کے سینے پر اسلحہ رکھ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے وہ بہادر سپوت اپنی جگہ چھوڑنے سے انکار کر دیتے ہیں اور دہشت گرد ناکام واپس چلے جاتے ہیں۔

حسن حبیب نے یہ سچا واقعہ میرے ساتھ شیئر کیا اور بتایا کہ ثاقب صاحب سوئٹرز لینڈ میں گندھارا ایگزیبیشن کے حوالے سے ایک تقریب میں اسی ٹیم کے کچھ لوگوں کو بلایا گیا اور ہزاروں شرکاء کے سامنے جب یہ واقعہ بیان کیا گیا تو دنیا بھر سے موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کے سر احترام سے جھکے ہوئے تھے۔

جی ہاں یہ پاکستان ہے۔ ایک بار پھر منیر نیازی۔۔

روشنی در روشنی ہے اس طرف
زندگی در زندگی ہے اس طرف

بابر علی نے نوجوانوں کے لیے میسج دیا کہ زندگی میں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے کامیابی صبر کے ساتھ کام کرنے کا نام ہے زندگی میں عاجز رہیں ملائشیا میں کیے ہوئے بزنسز کے بارے میں بتایا کہ ہم وہاں کمپنیوں کو لیبر پرووائڈ کرتے تھے اور ہمارے پاس تین سو سے زیادہ لوگ موجود تھے۔

ملازموں کا خیال رکھنا کیونکہ ان کی ترجیح تھی اس لیے لوگ ان کے ساتھ جڑ کر رہتے تھے۔

مستقل سیکھنے اور متحرک رہنے پر زور دیا بابر صاحب نے ٹریولنگ ایجنسی کھولی بحیثیت سی۔ این۔ جی سٹیشن کنسلٹنٹ درجنو ں سٹیشن پورے پاکستان میں لگائے۔

این ایل پی کی ٹریننگ بھی لی ان کی والدہ کینیڈا میں ایک ایکٹو زندگی گزار رہی ہیں وہ ٹریولنگ کی شوقین ہیں ان سے ہی یہ عادت ان کے بچوں میں منتقل ہوئی۔

اپنی شریک حیات کا تذکرہ کیا کہ آپ کی بیوی جب آپ کے مقصد کے ساتھ جڑ جائے تو آپ ناکام نہیں ہو سکتے آج کل لوگوں کو ہیلنگ بھی سکھاتے ہیں اور مستقبل کے بہت سے خواب ان کے دماغ میں موجود ہیں۔

اور آخر میں ان کی ایکشن لینے کی اہمیت کو بیان کرتا ہوا الطاف حسین حالی کا یہ خوبصورت قول۔۔

کمال کفش دوزی علم افلاطون سے بہتر ہے

ایک جوتے سینے والا (موچی) افلاطون کا علم رکھنے والے(اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگار انسان) سے بہتر ہے۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a Mental Health Consultant with over a decade of experience in hypnotherapy, leadership development, mindfulness and emotional intelligence.

He is also a seasoned writer, having authored over 150 columns and a renowned book. Alongside his work as a corporate trainer, he actively researches, compiles and documents the success stories of remarkable Pakistani personalities through the lens of Mind Sciences.

If you know someone with an inspiring story worth sharing, you can refer them to him. Muhammad Saqib will personally interview them to document their journey.

For Mind Sciences Consultation and Sales Training, you can reach him via WhatsApp at 0300-9273773.

Check Also

Mushtarka Khandan Aur Jadeed Samaj

By Javed Ayaz Khan